ColumnImtiaz Aasi

مذہب کارڈ

امتیاز عاصی
اسلام میں بہتان تراشی پر سخت وعید ہے۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر بہتان لگانا شرعا جائز نہیں۔ پاکستان کے سیاسی ماحول میں سیاست دانوں کے پاس عوام کو منہ دکھانے کے لئے کوئی قابل قبول بیانیہ نہیں ہوتا تو اپنے مخالف سیاست دانوں کے خلاف مذہب کار ڈ کا استعمال کرتے ہیں۔ بعض مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے مخالف سیاست دانوں کو زچ کرنے کے لئے مذہب کارڈ کو وتیرہ بنا لیا ہے۔ تعجب ہے وہ عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا کریڈٹ لیتے وقت ان قوتوں کا نام لینے سے گریز کرتے ہیں جن کی بدولت وہ عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہوئے۔ اپنے صوبے میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں دو مرتبہ شکست سے دوچار ہونے کے بعد اب دوسرے صوبوں کا رخ کر لیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ووٹ بنک کو نقصان پہنچا سکیں۔ حقیقت یہ ہے جن سیاست دانوں کا مقصد حیات اقتدار ہو اقتدار کے بغیر ان کے لئے شب و روز گزارنا دشوار ہو جاتا ہے ۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال کا شکار وہ سیاست دان ہیں جو عمران خان کی مقبولیت سے خائف ہیں۔ عمران خان کو کریڈٹ جاتا ہے جس نے برسوں کی کے پی کے میں ایک مذہبی جماعت کی اجارہ داری کا خاتمہ کرنے کار ریکارڈ قائم کیا۔ دوسروں پر کفر کے فتوے لگانا اور انہیں یہودیوں کا ایجنٹ قرار دینے والے اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے عشروں سے مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں نے اسلام کی کیا خدمت کی ہے۔ مدارس کے بچوں کو اسلام آباد میں دھرنوں کے لئے لانا اسلام کی خدمت ہی تو پھر ۔۔۔ حیرت ہے عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دینے والوں کو کوئی ثبوت تو سامنے لانا چاہیے۔ افسوس ہے اس ملک میں نہ کوئی قانون ہے اور نہ قانون پر عمل داری ورنہ یہی لوگ کسی دوسرے ملک میں رہ کر دوسروں پر جھوٹے الزامات لگاتے تو انہیں جھوٹ بولنے کا خمیازہ بھگتنا پڑتا۔ ہمیں یاد ہے بھٹو دور کے وزیر مولانا کوثر نیازی کے خلاف ایک اردو معاصر نے جھوٹی خبر شائع کی تو اخبار کے خلاف مقدمہ کر دیا گیا جس فیصلہ اخبار کے خلاف آیا تھا۔ برطانیہ میں دیکھ لیں کئی ایک نجی چینلز کے خلاف وہاں کی عدالتوں نے غلط خبروں کے پھیلانے کی پاداش میں بھاری جرمانے کئے۔ سیاسی رہنمائوں کو اپنے مخالف سیاست دانوں کے خلاف جھوٹے اور کمزور بیانیوں سے گریز کرنا چاہیے۔ جھوٹے الزامات لگانے سے الزام لگانے والوں کی اصلیت ظاہر ہوتی ہے لہذا سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو صاف ستھری سیاست کو فروغ دنیا چاہیے۔ کوئی مانے نہ مانے عمران خان نے اپنے اقتدار کے دوران خواہ عوام کے لئے کچھ نہ کیا ہو ملک و قوم کو لوٹنے والوں کی اصلیت سے عوام کو روشناس کرایا ہے ۔ کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف عمران خان کے بیائنے نے ان کی سیاست کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ پنجاب جسے شریف خاندان اپنا قلعہ تصور کرتا تھا ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد مسلم لیگ نون کا یہ دعویٰ ہوا میں اڑ گیا۔ درحقیقت عوام مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی دونوں سے ناخوش ہیں جنہوں نے کئی مرتبہ اقتدار میں آنے کے باوجود غریب عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے ذاتی مفادات کو فوقیت دی جس کی واضح مثال پی ڈی ایم کے دور میں نیب قوانین میں ترامیم کرکے اپنے خلاف مقدمات ختم کرانا ہے۔ عوام اتنے بیوقوف نہیں جنہیں مہنگائی ختم کرنے کا وعدہ کرکے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے سے زیادہ مہنگائی کے چنگل میں چھوڑ جانے والوں کو انتخابات میں اپنی مقبولیت کا بخوبی علم ہو جائے گا۔ سیاست دانوں نے ایک دوسرے کے خلاف بے بنیاد الزامات لگانے کی روش ترک نہ کی تو عوام ان کا محاسبہ کریں گے۔ کئی عشروں سے عوام کے ساتھ جھوٹ بولنے والے سیاست دانوں کا برا وقت قریب ہے عوام ووٹ کی طاقت سے انہیں شکست دیں گے۔ انتخابات منصفانہ ہوئے تو عوام کی خدمت اور انہیں لوٹنے والوں کو ان کی اصلیت کا علم ہو جائے گا۔ اخبارات، نجی چینلز اور سوشل میڈیا پر خیالی پلائو پکانے والے سیاسی رہنمائوں کی سیاست کے ختم ہونے کا وقت قریب ہے۔ عوام باشعور ہو چکے ہیں انہیں اچھے اور برے سیاست دانوں کی تمیز ہو چکی ہے۔ اب وہ سیاست دانوں کے جھوٹے وعدوں اور فریب میں آنے کو تیار نہیں۔ عجیب تماشا ہے کرپشن مقدمات درج ہونے کے بعد رکھ دیئے جاتے ہیں جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو مبینہ کرپشن میں ملوث سیاست دان بری ہو جاتے ہیں حالانکہ جس حکومت کے دور میں مقدمات درج ہوں انہی کے دور میں مقدمات کا فیصلہ ہونا چاہیے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ انتخابا ت کے انعقاد کے لئے الیکشن کمیشن نے فوج کی خدمات طلب کر لی ہیں۔ پہلے ضمنی الیکشن کے دوران افواج تو دہشت گردی کے خلاف مصروف عمل تھیں اب دیکھئے آنے والے الیکشن میں الیکشن کمیشن کو فوج کی خدمات حاصل ہو تی ہیں یا نہیں۔ ہم بات کر رہے تھے مذہبی کار ڈ کی افسوس ہے مذہب کا نام استعمال کرنے والوں نے ایوانوں میں رہ کر اسلام کی کوئی خدمت نہیں کی۔ کوئی ایک قانون تو بتا دیں جو انہوں نے ایوان میں رہتے ہوئے بنایا ہو۔ چلیں مارشل لاء دور میں سہی جنرل ضیاء الحق کے دور میں کم از کم قصاص و دیت قوانین بنائے گئے۔ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نون او ر ان کی اتحادی جماعتوں نے ماسوائے اقتدار کے مزے لوٹنے کے اسلام کی کیا خدمت کی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے جب کبھی کسی حکومت کے خلاف دھرنے کی ضرورت پڑی مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو اسلام آباد لا کر دھرنا دیا۔ دینی جماعتوں کے سربراہوں کی عزت و احترام اپنی جگہ اگر وہ اسلام کی خدمت نہیں کر سکتے تو انہیں اپنی سیاست میں اسلام کا نام استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اپنی سیاست کو اسلامی ٹچ دے کر اب وہ پہلے کی طرح اقتدار اکے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکیں گے لہذا انہیں سیاست میں اسلام کو لا کر عوام کو بیوقوف نہیں بنانا چاہیے۔ مذہب کی آڑ میں کسی کی بے توقیری سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ الٹا عوام انہیں ہی برا کہیں گے لہذا سیاست میں مذہبی کارڈ کو استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button