CM RizwanColumn

ہماری معاشی تباہی، عالمی بینک کی گواہی

تحریر : سی ایم رضوان
کس قدر دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ملک کے غریب طبقے کے حالات کی ترجمانی اور بالادست طبقوں کے مظالم کی کہانی لکھنے کے لئے اب ہمارے جیسے لکھنے والوں کے لئے کسی قسم کی لفاظی اور تخیلاتی تشبیہات ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ نوے کی دہائی تک یہ کوشش کرنا پڑتی تھی کہ آنے والے حالات کی سنگینی کے لئے افریقہ یا دنیا کے کسی بنجر اور قحط زدہ ملک کی مثال ڈھونڈی جائے لیکن اس کے بعد آنے والے حکمرانوں اور ان کی پالیسیوں نے آج یہ تحریری مشکل حل کر دی ہے جبکہ کلائمیٹ چینج نامی عذاب نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ اب خود عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے ایسے الفاظ استعمال کر رہے ہیں کہ پاکستان کا لکھنے والا انہی کے الفاظ استعمال کر کے عام پاکستانی کی تباہی کی ترجمانی کر سکتا ہے۔ ویسے تو دو ماہ پہلے ہی عالمی بینک نے پاکستان کو دنیا کے غریب اور مقروض ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا تھا اور بجا طور پر پاکستان کو ہائی لیکوڈیٹی رسک، کم زرمبادلہ کے ذخائر، غیر مستحکم سیاسی ماحول، بیرونی اکائونٹس کے جھٹکوں کے متعدد خطرات کا شکار ملک قرار دے دیا تھا۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے غریب ممالک کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ 2027ء تک پاکستان کا قرضہ جی ڈی پی کے 89.3فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ عالمی بینک حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ارکان پارلیمنٹ، کابینہ کے ارکان، وزرائے خزانہ، کابینہ کمیٹی اور قائمہ کمیٹیوں کے ممبران ٹیکس پالیسی مرتب کرنے میں زبردست اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں۔ یہ عمل ملک میں معاشی اصلاحات کو روکتا ہے۔ عالمی بینک نے یہ بھی تجویز کیا کہ سبسڈیز میں کمی کے لئے مجموعی ٹیکس اقدامات کیے جائیں اور سالانہ بنیادوں پر دو ہزار 723ارب روپے مالی خساری میں کمی لانے کے لئے اخراجات کو کم کیا جائے۔ عالمی بینک حکام کے مطابق پاکستان کا میکرو اکنامک آئوٹ لک غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے۔ یہ تجویز بھی دی تھی کہ مختصر مدت کے لئے رواں مالی سال کے بجٹ اور آئی ایم ایف سٹینڈ بائی معاہدے، مارکیٹ کی بنیاد پر کرنسی کی قدر کا تعین، مانیٹری و مالیاتی پالیسی پر عملدرآمد میکرو اور سیاسی و پالیسی عدم استحکام میں کمی سے اکنامک استحکام آ سکتا ہے۔
ان تجاویز پر بھی کان نہ دھرا گیا اور ہمارے ذمہ دار اپنی گروہی ترجیحات میں ہی الجھے رہے نتیجتاً معاشی تباہی مزید سنگین ہو گئی جس پر گزشتہ روز عالمی بینک نے پاکستان کے روشن مستقبل کے لئے ممکنہ اصلاحات پر مبنی تجاویز اور ابتری کی عکاس رپورٹ جاری کر دی جس کے مطابق پاکستان کو ہیومن کیپیٹل کے بحران کا سامنا ہے اس کے علاوہ دستیاب انسانی وسائل کا کم استعمال ملکی پیداوار اور ترقی کو متاثر کر رہا ہے۔ مزید کہا گیا کہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر 40فیصد بچے اسٹنٹنگ کا شکار ہیں اور دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان میں دو کروڑ سے زیادہ بچے سکول سے باہر ہیں جبکہ 10سال سے کم عمر کے 79فیصد بچے پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ پچھلے مہینے ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کے لئے 18کروڑ ڈالرز قرض کی منظور ی دی لیکن یہ بالآخر قرض ہی ہے جو خرچ تو ملک کے بالادست طبقات اپنی مرضی اور فائدے کے مطابق کریں گے مگر یہ قرض کل کلاں ملک کے غریب طبقات اپنے خون پسینے کی کمائی سے واپس کریں گے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ لو جی اب اتنے ارب ڈالر ملکی اکانومی میں شامل ہو گئے ہیں۔ اب معیشت سنبھل جائے گی مگر اس قرض کی منظوری کے بعد بھی ایسا نہیں ہوا اور اس کے بعد عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کو بلند مالی خسارے کا سامنا ہے اور پاکستان کے ذمے قرضہ مقررہ قانونی حد سے زیادہ 78 فیصد کی بلند شرح پر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا زرعی شعبہ غیر پیداواری اور جمود کا شکار ہے، زرعی شعبے کا جی ڈی پی میں حصہ 23فیصد ہے، زرعی ملک ہونے کے باوجود اس کا زرعی شعبہ صرف 40فیصد لیبر فورس کو روزگار فراہم کرتا ہے جبکہ توانائی کا شعبہ ناقابلِ انحصار اور معیشت پر بھاری ہے، اسی طرح ملک کا سرکاری شعبہ غیر مثر ہے اور پاکستان کا 10فیصد غریب ترین طبقہ 10فیصد امیر ترین طبقے سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے، تعلیم، صحت کی سہولتوں کو دیکھا جائے تو پاکستان کے غریب عوام صحارا کے افریقی ممالک کے ہم پلہ نظر آتے ہیں، وہ ملک جو کبھی فی کس آمدن کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہوا کرتا تھا اب وہ آخری نمبروں میں ہے۔ ہیومن کیپٹل کا بحران ہے، 2022ء مالی سال کے اختتام تک مالی خسارہ 22سال کی بلند ترین سطح یعنی 79فیصد تک پہنچ چکا تھا جبکہ قرضے مقررہ قانونی حد سے زیادہ یعنی 78فیصد تک پہنچ چکے تھے، پالیسیوں میں عدم تسلسل کے سبب برآمدات اور سرمایہ کاری میں کمی آ گئی۔ سرمایہ کاری کا شعبہ بھی غیر موثر اور پالیسی فیصلے بے سود ہیں۔ تازہ رپورٹ میں پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی مخالفت کرتے ہوئے ورلڈ بینک کے نائب صدر نے کہا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بجائے لائن لاسز کو کم کیا جائے، مقامی قرض موخر کرنے سے بینکنگ سیکٹر اور سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح دو سے تین فیصد بڑھانا ہو گی، اخراجات اور ٹیکس اصلاحات پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس اگلے ماہ ہو گا جس میں پاکستان کیلئے دو ارب ڈالر کی منظوری دی جائے گی۔
پاکستان کے ابتر معاشی حالات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن عالمی بینک کی اِس رپورٹ نے انتہائی باریک بینی سے پاکستان کو درپیش اصل مسائل کا مفصل جائزہ پیش کیا ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کے ہیومن کیپٹل کی بدترین صورتحال پر بات کی گئی اور کہا گیا ہے کہ ایک ایسا ملک جس کی زیادہ تر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن پھر بھی ہیومن کیپٹل کا بحران ہے، آج کا پڑھا لکھا نوجوان ملک میں رہنا ہی نہیں چاہتا، اُس کی ساری دلچسپی باہر جا کر اپنی دنیا بسانے پر مرکوز ہے کیونکہ اس کے خیال میں یہاں روزگار کے مواقع فراہم نہیں کئے جا رہے۔ اِس کے علاوہ اگر دو کروڑ بچے سکول ہی نہیں جا رہے تو بہتر مستقبل کی اُمید لگانا عبث ہے۔
یاد رہے کہ کسی بھی ملک کی لیڈر شپ ایسے اقدامات کرتی ہے جن سے ساری قوم ترقی کر سکے لیکن اگر ہماری لیڈر شپ ہی ایسی پالیسیاں نافذ کرے کہ جن سے غریب طبقے کی بجائے صرف امیر طبقے کو فائدہ مل سکے تو ملک کیا خاک ترقی کرے گا۔ ان حالات میں اگر عالمی بینک کی رپورٹ کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ستم یہ کہ وقتاً فوقتاً اِس طرح کی رپورٹس سامنے آتی رہتی ہیں، کبھی آئی ایم ایف پاکستان کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتا نظر آتا ہے تو کبھی عالمی بینک کی رپورٹس ہماری کوتاہیوں کا رونا روتی ہیں مگر ہمارے پالیسی ساز اپنی ذاتی کمائی سمیٹنے کے چکر میں ملک وقوم کی سلامتی تک سے لاغرض ہو چکے ہیں۔ یہ امر بھی انہیں شرمسار نہیں کرتا کہ بنگلہ دیش ہمارے بعد معرضِ وجود میں آیا تھا لیکن ہم سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔ ایک خبر ہے کہ ہمارا عظیم دوست ملک چین ہمیں عنقریب ایسے جدید آلات فراہم کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے جن کی موجودگی میں ملک میں آسمانی بجلی گرنے سے پہلے ہی پتہ چل سکے گا، کاش کہ وہ ہمارے حکمران طبقے کو احساس کی دولت بھی فراہم کر سکتا کہ وہ اپنے اربوں ڈالر کے ذاتی اثاثوں میں سے چند ارب ڈالر ملکی معیشت میں شامل کر کے یہاں کے غریب عوام کو بھوک سے مرنے سے بچا لیتے مگر افسوس کہ ایسا کوئی آلہ چین جیسا جدید تکنیکی ملک بھی ایجاد نہیں کر سکا جو ہمارے بالادست طبقات کے ضمیر کو زندہ کر سکے جن کو اس وقت یہ سمجھنا لازم ہے کہ موجودہ حالات کا مقابلہ صرف بیرونی امداد کے سر پر نہیں کیا جا سکتا، ہمیں اپنی روش بدلنا ہو گی، انداز و اطوار پر غور کرنا ہو گا۔ یہ احساس ضرور پیدا ہونا چاہیے کہ جس ملک کا امیر ترین طبقہ غریب ترین طبقے سے کم ٹیکس دیتا ہو، اس ملک کے وسائل کو بے دریغ استعمال کرتا ہو، حکمران معاشی پالیسیاں اپنے اور اپنے پیاروں کی محبت میں بنائیں تو ظاہر ہے اُس کے لئے مشکلات کا انبار ہی ہو گا۔ غریب ترین افریقی ممالک کی مثال سب کے سامنے ہے اور اب پاکستان کو اِن کے برابر قرار دیا جا رہا ہے، اِس سے زیادہ افسوس ناک بات اور کیا ہو گی کہ ہمارے ارباب اختیار دوسروں کو تو سادگی کی تلقین کرتے ہیں لیکن خود اِس سے کوسوں دور ہیں، ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں لیکن خود اپنی عادات و اطوار بدلنے کو تیار نہیں۔ صرف بااختیار طبقات کو اپنی صفوں کو درست کرنا ہو گا، ملک کی بہتری کے لئے خلوصِ دِل سے اقدامات کرنا ہوں گے، حکمرانوں کو صحیح معنوں میں عوام کا نمائندہ بننا ہو گا، پالیسیوں میں تسلسل قائم کرنا ہو گا۔ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا۔ اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں، حکومتی آمدنی اور اخراجات میں توازن پیدا کرنا ہو گا، اپنی آمدنی کے مطابق سرمایہ داروں کو بھی پورا ٹیکس دینا ہو گا۔ ہر قوم کے سفر میں اتار چڑھائو آتے ہیں، ہر کوئی گر کر سنبھلتا ہے بشرطیکہ آگے بڑھنے کی لگن ہو اور نیت صاف ہو جبکہ نیت صاف تو ہمارے حکمران طبقے کو درست کرنا ہے۔ عام پاکستانی تو اس وقت جبر اور حالات کی سنگینی کا شکار ہے اور اپنی بساط سے کہیں زیادہ ٹیکس بھی دے رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button