ہاسٹل میں پڑھنا
تحریر : عامر جاوید اعوان
ٹھیک ایک صدی پہلے کا قصہ ہے پیر و مرشد پطرس بخاری نے ہاسٹل میں پڑھنا کے عنوان سے ایک معرکۃ الارا مضمون لکھا تھا یہ دراصل ان کی ہاسٹل میں پڑھنے کی حسرت ناکام کا نوحہ ہے واقعہ کچھ یوں ہوا کہ ان کے بزرگوں نے انہیں لاہور پڑھنے تو بھیج دیا مگر معززین شہر کی رائے کو صائب جانتے ہوئے ان کے اخلاق و کردار کے لیے ہاسٹل کو مضر سمجھا کئی دہائیوں سے ارباب اختیار یہ مضمون درسی کتب میں پڑھا رہے ہیں یہ واضح نہیں کہ اس کا مقصد طلبا کو ہاسٹل آنے پہ مائل کرنا ہے یا ان کے والدین کو ہاسٹل میں داخلے سے روکنے پر قائل کرنا ہے 1980میں سرگودھا بورڈ سے میٹرک کرنے کے بعد ہمارے بزرگوں نے ہمارے اساتذہ کے مشورے پر ہمیں گورنمنٹ کالج لاہور بھیجنے کا فیصلہ کیا بھلا ہو کہ انہوں نے ہمارے ہاسٹل میں داخلے کے بارے میں کوئی روڑے نہ اٹکائے شاید وہ ہمارے لیے لاہور میں کوئی ماموں تلاش نہیں کر سکتے تھے جی سی ابھی تک ہی جی سی ہی تھا اور ا سے یونیورسٹی کے لاحقے کا مرض لاحق نہیں ہوا تھا، داخل تو ہم اقبال ہاسٹل میں ہوئے تھے مگر دنوں اس ہاسٹل کے وارڈن نور محمد صاحب ہوا کرتے تھے یار لوگوں نے انہیں داروغہ جیل کا خطاب دے رکھا تھا جو کہ زیادہ غلط نہ تھا بس اتنی رعایت دی جا سکتی تھی کہ انہیں کسی ملٹری اکیڈمی کا کمانڈنٹ کہا جا سکتا تھا۔ پطرس کے ہاسٹل کے بارے میں دکھائے سپنے کجا یہاں تو بنیادی انسانی حقوق بھی معطل تھے کچھ صاحب اسرار احباب کی رائے تھی کہ پطرس نے دراصل نیو ہاسٹل میں رہنے کا خواب دیکھا تھا سو ہم نے بعد از خرابی بسیار اپنا داخلہ نیو ہاسٹل میں کروا لیا یہ سینئر طلباء کے لیے تھا مگر انٹر کے پسماندگان کو بھی اقامت دے دی جاتی تھی۔ نیو ہاسٹل کے بالکل سامنے سڑک پر ناصر باغ واقع ہے یہ تاریخی طور پر سیاسی جلسوں کے لیے معروف تھا مگر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا نے چونکہ ایسے اجتماعات کو حرام قرار دے رکھا تھا اور ناصر باغ ان دنوں فاسٹ فوڈ والوں کی کمرشل ایکٹیوٹی سے محفوظ تھا سو صبح سویرے یہاں لاہوری چہل قدمی اور ورزش کرتے تھے جبکہ شام ڈھلے ہاسٹل کے ہم جیسے بادہ نشیں پڑھنے کے نام پر محفل بپا کرتے افسوس کہ باغ میں پڑھنے والوں کی میں سے کوئی نامور نہ ہو سکا بلکہ بقول شخصے ان میں سے زیادہ تر نامعلوم افراد ہی نکلے ہاسٹل میں ایم اے کلاسز کے طلباء کی بادشاہی تھی ایم اے انگلش کے طلبہ جو مستقبل میں سی ایس ایس کر کے افسر شاہی کا حصہ بننے کے متمنی تھے ان میں ابھی سے شاہانہ کروفر موجود تھا بلا شبہ ان میں سے ایک بڑی تعداد مستقبل میں اس کیڈر کا حصہ بنی فائنل ایئر کے طالب علم خضر حیات گوندل جو ہمارے ہاسٹل کے پریزیڈنٹ بھی تھے چند برس قبل چیف سیکرٹری پنجاب کی عہدے پر متمکن رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے ہیں اسی طرح دھیمے مزاج کے جاوید غنی صاحب چیئرمین ایف بی آر کے عہدے تک پہنچے ہاسٹل کی ہر دل عزیز شخصیت خالد منظور بسرا تھے موصوف سردیوں کی راتوں میں بانسری کی دھن الاپتے تھے ہم جیسے انٹر کے طفلان مکتب دن میں ان کی زیارت جی سی کی مسجد کے پہلو میں واقع لو گارڈن میں کرتے جہاں وہ اپنی ہم جماعت اور بعد میں اجوکا تھیٹر کی روح رواں مدیحہ گوہر کے ہمراہ کیٹس اور بلھے شاہ کی شاعری کی گتھیاں سلجھاتے بعد میں دونوں نے شادی کر لی تھی مگر اس شادی کا انجام کوئی خوشگوار اور دیرپا نہ ہوا ہاسٹل میں ایک بڑی تعداد سیاسیات کے طالب علموں کی تھی ملک میں مارشل لاء کی وجہ سے سیاست تو شجر ممنوعہ تھی مگر ان اصحاب نے اپنے علم کا عملی اطلاق کر کے ہاسٹل میں رجیم چینج کر ڈالا ان دنوں ہاسٹل کے وارڈن پروفیسر اظہر رضوی صاحب تھے آپ شعبہ نفسیات کے سربراہ تھے آپ کے بارے میں مشہور تھا کہ آپ لڑکوں کو نفسیات کی تعلیم کے لیے ناموزوں سمجھتے ہیں یوں شعبہ نفسیات میں خواتین کا غلبہ تھا صرف نظر بٹو کے طور پر چند بے ڈھبے لڑکوں کو داخلہ ملتا ان کی بھلے مانسی کا فائدہ اٹھا کر شعبہ سیاسیات کی طلباء کی سرکردگی میں ان کے خلاف نام نہاد الزامات لگا کر احتجاج کیا گیا بعد میں بیرونی امداد کے سبب یہ عدم اعتماد ایک نگران انتظامیہ پر منتج ہوا اور شعبہ سیاسیات سے پروفیسر امان اللہ ورک صاحب ہمارے وارڈن آگئے مگر نگران حکومتوں کی طرح یہ دور ورکاں لمبا ہی چلا۔ شعبہ طبیعات کے طلباء کی اکثریت کا تعلق ان علاقوں سے تھا جہاں یورینیم پایا جاتا ہے دلچسپ معاملہ یہ ہے کہ بعد میں ان میں سے کئی احباب نے یورینیم کی افزودگی میں بڑا نام کمایا تابناک ماضی کی طرح اس دور میں بھی جی سی میں معروف اساتذہ کی ایک کہکشاں موجود تھی مگر ہم صرف ان احباب کا تذکرہ کریں گے جن سے ہم نے تلمذ حاصل کیا مختصر عرصے کے لیے ہمیں مشہور اور ہر دل عزیز شاعر ناصر کاظمی کے صاحبزادے باصر سلطان کاظمی سے انگریزی پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا آپ سلیبس سے صرف نظر کرتے ہوئے ناصر کاظمی صاحب کے اشعار کا انگریزی تراجم سناتے ان کی کلاس کا ایک حسن یہ بھی تھا کہ آپ کسی بھی وقت کلاس سے کھسک سکتے تھے اردو ہم نے دو اساتذہ سے پڑھی اور خوب پڑھی سال اول میں مشہور افسانہ نگار غلام ثقلین نقوی ہمارے ٹیچر تھے آپ تھے تو نثرنگار مگر مزاج میں درویشی شاعروں والی تھی ان دنوں میں پی ٹی وی پر ان کا ایک ڈرامہ میرا گائوں بڑا مشہور تھا لیکن اس کا تذکرہ تک کبھی نہ کیا وہ پرانی نسل کی ایک سائیکل پر تشریف لاتے تھے سال دو ایم اے میں ہمارے اردو کے ٹیچر ڈاکٹر مظفر عباس تھے آپ ڈسپلن کے معاملے میں بہت سخت تھے آپ واقعی علم کا بحر بیکراں تھے ان کے لیکچر کے دوران کلاس میں سناٹا چھایا ہوا ہوتا تھا یوں لگتا تھا کہ علم کا ایک بحر بیکراں رواں دواں ہے بیالوجی کے ہمارے استاد ڈاکٹر شامی شاندار شخصیت کے مالک وجیہ اور خوبصورت تھے تازہ تازہ امریکہ سے پی ایچ ڈی کر کے لوٹے تھے ان کا امریکن ایکسنٹ آدھی کلاس کے سر سے گزر جاتا۔ شروع میں ڈاکٹر فضا الرحمان صاحب پرنسپل تھے کبھی کبھار دفتر سے باہر نکل کر چہل قدمی کرتے تو یوں لگتا جیسے کوئی سربین پرنٹس دورے پر ہے بعد میں آنے والے عبدالمجید اعوان صاحب شاید دیہات کے کوٹے سے آئے تھے بظاہر دھیما مزاج پایا تھا اس سنہرے دور میں جی سی اور ہاسٹل میں بیرون ملک خصوصا مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے طلباء بھی مقیم تھے ہم جیسوں کی دوستی سوڈانی طلباء سے ہوئی کہ دونوں ایک دوسرے پر انگریزی سیدھی کرنے کی مشق کرتے تھے، اوول گرائونڈ یوں تو ہمیشہ ہی گوناگوں دلچسپیوں کا مرکز ہوتا تھا لیکن اس زمانے میں وہاں پر راوین اور اولڈ راوین کے درمیان ایک یادگار میچ کھیلا گیا راوین کپتان سلیم ملک تھے موصوف تھے تو ہمارے ایک طرح سے ہم جماعت ہی مگر کالج میں شاد ہی نظر آئے اولڈ راوین میں سے وسیم حسن راجہ نے یادگار بیٹنگ کی تھی انہوں نے کئی دفعہ فلک شگاف شارٹ سے بال کو ناصر باغ تک پہنچایا خواتین تماشائیوں کی زیادہ دلچسپی ایک اور اولڈ راوین سرفراز نواز سے تھی سرفراز جو کہ گھوڑا کے نام سے جانے جاتے تھے ان دنوں ان کی فلم سٹار رانی سے دوستی کے چرچے تھے لیڈیز انکلوژر سے پورے میچ میں ان پر مسلسل ہوٹنگ ہوتی رہی اولڈ راوین میں نوجوان نواز شریف بھی تھے جو ان دنوں پنجاب کے وزیر خزانہ تھے انہوں نے بھی دو چار اچھے شارٹ کھیلے بہرحال یہ میچ راوین نے جیت لیا اولڈ راوینز شاید اپنے امپائر ساتھ نہیں لائے تھے اسی اوول گرائونڈ میں ہاکی کا ایک نمائشی میچ بھی کھیلا گیا جس میں اولڈ راوینز میں کچھ قومی ٹیم کے کھلاڑی بھی شریک ہوئے اس میچ میں ایک ناخوشگوار واقعہ ہوا مشہور شاعر فیض احمد فیض جو ان دنوں جلاوطنی کاٹ کر وطن واپس لوٹے تھے منتظمین کی درخواست پر یہ میچ دیکھنے اپنی مادر علمی تشریف لائے انہیں یہاں دیکھ کر کچھ مجاہدین کو اسلام خطرے میں نظر آیا اور نعرے لگانے شروع کر دئیے اس پر منتظمین نے فیض صاحب سے اظہار ندامت کیا فیض صاحب نے متبسم انداز میں فرمایا کہ وہ یاران وطن کے اس سلوک کے عادی ہیں اور گرائونڈ سے چلے گئے ہاسٹل کالج میں گاہے بگاہے مباحثے اور مشاعرے بھی ہوتے تھے بخاری آڈیٹوریم میں اکثر رونق لگی رہتی مباحثوں میں ان دنوں احمر بلال صوفی کا بطوطی بولتا تھا موصوف ملک بھر سے ٹرافیاں جیت کے لاتے تھے ہمارے دور کا سب سے دلچسپ مباحثہ اوپن ایئر تھیٹر میں ہوا تھا یہ پنجابی میں تھا جس کا موضوع تھا ’ ویاہ نرا پھاہ‘ ماس میں سال چہارم کے ایک صاحب نے گریبان چاک کر کے حاضرین کو تقریبا قائل ہی کر لیا کہ اسی پھائے نہیں چڑھنا پر ایک مٹیار نے یہ طعنہ دے کرکہ ’’ مرزے بنو پنوں نہ بنو‘‘ انعام بلکہ میلہ بھی جیت لیا ٹی وی روم میں نہ صرف ڈرامے بلکہ چوری چھپے امرتسر والوں کے دوردرشن کے چترہار پروگرام کو بھی دیکھنے کی کوشش کی جاتی اسی ٹی وی روم میں ہم نے اس صدی کی سب سے شاندار شادی کی تقریب بھی دیکھی یہ لیڈی ڈیانا اور شہزادہ چارلس کی شادی تھی اگرچہ اس کا انجام بہت حسرت ناک تھا ہاسٹل میں ایک چھوٹی سی لائبریری بھی تھی جس میں نوجوانی میں پڑھی جانے والی شاعری کی سب کتب موجود تھیں لائبریری کے دروازے کے اوپر ایک فریم میں ناصر کاظمی کا یہ شعر آویزاں تھا:
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نا ہونگے کوئی ہم سا ہوگا