ColumnHabib Ullah Qamar

کشمیری نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ

تحریر : حبیب اللہ قمر
بھارت سرکار کی طرف سے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کرنے سے جہاں ہندوستانی فوجی مظالم میں بے پناہ اضافہ ہوا اور معصوم نوجوانوں کی فرضی جھڑپوں میں قتل و غارت بڑھ گئی ہے وہیں کشمیریوں کی معیشت بھی بری طرح تباہی سے دوچار ہوئی ہے۔ بھارتی حکومتی ذمہ داران اور عسکری ماہرین کے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں یہ بات باقاعدہ زیر بحث رہی ہے کہ کشمیریوں کا کاروبار تباہ کر کے انہیں اس طرح مجبور اور لاچار کر دیا جائے کہ انہیں معاش کے علاوہ کسی چیز کی فکر نہ رہے اوریہ کہ وہ تحریک آزادی میں حصہ لینے کے قابل ہی نہ رہیں۔یہ بھارتی حکمرانوں کی اسی بھگوا سوچ کا نتیجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کا کاروبار برباد کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ کشمیری عوام سیبوں کی تجارت بڑے پیمانے پر کرتے ہیں اور اس سے نفع حاصل کر کے سال بھر کیلئے اپنے اخراجات کا بندوبست کرتے ہیں مگر بھارتی فوجی حکام کی ہدایات پر سیبوں کے باغات تیزی سے کاٹے جارہے ہیں۔الجزیرہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر کے صرف ایک گاں میں 10ہزار سے زائد سیبوں کے درخت کاٹے گئے ہیں ۔ کشمیری عوام بھارتی حکام کی ان مذموم حرکتوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں لیکن پھلدار درختوں کی کٹائی کا مذموم عمل اسی طرح جاری ہے اوراس میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کی گئی۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں صرف سیب کے درخت ہی نہیں کاٹے جارہے بلکہ کرفیو جیسی پابندیوں سے دیگر سبھی کاروباربھی ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں۔ سیاحت کا کاروبار بہت متاثر ہوا ہے۔ بھارتی ریاستی دہشت گردی دیکھ کر بیرون ریاستوں اور ملکوں سے آنے والے سیاح کشمیرکا رخ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ برفباری کے اس موسم میں بھی سیاحوں کا رش دکھائی نہیں دیتا ۔ اسی طرح کاشت کاروں کا روزگار ختم کر کے صدیوں سے آباد دیہات خالی کروائے جارہے ہیں اور ان کی زمینیں ہندوستانی فوجیوں کے حوالے کی جارہی ہیں۔ خاص طور پر کمزور اقتصادی حالت کے حامل لوگوں کو زیادہ بے رحمی سے نشانہ بنایا جارہا ہے اور گجروال، بکروال طبقوں پر پر ناجائز تجاوزات قائم کرنے کے الزامات لگا کرانہیں فورسز اہلکاروں کی نگرانی میں گھروں سے بے دخل کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں سازش کے تحت کشمیریوں کا کاروبار برباد کرنے سے لوگوں کی مشکلات خوفناک حدتک بڑھ گئی ہیں اور امراض قلب میں اچانک اس قدر اضافہ ہو گیا ہے کہ طبی ماہرین بھی حیرت زدہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ مقامی کشمیریوں کا کہنا ہے کہ پہلے کسی ایک، دو علاقوں سے اکا دکا ایسے واقعات کی اطلاع ملتی تھی لیکن اب تو تیس ، پینتیس سال کے نوجوان بھی ہارٹ اٹیک کا شکار ہو کر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔نوجوان جن کے کندھوں پر پورے خاندانوں کے اخراجات اٹھانے کا بوجھ ہے، وہ ملازمت اور کاروبار نہ ہونے سے مسلسل قرضوں کے بوجھ تلے دب رہے ہیں اور شدید پریشانیوں کے باعث کچھ عرصہ بعد دل کے امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔وادی کشمیر میں یہ حالات معمول بنتے جارہے ہیں۔ اب تو یہاں تک کیفیت پہنچ چکی ہے کہ نوجوان قرضے اتارنے کیلئے اپنے گردے تک بیچنے کیلئے مجبور ہو رہے ہیں۔کچھ عرصہ قبل کولگام کے ایک نوجوان نے ایساہی اشتہار مقامی اخبار میں شائع کرواکے ضرورت مند لوگوں سے رابطہ کرنے کیلئے کہا۔ اشتہار شائع ہونے کی دیر تھی کہ یہ فوری طور پر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا اور پوری کشمیری قوم کی طرف سے سخت تشویش اور بے چینی کا اظہار کیا گیا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارتی حکومتی ذمہ داران کی جانب سے موجودہ حالات پر ندامت اور شرمندگی کی بجائے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جموں کشمیر کے گورنر کا اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اب تو کشمیریوں کوحریت پسندانہ سرگرمیوںمیں حصہ لینے کی فکر نہیں رہی اور وہ روزگار ملنے کو ہی آزادی سمجھ رہے ہیں۔ ریاستی گورنر کے اس بیان سے بی جے پی سرکار اور اس کے کارندوں کی ذہبی پستی کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔بہرحال کشمیری امور سے آگاہی رکھنے والے دانشوروں اور طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج چھہتر برس سے نہتے اور معصوم لوگوں کا خون بہا رہی ہے لیکن ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوئی تاہم بڑے پیمانے پر کشمیریوں کا کاروبار اور معیشت تباہ کرنے سے امراض قلب میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے اور ہرعلاقہ سے آئے دن ایسی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ تشویش اس بات کی ہے کہ تیس سال اور اس سے بھی کم عمر کے نوجوان ذہنی تنا، ڈپریشن اور پریشانیوں کے سبب دل کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔
جانے اور پڑھائی میں ناکامی کا ڈرہو تو دل کے مرض میں لوگ زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں تو لوگوں کو یہ سبھی پریشانیاں لاحق ہیں اور وہ طویل عرصہ سے اسی کیفیت میں ہیں یہی وجہ ہے کہ ان دنوں ایسی خبریں بہت زیادہ سننے کو مل رہی ہیں۔ طبی ماہرین نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وادی کشمیر میں ہر ایک سو میں سے تیس لوگ امراض قلب میں مبتلا ہو چکے ہیں جن میں سے پانچ ، چھ فیصد تک لوگ موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ کشمیری ماہرین نے صاف طور پر کہا ہے کہ ماضی میں بلڈ پریشر، شوگراور موٹاپے وغیرہ کی وجہ سے لوگ دل کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے تھے لیکن اب بھارتی حکومت اور فوج کی طرف سے پیداکردہ حالات نے لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان دوسرے اسلامی ملکوں کو ساتھ ملا کر انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں اور ملکوں کے سامنے کشمیر کی صحیح صورتحال رکھے اور بھارتی ریاستی دہشت گردی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے موجودہ حالات سے دنیا کو آگاہ کیا جائے تاکہ غاصب بھارت کی دہشت گردی روکنے میں مضبوط کردار ادا کیا جاسکے۔
مقبوضہ کشمیر میں پچھلے چند دنوں کے دوران بھارتی فوج کی طرف سے کشمیری نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔ رواں ہفتے کے دوران تین تاجروں سمیت درجن سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا گیا ہے جس پر پوری کشمیری قوم سراپا احتجاج ہے اور حریت کانفرنس نے بھی ہڑتال کی کال دی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فورسز اہلکاروں کو ہر وقت خوف رہتا ہے کہ شہداء کے جنازوں میں ہزاروں افراد جوق درجوق شریک ہوتے ہیں اور لوگوں کی شہداء سے والہانہ محبت دیکھ کر نوجوانوں میں شوق شہادت کا جذبہ بیدار ہوتا ہے اور وہ عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ بھارتی فوج اور پولیس کشمیری شہداء کو گمنام قبرستانوں میں دفن تو کرتی ہے لیکن اس سے مقامی کشمیری نوجوانوں اور عوام میں جس قدر نفرت اور غم و غصہ پروان چڑھ رہا ہے اس کا انہیں قطعی طور پر اندازہ نہیں ہے۔ بھارت کی مودی حکومت کشمیریوں کے خلاف ظلم و جبر کے سبھی ہتھکنڈے آزما رہی ہے لیکن ان کی جدوجہد آزادی میں اس کے باوجود ذرہ بھر کمی نہیں آئی بلکہ کشمیری مجاہدین کی کارروائیوں میں شدت آئی ہے اور عوامی سطح پر بھی ہندوستان کے خلاف عام شہریوں کے غیض و غضب میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس لئے یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ کشمیری قوم اور شہداء کی قربانیوں کے نتیجہ میں آزادی کا سورج جلد ان شاء اللہ طلوع ہو کر رہے گا اور بھارت اپنے غاصبانہ قبضہ کو کسی طور برقرار نہیں رکھ سکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button