ColumnImtiaz Ahmad Shad

غربت ایک مستقل ۴مسئلہ

تحریر : امتیاز احمد شاد
غربت ایک ایسی حالت کو کہتے ہیں جہاں ایک خاندان کی بنیادی ضروریات جیسے خوراک، رہائش، لباس اور تعلیم پوری نہ ہوں۔ ایک غریب شخص پیسے کی کمی کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پاتا اور اس وجہ سے وہ بے روزگار رہتا ہے۔ ایک بے روزگار شخص اپنے خاندان کے لیے غذائیت سے بھرپور خوراک خریدنے کے قابل نہیں ہو پاتا اور یوں ان کی صحت کا معیار بھی گر جاتا ہے۔ ایک کمزور شخص کے پاس کام کرنے کے لیے درکار توانائی کی کمی ہوتی ہے اور اس طرح بے روزگار شخص غریب ہی رہتا ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ غربت دیگر مسائل کی بھی جڑ ہے۔ غربت انسانی زندگی سے خوشیاں اور سکون کسی دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ جب سر پر بھوک منڈلائے اور بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے معقول وسائل نہ ہوں تو خوشحال زندگی کسی دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان کے کئی مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ غربت ہے جس سے دیگر کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ جرائم، جہالت، معاشرتی و اقتصادی پسماندگی ان کی جڑ غربت ہی ہے۔ غربت پر قابو پائے بغیر کسی بھی معاشرے کا ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ممکن نہیں۔ غربت زدہ معاشرے کا سب سے مظلوم طبقہ بچے ہیں جو زندگی کی بنیادی ضروریات اور والدین کی عدم توجہ کے باعث شخصیت سازی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جس کا اثر نہ صرف ان کے آنے والے کل پر ہوتا ہے بلکہ معاشرہ اور آنے والی نسلیں بھی اس سے متاثر ہوتی ہیں۔ آپ نے اکثر اپنے ارد گرد ایسے کئی چہرے دیکھے ہوں گے جن کی آنکھوں میں یہ سوال ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ ہم سے امتیازی سلوک کیوں کرتا ہے؟ وہ سراپا سوال چہرے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیوں ان کی آنکھیں پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننے کا خواب نہیں دیکھ سکتیں۔ یہی بچے کل کو حقوق کی عدم دست یابی و استحصال کے سبب غلط راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کے ہم ہماری آنے والی نسلوں کو غربت و جہل زد ہ معاشرہ وراثت میں سونپ کر کیوں جا رہے ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ غربت انسانی شخصیت اور کردار پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔اس سے انسانی معاشرے میں استحصال، بدامنی اور لوٹ مارمیں اضافہ ہو سکتا ہے۔ غربت کے انتہائی اہم اثرات میں بھوک، بیماری اور ذہنی پس مردگی بہت اہم ہیں۔ حال ہی میں نارویجین مصنف اور کہانی نویس نٹ ہیمسن کا شہرہ آفاق ناول The Hunger پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ ناول انیسویں صدی کی آخری دو دھائیوں کے مغربی صنعتی معاشرے کا ترجمان ہے جو ایک مصیبت زدہ غریب نوجوان کے ان نفسیاتی عوارض اور ہیجانات کے گرد گھومتا ہے جو کہ اسے غربت، بھوک اور ناداری کی وجہ سے لاحق رہتے ہیں۔ ہیمسن کا اسلوب غربت کے شخصی اثرات کا بھرپور جائزہ پیش کرتا ہے تاہم غربت کے معاشرتی اثرات بھی اپنی جگہ بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، خاص طور پر جب غربت کسی زہرِ قاتل کی مانند پورے معاشرے میں نفوذ کر جائے۔ ہمارے معاشرے میں غربت عام ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق مجموعی ملکی آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ ہمارے متعدد نفسیاتی عواض کی ایک بڑی وجہ غربت ہے۔ شدید مہنگائی اور بڑھتی ہوئی غربت نے بھوک کی نفسیات کو پروان چڑھایا ہے۔ اِس نفسیاتی بگاڑ نے ہمارے ہاں اکثریت کو متاثر کیا ہے اور اس کے بڑے اِشاریوں میں یکسوئی کا فقدان، جزبات کا غلبہ، منصوبہ بندی کی کمی، بے جا احساسِ تفاخر اور مکروفریب اور جھوٹ کی بہتات خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ غربت کا شکار افراد دوسروں سے محض اس بنیاد پر عداوت رکھتے ہیں کہ وہ انہیں اپنی خستہ حالی کا براہِ راست ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ایسے لوگ زندگی کی منفی تعبیر کے باعث بالعموم حسد، کینے اور بغض کا شکار ہوتے ہیں۔ ان لوگوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان پایا جاتا ہے جس کی بڑی وجہ مثبت سوچ، توجہ اور ارتکاز کی کمی اور بے جا تجسس ہے۔ منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث غریب لوگ عموماً ناپائیدار اُمیدوں کا سہارا لیتے ہیں اور محض اپنے خودساختہ خوابوں کی دنیا میں زندہ رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر اپنے خالق اور پروردگار کی صفت رزاقیت کا بھی درست اندازہ نہیں لگا پاتے۔ وہ اِس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ دنیا میں وسائل کی ضروری تقسیم بڑی حد تک انسان کی بے لاگ محنت اور جانفشانی سے بھی مشروط ہے۔ غریب لوگوں کی پس مردگی اور جمود کی ایک بڑی وجہ تفکرات کا سیلِ رواں ہوتا ہے جو ہر آن انہیں گھیری رکھتا ہے۔ یہ لوگ اکثر درست اور بروقت فیصلے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ ان کی ساری تگ ودو کا حاصل محض فوری فائدے کا حصول ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ دوررس نتائج سے بالعموم پہلو تہی برتتے ہیں۔ مفلسی انسان میں منفی ردِ عمل کو جنم دیتی ہے جس کا نتیجہ غصی، جھنجھلاہٹ اور بالآخر جرائم کی طرف رغبت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ غریب لوگ زندگی میں غیر یقینیت کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی غیر یقینیت ایسے لوگوں کو مواقع سے ناجائز فائدہ اُٹھانے پر ابھارتی ہے اور نتیجتاً یہ لوگ قانونی و اِخلاقی جرائم کی دلدل میں دھنستے چلے جاتی ہیں۔ اگر ہم اس کا گہرائی سے جائزہ لیں تو یقیناغربت ایک معاشی اصطلاح ہے۔ اس سے مراد کسی فرد یا معاشرے کی ایسی حالت ہے جس میں اس کے پاس کم ترین معیار زندگی کے حصول کیلئے ضروری اسبابِ زندگی اور وسائل کا فقدان پایا جائے۔ وسائل کا یہی فقدان معاشرتی زندگی میں غیریقینیت کا باعث بنتا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں اوسط افراد بنیادی ضروریاتِ زندگی سے بحرہ مند ہوں تو وسائل کی کثرت یا بہتات کے نہ ہوتے ہوئے بھی معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن رہ سکتا ہے، بشرطیکہ لوگ کفایت شعاری اور قناعت کا مظاہرہ کریں لیکن ایک ایسا معاشرہ جہاں لوگوں کی ایک خطیر تعداد خوراک جیسی بنیادی ضرورت کی تکمیل سے قاصر ہو وہاں معاشرتی بگاڑ اور بے اعتدالی کی کئی ایک صورتوں کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ ہمارے ہاں غربت ایک مستقل مسئلہ ہے۔ ملکی تاریخ کے مختلف ادوار میں غربت کے تدارک کیلئے انکم سپورٹ سے لیکر عوامی لنگرخانوں کے قیام تک جیسے متعدد اقدامات کیے گئے جن کی حیثیت آنکھوں میں دھول جھونکنے سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں غربت کا مستقل خاتمہ ایک مضبوط اقتصادی پالیسی کا متقاضی ہے، جس کی بنیاد منظم منصوبہ بندی، طویل المدتی اہداف کے تعین اور پھر اِن اہداف کے حصول کیلئے مستقل عمل درآمد پر رکھی گئی ہو۔ اس کے علاوہ حکومت کو چند ایک فوری اور ٹھوس اقدامات کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے، جن میں روزگار کے مواقع کی فراہمی، عوام کو مالی وسائل کی فراہمی کیلئے ہنرمندی اور فنی تعلیم کا فروغ اور مہنگائی کی روک تھام کیلئے افراطِ زر کی شرح میں کمی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ صرف دو روٹیوں اور سالن کی ایک پلیٹ کی جزوقتی فراہمی یا سال میں ایک یا دو مرتبہ چند ہزار روپے فی خاندان بانٹ دینے سے بھلا غربت کا عفریت کہاں ٹلتا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button