Columnمحمد مبشر انوار

پتلی تماشہ

تحریر : محمدمبشر انوار (ریاض)
شیکسپئیر کا قول ہے کہ دنیا ایک سٹیج ہے جہاں ہر شخص اپنا کردار نبھاتا ہے اور چلا جاتا ہے، اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ اگر اس دنیا اور اس کے نظام کو بغور دیکھیں تو ایسا ہی ہے کہ ایک ذات ایسی ہے جو اس دنیا کو چلا رہی ہے، اس کی مخلوق اپنے طے شدہ کردار کے مطابق زندگی گزارتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ تاہم بنی نوع انسان کو رب کریم نے عقل سلیم عطا کرکے، زندگی گزارنے کے رہنما اصول بتا کر، زندگی ان کے مطابق گزارنے کے احکامات بھی دے رکھے ہیں اور ساتھ حضرت انسان کو اختیار بھی کہ اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے، ان اصولوں کی پیروی کرکے زندگی گزارے لیکن بدقسمتی سے، انسان کی کوشش یہی رہی ہے کہ ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہی زندگی گزارے۔ ان رہنما اصولوں کی خلاف ورزی میں رب کریم نے بارہا انتباہ بھی کیا ہے اور واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ انسان کے لئے، دنیاوی مال و دولت، جاہ و حشم اور اقتدار بنیادی عناصر ہیں، جن سے انسان کی آزمائش ہے، جن سے انسان کو بچ کر دنیا میں زندگی گزارنی ہے۔ انسان ان آفاقی اصولوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے، دنیاوی مال و دولت، اولاد کے مستقبل، جاہ و حشم اور مناصب کے لئے اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے، ہر طرح کی بے اصولی کا مرتکب نظر آتا ہے۔ بالخصوص اس وقت پاکستان میں ہوس اقتدار میں جو گھنائونا کھیل، کھیلا جا رہا ہے، یہ اس کی واضح مثال ہے گو کہ تاریخ میں ایسے کھیل بارہا کھیلے جا چکے ہیں، جب اقتدار کی غلام گردشوں میں موقع پرست حاوی رہے ہیں اور نااہلوں نے اقتدار پر قبضہ جمایا ہے۔ ذاتی مفادات کی خاطر نہ صرف ملک و قوم کو دائو پر تو لگایا ہی ہے ، ان کے اپنے ہاتھ بھی بالآخر ذلت و رسوائی ہی آئی لیکن اپنی فطرت کے عین مطابق انسان اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنے میں بالعموم ناکام نظر آیا ہے اور دنیاوی عیش و عشرت کی کشش نے اسے گمراہ ہی کیا ہے۔
ریاستی اداروں کی کارکردگی پر نظر دوڑائیں تو سوائے شرمندگی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا کہ وہ ادارے اور اہلکار، جن کا کام ریاستی وسائل کو لوٹنے والوں کا محاسبہ کرنا ہے، اس وقت بے بس نظر آتے ہیں یا ان میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ ریاستی مفادات کے تحفظ کی خاطر کھڑے ہو سکیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ ریاستی اداروں کا یہ حال کیوں اور کیسے ہوا ہے لیکن اس کے پس پردہ بہرحال اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں کہ ذاتی مفادات کا کھیل کھیلنے والوں نے شاطرانہ انداز میں یہ بساط بچھا رکھی ہے اور اس پر اپنی مرضی سے پیادوں کو حرکت دیتے ہیں۔ کل کی بات ہے کہ پانامہ کے ہنگام میں، نواز شریف کے خلاف یہی ادارے یوں متحرک تھے کہ جیسے نواز شریف سے بڑا کوئی مجرم روئے زمین پر نہیں ہو سکتا، اس کے خلاف شواہدوں کی بھرمار تھی، دستاویزات کے انبار تھے اور یوں لگتا تھا کہ جیسے ادارے خواب غفلت سے جاگ چکے ہیں اور ریاستی حلف کی پاسداری میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔ جبکہ یہی صورتحال چند دہائیاں قبل زرداری کو درپیش تھی کہ ملک بھر کے اداروں اور ان کے اہلکاروں نے ٹھان لی تھی کہ زرداری کو ہر صورت مجرم ثابت کرنا ہے اور اس کی ملکی لوٹی ہوئی دولت کو واپس سرکاری خزانے میں جمع کروانا ہے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ ذاتی مفادات و خواہشات کے اسیروں نے اسی زرداری کو اقتدار کا حصہ بنانے سے گریز نہیں کیا۔ افسوس اس امر پر ہوتا ہے کہ ہر صاحب اختیار شخص ماضی میں جھانکنے کی بجائے یا ریاستی قوانین کو پیش نظر رکھنے کی بجائے، لمحہ موجود میں ’’ نظریہ ضرورت‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے ہی تمام امور سرانجام دینے کو کامیابی سمجھتا ہے۔ اس وقت یہی صورتحال پاکستان میں نظر آرہی ہے کہ ’’ نظریہ ضرورت اور لمحہ موجود‘‘ میں زندہ رہنے والے کل کے سزا یافتہ مجرم کے خلاف چٹکیوں میں فیصلے کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور اس کی تمام تر سزائوں کو کالعدم کرتے ہوئے، باعزت بری کر رہے ہیں۔ اس سے قطعا انکار نہیں کہ اگر نواز شریف بے قصور ہے تو نہ صرف اسے بلکہ ہر بے قصور کو اسی طرح انصاف ملنا چاہئے لیکن کیا کہیں کہ عقل اس کو تسلیم کرنے سے عاری ہے، جس کے شواہد اس قدر واضح ہیں کہ ان سے مفر ممکن ہی نہیں۔ حالیہ عدالتی کارروائیوں میں، حیران کن طور پر نیب حکام کی جانب سے جو موقف اختیار کیا گیا ہے، اس کے بعد نواز شریف کی بریت کے علاوہ قانون میں کوئی فیصلہ ممکن ہی نہیں کہ اگر مدعی عدالت کے سامنے یہ اقرار کر لے کہ اسے نوازشریف یا کسی مجرم کے خلاف شواہد ہی نہیں ملے لہذا وہ مقدمے کی پیروی نہیں کرنا چاہتے تو عدالت کیا فیصلہ دے گی؟ سوال مگر یہ ہے کہ نیب یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ایسا موقف کب اور کیوں اختیار کرتا ہے؟ اپنے بنیادی فرائض منصبی سے یوں راہ فرار کیوں اختیار کیا جاتا ہے؟ کیا یہ ادارے ریاست کے ملازم ہیں یا کسی /چند بااثر شخصیات کی خواہشات کے تابع ہیں؟ بدقسمتی سے اس حقیقت کا اظہار کئے بغیر چارہ ہی نہیں کہ یہ ادارے کبھی بھی آزادانہ روبہ عمل نہیں آئے اور ہمیشہ ایک نادیدہ قوت کے زیر اثر نظر آتے ہیں، جو دیدہ ہوتے ہوئے بھی نادیدہ ہے، ماتحت ہوتے ہوئے بھی کلی طور پر بااختیار ہے۔ کرسی انصاف پر بیٹھے ہوئے معزز جج صاحبان کی پسند و ناپسند کا اظہار ان کے فیصلوں سے عیاں ہوتا ہے کہ ایک فریق کو فوری انصاف میسر ہے جبکہ دوسرے فریق کے لئے ماحول اس قدر کشیدہ ہے کہ اسے سانس لینے کی بھی اجازت نہیں اور اس کے فیصلوں میں تاخیر ایک معمول نظر آتا ہے۔
سیاسی میدان کے کچھ اہم فیصلے اس وقت عدالتوں میں طے ہور ہے ہیں تو دوسری طرف بیٹھکوں میں ہونے والے فیصلے ہیں، جن پر عمل درآمد میں رد وکد فریقین کو الجھائے ہوئے ہیں اور وہ کسی سمت یکسو ہونے سے قاصر ہیں۔ ایسی صورتحال اس وقت پیپلز پارٹی کو درپیش ہے کہ زرداری صاحب نے جو خدمات سرانجام دی ہیں، ان کے عوضانے میں انہیں وہ کچھ نہیں مل رہا جس کا وعدہ ان سے کیا گیا تھا تاہم اس کے باوجود زرداری صاحب بہرطور پرامید نظر آتے ہیںکہ وہ اپنے بل بوتے پر ہی کچھ نہ کچھ کر گزریں گے۔ پس پردہ کیا کچھ چل رہا ہے، اس کا اندازہ سیاستدانوں کے بیانات سے ہی لگایا جاتا ہے اور زرداری صاحب نے ایک بیان تو انتہائی واضح دے دیا ہے کہ وہ نوازشریف کو وزیراعظم نہیں بننے دیں گے، اس کے لئے وہ کیا کر سکتے ہیں اور کس حد تک جا سکتے ہیں، اس کا اندازہ کرنا بظاہر مشکل نہیں ہے کہ نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے سے الگ رکھنے کی خاطر وہ تحریک انصاف کے ساتھ مل سکتے ہیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب زرداری صاحب کو کامل یقین ہو جائے کہ دیدہ/نادیدہ قوت ان سے کئے گئے وعدوں سے مکمل طور پر پیچھے ہٹ رہی ہے، اس صورت میں وہ تحریک انصاف کے ساتھ مل سکتے ہیں۔ زرداری کے متعلق شیخ رشید کا بیان کہ وہ ٹھنڈا کرکے کھانے والوں میں سے ہے، اس وقت ظاہر ہو رہا ہے کہ جو کچھ ماضی میں نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے ساتھ کیا ہے، زرداری اس وقت وہ حساب چکتا کرنے کے چکر میں ہیں کہ جو موقع اس وقت میسر ہے، اس سے بہتر موقع دستیاب نہیں ہو سکتا۔ پنجاب میں گو کہ نوازشریف کا ووٹ بنک موجود ہے لیکن حقائق کچھ اور منظر کشی کر رہے ہیں کہ ان ووٹروں کی تعداد اب پہلے جیسی نہیں رہی اور پنجاب کے ووٹ بنک میں نقب لگ چکی ہے، عوام مشکل میں بیرون ملک فرار ہونے کو قطعی پسند نہیں کر رہے اور ن لیگ کے امیدواروں کے ساتھ جو ’’ حسن سلوک‘‘ اس وقت حلقوں میں ہورہا ہے، اس سے یقینی طور پر زرداری اور دیگر زعماء محظوظ ہو رہے ہوں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس حسن سلوک کے باوجود دیدہ ؍ نادیدہ کو اس پر قائل کیا جا سکے گا کہ نوازشریف کا سیاست میں وقت ؍ کردار ختم ہو چکا ہے؟ اور کیا واقعی ایسی صورتحال میں نوازشریف پاکستان میں موجود رہے گے؟ سیاسی افق پر بہرحال تاحال سیاسی کردار اگر ؍ مگر کے ساتھ پتلی تماشے میں مصروف ہیں اور اس پتلی تماشے کے آخر میں بظاہر ان کے ہاتھ کچھ لگتا نظر نہیں آتا کہ پتلیاں بہرحال پتلیاں ہی ہوتی ہیں اور اختیار سارا ان دھاگوں کو ہلانے والے ہاتھ میں ہوتا ہے، جو ان دھاگوں سے ان پتلیوں کا تماشہ کر رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button