Editorial

عارضی جنگ بندی کے بعد اسرائیلی حملوں میں 240فلسطینی شہید

اس دُنیا میں فلسطین ایسا خطہ ہے، جہاں ناجائز ریاست اسرائیل کی جانب سے بدترین مظالم جاری ہیں، پچھلی نصف صدی سے زائد عرصے سے فلسطینی مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ ہے، لاتعداد بے گناہ لوگوں کو شہید کیا جاچکا ہے، استحصال در استحصال کے سلسلے ہیں، فلسطینی مسلمان بنیادی حقوق سے محروم ہیں، آبادیوں پر بم حملے متواتر کیے جاتے رہتے ہیں، مسلمانوں کے قبلہ اوّل کے تقدس کی پامالی کے سلسلے دراز ہیں، مسلمانوں پر پابندیاں در پابندیاں ہیں، فلسطین میں آبادی کے تناسب کی تبدیلی کے لیے ہزاروں ہتھکنڈے آزمائے جاچکے ہیں، اسرائیلی بدترین حملوں کے نتیجے میں فلسطین کا انفرا سٹرکچر مکمل طور پر برباد ہوچکا ہے۔ اسرائیل کے مظالم پر مہذب دُنیا خاموش تماشائی کا ناصرف کردار ادا کرتی بلکہ اُس کی بھرپور حمایت میں صفِ اوّل میں دِکھائی دیتی ہے۔ اسرائیل کوئی سفّاکانہ، ظالمانہ اقدام کرتا ہے تو اس کے بھرپور طور پر ہاتھ مضبوط کیے جاتے ہیں، اُس کی پیٹھ تھپتھپائی جاتی ہے، اس کے مظالم کو جواز فراہم کیا جاتا اور درست ٹھہرایا جاتا ہے۔ مفادات کی دُنیا میں ظالم کو مظلوم ٹھہرایا جاتا اور مظلوموں کو ظالموں کی فہرست میں جگہ ملتی ہے۔ جب ظلم بے پناہ بڑھ جاتا ہے تو اس کے خلاف آواز اُٹھانا فرض ٹھہرتا ہے۔ اُس کو روکا جاتا ہے۔ اُس کے سامنے ڈٹ جایا جاتا ہے۔ یہی طرز عمل پچھلے مہینوں فلسطین کی حریت پسند تنظیم حماس کی جانب سے کیا گیا۔ اُس نے ظالم کے خلاف حق کی آواز بلند کرتے ہوئے اسرائیل پر 5ہزار راکٹ فائر کیے۔ ان حملوں پر اسرائیل بُری طرح تلملاگیا اور بدلے کی آگ میں تمام حدیں پار کر گیا۔ اس کے بعد اُس نے جو کچھ کیا، وہ پوری دُنیا نے دیکھا اور دُنیا کے بعض خودساختہ مہذب ممالک اس سب میںِ اُسے درست ٹھہراتے نہیں تھکے۔ اُس کے جنگی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کیے گئے حملوں سے متعلق جواز گھڑتے دِکھائی دئیے۔ اسرائیل کی بھرپور حمایت کرکے اُنہوں نے اپنی جانبداری وضع کردی۔ ناجائز ریاست اسرائیل نے اسکولوں، اسپتالوں تک پر بم برسائے، حملے کیے، 6ہزار اطفال سے حقِ زیست چھین لیا، 16ہزار لوگوں کو شہید کردیا، غزہ پر ہر طرح سے بم باری اور حملے جاری رکھے، پورے انفرا سٹرکچر کو برباد کرکے رکھ دیا۔ ہر سُو لاشے ہی لاشے نظر آئے۔ بدترین انسانی المیے نے جنم لیا۔ لگ بھگ تمام عمارتیں ملبوں کے ڈھیر میں تبدیل کرکے رکھ دیں، جن کے ملبے تلے نامعلوم کتنے لوگ اب بھی اپنی آخری سانسیں لے رہے ہوں گے۔ اسرائیل کی جانب سے 16ہزار انسانوں کو زندگی سے محروم کردینے کے بعد عارضی جنگ بندی کا معاہدہ ہوا، جس میں چند بار توسیع ہوئی، سات روز تک جنگ بندی رہی۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کا تبادلہ رہا۔ سات روز کے بعد پھر سے اسرائیل نے اپنا اصل دِکھاتے ہوئے سفّاکیت، درندگی کی حد کردی ہے۔ عارضی جنگ بندی کے بعد سے اب تک 240مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ جنگ کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے شام اور لبنان پر بھی اسرائیل کی جانب سے حملے کیے گئے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے 7روزہ عارضی جنگ بندی کے بعد غزہ پر دوبارہ بم باری کے علاوہ جنگ کا دائرہ خطے میں پھیلانے کی کوشش شروع کرتے ہوئے شام کے دارالحکومت دمشق کے مضافاتی علاقے اور لبنانی سرحد پر بھی حملے کردئیے۔ شامی علاقے پر اسرائیلی حملوں پر ردّعمل دیتے ہوئے روس کا کہنا ہے کہ دمشق پر اسرائیلی حملہ شام کی خودمختاری اور عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیلی افواج کی جانب سے لبنانی سرحد کو بھی نشانہ بنایا گیا جس میں 3لبنانی شہری شہید ہوگئے، اسرائیلی حملوں کے خلاف جوابی کارروائی کرتے ہوئے حزب اللہ نے بھی ایک گھنٹے میں اسرائیل پر 5حملے کردئیے۔ دوسری جانب غزہ میں 7روزہ عارضی جنگ بندی کے بعد اسرائیل افواج نے ایک بار پھر بربریت کا مظاہرہ شروع کردیا، اسرائیلی بمباری سے صحافیوں سمیت 240 افراد شہید جبکہ600سے زائد زخمی ہوگئے۔ اسرائیل نے خان یونس اور رفاح سمیت مختلف علاقوں میں 200سے زائد مقامات پر بمباری کے علاوہ رفاح کے راستے فلسطینیوں کی امداد بھی بند کردی۔ ان حملوں کے جواب میں حماس نے بھی اسرائیلی شہروں پر درجنوں جوابی راکٹ حملے کیے، جس کے باعث تل ابیب میں بھی سائرن بج اٹھے۔ ادھر اسرائیلی افواج نے حملے کرکے خود اپنے ہی یرغمالی شہریوں کو بھی قتل کردیا، اسرائیل نے حماس کی قید میں موجود 6 یرغمالیوں کی ہلاکت کی تصدیق کردی۔ بفرزون بنانے کی آڑ میں اسرائیل کی جانب سے شمالی غزہ پر قبضے کی بھی کوشش شروع کردی گئی ہیں، اسرائیل کا کہنا ہے کہ عرب ممالک کو غزہ میں بفرزون بنانے کے منصوبے سے آگاہ کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے غزہ کو بچوں کے لیے دنیا کا خطرناک ترین مقام قرار دیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر دوبارہ حملوں اور امدادی کارروائیاں روکنے کے عمل پر ردعمل دیتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ کے سابق ڈائریکٹر کینیتھ روتھ کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی کرمنل کورٹ کو اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا چاہیے، کل ہی اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں کا مقدمہ بھی ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے اسرائیل کی جانب سے امدادی سامان کی ترسیل روکنے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ غزہ میں ہر صورت انسانی امداد پہنچانے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ ضروری ہے کہ اسرائیلی حملوں کو رُکوایا جائے۔ فی الفور جنگ بندی کے لیے مہذب دُنیا اپنا کردار ادا کرے۔ اس معاملے کو مذاکرات کی میز پر حل کیا جائے۔ جیتے جاگتے لوگوں سے حقِ زیست چھین لینا کسی طور مناسب قرار نہیں پاتا۔ اسرائیل موجودہ دُنیا کا سفّاک ترین ملک ہے۔ اس کے خلاف جنگی جرائم پر مقدمات کیے جانے چاہئیں اور اسے لازمی سزاوار قرار دینا چاہیے۔ فلسطین آخر کب تک اسرائیل کے زیر تسلط رہے گا۔ کب تک وہاں کے باشندے اسرائیل کی بے جا غلامی میں گھٹ گھٹ کر مرتے رہیں گے۔ اُنہیں بھی بنیادی حقوق میسر ہونے چاہئیں۔ آزاد اور خودمختار ریاست اکثر دُنیا کا مطالبہ ہے۔ اس حوالے سے حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
پنجاب: اسموگ میں کمی، پابندیاں ختم
موسمیاتی تغیر پوری دُنیا میں رونما ہورہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے وطن عزیز زیادہ متاثر دِکھائی دیتا ہے۔ موسمِ گرما میں جہاں حدّت دِکھائی دیتی ہے، وہیں سخت سردی کے سلسلے بھی نظر آتے ہیں۔ فصلوں پر بھی منفی اثرات اس باعث پڑے ہیں۔ قدرتی آفات بڑھی ہیں۔ معقول تعداد میں آبی ذخائر نہ ہونے کے باعث سیلابی صورت حال لگ بھگ ہر برس ہی رہتی ہے۔ لوگوں کی صحتوں پر بھی بُرے اثرات پڑتے ہیں۔ بچے خاص طور پر زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ اسموگ بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ دیکھا جائے تو ملک کے اکثر حصّوں میں موسم سرما میں ہر سال اسموگ کا مسئلہ سر اُٹھاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس بار بھی صورت حال مختلف نہ تھی۔ اسموگ سے سب سے زیادہ متاثر ملک کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب دِکھائی دیا، نگراں حکومت اسموگ کے تدارک کے لیے کمربستہ رہی، پوری تندہی سے اقدامات عمل میں لائے جاتے رہے، اسکولوں اور دیگر اداروں کو بند کرنا پڑا، اسمارٹ لاک ڈائون بھی لگایا گیا، لوگوں کی بڑی تعداد اسموگ سے متاثر دِکھائی دیتی تھی۔ مصنوعی بارش برسائی گئی، جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے اور اسموگ میں کمی واقع ہونا شروع ہوئی۔ اب صورت حال نسبتاً خاصی بہتر دِکھائی دیتی ہے۔ اس لیے اسموگ کے حوالے سے عائد کردہ پابندیوں کو ختم کردیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ اسموگ میں کمی کے لیے جو کچھ انسانی بس میں ہے، وہ اقدام کررہے ہیں۔ پوری کوشش ہے کہ ایئر کوالٹی انڈیکس کم سے کم رہے۔ ایک اجلاس میں انہوں نے اعلان کیا کہ لاہور سمیت پنجاب میں اسموگ میں کمی کے باعث اسموگ کے حوالے سے پابندیوں کو ختم کیا جارہا ہے۔ ادارے، مارکیٹیں، بازار، ریسٹورنٹس اور بزنس ہائوسز معمول کے مطابق کھلے رہیں گے۔ 18دسمبر سے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی تعطیلات ہوں گی۔ پابندیوں کے خاتمے کے ساتھ ہی صورت حال معمول پر آگئی ہے۔ یہ امر خوش کُن ہونے کے ساتھ انتہائی حوصلہ افزا بھی قرار پاتا ہے۔ اسموگ کی بنیادی وجہ انسان دوست ماحول کا پروان نہ چڑھنا ہے۔ حکومت اکیلے کچھ نہیں کرسکتی۔ عوام کو بھی اُس کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ اپنے صوبے، ملک کے ماحول کو انسان دوست بنانا ہر فرد کی ذمے داری ہے۔ ضروری ہے کہ جس طرح لوگ اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، اسی طرح یہ گلی، محلے، شہر، ملک بھی آپ کے ہیں، ان کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا بھی آپ کی ذمے داری ہے۔ تفریح گاہوں، بازاروں و دیگر عوامی مقامات پر کچرا پھینکنے سے اجتناب کریں۔ کچرا ڈسٹ بن میں ڈالنے کی عادت اپنائیں۔ گلی محلوں میں کچرا پھینکنے سے گریز کیا جائے۔ اسی طرح حکومت بھی ملک میں دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں اور فیکٹریوں کے خلاف کارروائیاں عمل میں لائے، ان پر عائد پابندی پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ ملک بھر میں ہر کچھ روز بعد شجرکاری مہمات کی داغ بیل ڈالی جائے اور ان میں ہر شہری بھرپور حصّہ لے۔ اپنے حصّے کا ناصرف پودا لگائے بلکہ اُس کی آبیاری کی ذمے داری بھی بہ احسن طریقے سے نبھائے۔ انسان دوست ماحول کے پروان چڑھنے سے اسموگ اور دیگر مسائل کے مستقل تدارک کی سبیل ہوسکے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button