Ali HassanColumn

بلوچستان کے زخم اور ووٹ

علی حسن
پیپلز پارٹی نے پہلی مرتبہ اپنا یوم تاسیس بلوچستان میں منایا ہے۔ یہ پارٹی کا 56واں یوم تاسیس تھا۔ اس موقع پر دونوں پیپلز پارٹیوں کے سربراہوں نے ایک مشترکہ جلسہ کوئٹہ میں کیا۔ بلوچستان کی طرف رخ شائد اس لئے کیا گیا کہ ن لیگ کی قیادت وہاں سے ہو کر آگئی اور اپنے ساتھ تیس سے زائد سیاسی رہنمائوں کو ملا کر چلی گئی۔ بلوچستان بری طرح زخمی ہے۔ قتل و غارت گری ایک معمول بن گیا ہے۔ نوجوانوں کو غائب ہو جانا بھی ایک رجحان بن گیا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو ان کے ملک کے علاقے انتخابات میں ہی یاد آتے ہیں۔ کیوں نہیں آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری اس دورے سے قبل گئے۔ نواز شریف کو کس نے پابند کیا تھا کہ وہ کوئٹہ نہیں جا سکتے۔ وہاں سرینا ہوٹل میں مختصر قیام کی بجائے عام لوگوں سے ملاقاتیں کرتے۔ آصف زرداری بھی اپنی غرض سے گئے۔ ’’ ہمیں بلاول کو سپورٹ کرنا ہے، ان کی تربیت کرنی ہے، بلاول پاکستان کے کم عمر ترین وزیراعظم بنیں گے‘‘۔ بلوچستان کے عوام سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے آصف زرداری نے کہا کہ بلوچستان کے دل پر زخم لگا ہوا ہے، ہم نے اپنے دور میں اس پر کچھ مرہم رکھا تھا، بلوچستان میں موجود ہر چیز کسی اور کی نہیں آپ کی ہے۔ چاہے وہ گیس ہو یا پٹرول یا کچھ اور سب بلوچستان کے عوام کا ہے۔ ہم بلوچستان کا دل جیتنے آئے ہیں۔ دوسرے صوبوں کو نظر نہیں آتا ہے۔ اس دل کو جیتنا ضروری ہے۔ اس دل کو جیتے بغیر پاکستان کو صحیح نہیں کیا جا سکتا ہی۔ بلوچستان کی دھرتی کے نیچے بہت سارے ضم ہیں، ہم نے ماضی میں بھی ان پر مرہم رکھا ہے اور ابھی پھر مرہم رکھیں گے۔
آصف زرداری تو سابق صدر رہے ہیں۔ وہ بلوچ بھی ہیں۔ انہوں نے اب تک بلوچستان میں ہونے والے واقعات کے بارے میں عملی اقدام کے لئے کیا کیا۔ انہوں نے تو بلوچ سرداروں کا ایک جرگہ بھی نہیں کیا۔ سیاست دانوں کا اہم مسئلہ ہے کہ زبانی جمع خرچ بہت کرتے ہیں۔ اپنی جیبوں سے تو ان لوگوں نے کسی بھی جگہ ایک کنواں تک نہیں کھدوایا ہے۔ ان لوگوں کو عوام کے رضاکارانہ خدمت کا خیال کیوں نہیں آتا ہے۔ اگر یہ لوگ آغاز کریں گے تو ان کی دیکھا دیکھی ان کے ساتھ سیاست کرنے والے بہت سارے لوگ اپنی جیبوں سے عوام کی خدمت کرنے میں آگے آجائیں گے۔ عدالتیں رات دن چیخ رہی ہیں کہ گمشدہ افراد کو باز یاب کیا جائے۔ لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکل رہا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر بندے پیش نہیں کئے گئے تو وہ نگران وزیر اعظم اور دیگر ذمہ داروں کو طلب کریں گے۔
حیران کن بات ہے کہ انتخابات کے سلسلے میں اپنی مہم دونوں سیاسی جماعتوں کو عزیز ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ ملک میں نئی سوچ اور نئی طرزِ سیاست کی ضرورت ہی۔ ہمیں اْس سیاست کی ضرورت ہے جس میں ہم اتحاد کے بارے میں سوچیں، نہ کہ تقسیم کی بارے میں، پیپلز پارٹی کا مخالف کوئی سیاست دان نہیں، بلکہ غربت، مہنگائی اور بیروزگاری ہے، پیپلز پارٹی ہمیشہ غریبوں اور پسماندہ طبقوں کا خیال رکھتی ہے۔ ملک کی باقی جماعتیں اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہیں، پیپلز پارٹی عوام کی نمائندگی کرتی ہے، آج کل لوگ چارٹر آف اکانومی کی بات کرتے ہیں، پیپلز پارٹی ’’ پیپلز چارٹر آف اکانومی‘‘ لائے گی، اس ملک کے نوجوانوں کی نمائندگی کوئی کھلاڑی نہیں، میں کروں گا، اقتدار میں آ کر نوجوانوں کی بہتری کے لیی یوتھ کارڈ لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے نفرت کی سیاست کو ختم کیا۔ صدر زرداری نے ملک کو سی پیک دیا، آئین میں 18ویں ترمیم کی، انہوں نے پاکستان کے غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا۔ جب کوئی میمو گیٹ میں کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ گیا تو صدر زرداری نے نئی طرز کی سیاست کر کے تاریخ رقم کی، کسانوں کو سبسڈی دینے کے لیے ’ کسان کارڈ‘ لائیں گے، اگر کسان خوش حال ہو گا تو پاکستان خوش حال ہو گا، مزدوروں کو حقوق دینے کے لیے ’ بے نظیر مزدور کارڈ‘ بھی لائیں گے۔ ان کا فرمانا تھا کہ بلوچستان میں بھی جیالا وزیراعلیٰ آئے گا، کوئٹہ میں دل کے امراض کے علاج کے لیے بڑا اسپتال بنائیں گے، جیسے آپ نے قائد عوام اور بی بی شہید کا ساتھ دیا، اس طرح ہمارا ساتھ دیں تو ہم بلوچستان کی قسمت بدلیں گے، صدر زرداری اور میں ہر جگہ بلوچستان کی نمائندگی کریں گے۔ سرکاری خرچے پر اسپتال تعمیر کرانے کا خیال بھی ابھی پیدا ہوا ہے کہ لوگوں سے ووٹ حاصل کرنا ہے۔
بلوچستان کے عوام کے مسائل میں اہم ترین مسئلہ امن و امان کا ہے۔ اسے بہتر کرنا یا بنانا بنیادی کام ہے۔ کیوں نہیں دیگر صوبوں کے سیاست دان بلوچستان میں ڈیرہ ڈالتے ہیں۔ کیا آصف زرداری، بلاول بھٹو، نواز شریف، شہباز شریف، سراج الحق، مولانا فضل الرحمان یا دیگر کے لئے مشکل ہے کہ بلوچستان کے حالات کو سمجھنے، سلجھانے کے لئے بلوچستان میں ہی قیام کریں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد تو بلوچستان کی حساسیت کو سمجھنا اور اس کو علاج تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ سیاستدان سارے معاملات کو حل فوج کو سمجھتے ہیں اور اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ فوج کو مدد کرنا چاہئے تاکہ عوام کے مسائل اور معاملات کا مداوا ہو سکے۔ بلوچستان کے ایک اردو زبان کے اخبار آزادی میں عزیز سنگھور کا کالم شائع ہوا ہے۔ کالم کو عنوان ’ واجہ وتی کدء َ بزاں‘ ایک مشہور بلوچی محاورہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے بلوچ اپنی حیثیت پہچان لیں۔ اس محاورے کے ویسے تو ہزاروں مطلب نکلتے ہیں۔ مگر یہ محاورہ آج ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت کی سیاسی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ 25نومبر 2023کو سیشن جج تربت نے بالاچ مولا بخش قتل کیس میں پولیس کو کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی) کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کا حکم دیا تھا۔ تاہم متعلقہ حکام نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس انکار سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ وہ توہین عدالت جیسے مرتکب عمل سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ وہ زیادہ طاقتور ہیں۔ 21 نومبر کو بالاچ مولابخش کو سی ٹی ڈی نے تربت کے مقامی عدالت میں پیش کرکے ان کا دس روزہ جسمانی ریمانڈ لیا تھا۔ دس روز ریمانڈ کے بعد انہیں عدالت میں پیش کرنے کے بجائے انہیں 23نومبر کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا گیا۔ ان کے ساتھ دیگر تین افراد کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ بالاچ کا تعلق تربت کے علاقے آبسر سے تھا۔ انہیں 29اکتوبر 2023کی رات ایک بجے کے قریب تربت سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔ قتل ہونے والے نوجوان کا تعلق انتہائی غریب خاندان سے ہے اور وہ اسٹار پلس مارکیٹ تربت میں کشیدہ کاری کا کام کرکے اپنے گھر والوں کی کفالت کرتا تھا، لوگوں کا ہجوم جمع ہوگیا۔ بالاچ مولا بخش کی میت کے ہمراہ ہزاروں مرد و خواتین اور بچوں نے شہید فدا چوک سے سیشن کورٹ تک ریلی نکالی اور کورٹ کے سامنے دھرنا دیا۔ مظاہرین نے کورٹ سے سی ٹی ڈی کے خلاف بالاچ مولابخش قتل پر ایف آئی آر کے اندراج کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ اس موقع پر بلوچستان بار کونسل نے تربت میں فیک ان کائونٹر کے خلاف عدالتی کاروائی کا بھی بائیکاٹ کر دیا تھا۔ عدالت کے حکم پر ایف آئی آر درج نہ کرنے پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کیچ کی کال پر ضلع کیچ میں ہڑتال کی گئی، شہر کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر رکاوٹیں ڈال کر بعض مقامات پر ٹائر جلا کر ٹریفک معطل کر دیا گیا جس کی وجہ سے ضلع کیچ کا پہیہ جام ہوگیا۔ بڑی تعداد میں نوجوانوں نے شہر کے اندر سینما چوک پر ٹائر جلا کر اسے بند کر دیا جبکہ جوسک میں مرکزی شاہراہ کو بند کر دیا گیا۔29نومبر بالاچ مولابخش کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔ نماز جنازے میں خواتین و بچوں سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ جنازے کو جلوس کی شکل میں زیارت شریف کی قبرستان پہنچایا گیا۔ جہاں ان کی تدفین کردی گئی۔ تدفین کے بعد مظاہرین واپس شہید فدا چوک پہنچ گئے اور دھرنا جاری رکھا۔ اور کہا کہ ان کے مطالبات تسلیم نہ ہونے تک دھرنا جاری رہے گا۔ ضلع کیچ کے حالات روز بروز خراب ہونے کے بعد بلوچستان کا مرکزی شہر کوئٹہ ہل گیا جس کے باعث بلوچستان حکومت نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے ایک ٹریبونل آف انکوائری تشکیل دیدی جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔ ٹریبونل آف انکوائری سیکرٹری فشریز عمران گچکی کی سربراہی میں تشکیل دی گئی جس میں ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ، ڈی سی کیچ، ایس ایس پی گوادر شامل ہیں۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی پندرہ دنوں میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ کالم نگار لکھتے ہیں کہ ’’ ٹریبونل قائم کرنا اچھا عمل ہے لیکن اس سے قبل بالاچ کے قتل کی ایف آئی آر درج کرنا ضروری ہے۔ تاکہ مظاہرین اور حکومت کے درمیان ایک سازگار ماحول پیدا ہوسکے ورنہ یہ ٹریبونل کارآمد نہیں ہوگا۔ کیونکہ ماضی میں بھی ایسی بے شمار ٹریبونل اور کمیٹیاں بنائی گئی تھیں جو بغیر نتائج کے اپنی موت آپ مر گئی تھیں‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button