Column

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور

عبد الماجد ملک
ادارے شخصیات کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ اداروں کی وجہ سے ہی کچھ لوگ پہچانے جاتے ہیں اور ادارے شخصیات کے مرہون منت نہیں ہوتے تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو ادارے کو اوجِ ثریا پر پہنچا دیتے ہیں، اس کا معیار بلند کر دیتے ہیں، ایک نئی پہچان دیتے ہیں اور ڈوبی ساکھ کو بحال کرنے میں ایسا کردار ادا کر جاتے ہیں کہ ان کا نام امر ہو جاتا ہے اور وہ تاریخ کے اوراق میں کبھی مرتے نہیں ہیں، ایسے لوگ کم ہیں لیکن ہمارے سامنے موجود ہیں تاہم ہمارے یہاں روایت یہی ہے زندگی میں ہم قدر نہیں کرتے اور پھر جب وہ گزر جاتے ہیں تو ہم ٹسوے بہا کر خراج تحسین کے ڈونگرے برساتے ہیں۔
کئی ادارے ہیں جن کا واسطہ براہ راست عوام کے ساتھ ہوتا ہے، ان میں سے سرفہرست پولیس کا محکمہ ہے، مقولہ مشہور ہے کہ پولیس کی دوستی اچھی ہے اور نہ ہی دشمنی، لیکن گزشتہ ادوار میں اس ادارے میں کئی مثبت پیش رفت کی گئی ہیں جن میں سے فرنٹ ڈیسک پر آن لائن اندراج اور سائلین کے ساتھ اچھے انداز میں پیش آنا بھی شامل تھا لیکن اگر ہم بطور ادارہ اس کی بات کریں تو محکمے سے وابستہ لوگوں کی رائے سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے تو اس ادارے میں جان پہچان والے چار بندوں سے اس بابت پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا جب سے ڈاکٹر عثمان انور نے پنجاب پولیس کی کمان سنبھالی ہے تو ہم خوش ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں اور اہم یہی ہے کہ جو نچلے لیول سے پروموشن رکی ہوئی تھیں اور عام پولیس والے اب امید چھوڑ چکے تھے تو ان کی سنی گئی اور انہیں بھی ترقی دی گئی، مزید یہ کہ آئی جی صاحب متحرک ہیں اور اچھے کاکردگی کے حامل افسران سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں، ان کی پیٹھ تھپتھپا کر انعامات سے بھی نواز رہے ہیں جو کہ اچھا اقدام ہے، جس سے محکمے کے لوگ شاد ہیں اور یہ بھی اچھی روایت ہے کہ وہ پورے محکمے کے ساتھ نیچے سے اوپر تک سبھی کے لیے دستیاب ہیں، اور اسی وجہ سے جو پولیس کا مورال ڈائون ہو رہا تھا، اب بحال ہو رہا ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ مسائل ہیں اور حالیہ سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک پولیس کا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ لاء اینڈ آرڈر کے لیے سختی ہونی چاہئے، بھاری جرمانے کیجئے، اور چاہے تو گاڑی کو بھی بند کر دیجئے لیکن اس پہ نظر ثانی کیجئے کہ ایف آئی آر سے ہمارے نوجوان طبقے کا ریکارڈ داغ دار ہو جائے گا ،جیسا کہ موجودہ وقت ٹیکنالوجی کا ہے اور ہر شے آن لائن موجود ہے تو کل انہی رپورٹس کی بدولت ایک دھبہ لگا ہوگا اور بدنما دھبے تو برے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں مستقبل میں شاید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
آئی جی صاحب کی ٹیم بھی انہی کی طرح ایکٹو ہے، اتنے بڑے شہر کی ٹریفک کو خوبصورتی کے ساتھ رواں رکھنے کا سہرا بلاشبہ سی ٹی او کے سر جاتا ہے، لیکن کچھ مقامات پر وارڈن بجائے ٹریفک رواں رکھنے کے چالان کاٹنے کے لیے موجود ہوتے ہیں اور کئی جگہ پر وارڈن کا چار کا ٹولہ خوش گپیوں میں مگن ہوتا ہے، جس پر مستنصر فیروز ملک کو دیکھنا چاہئے تاکہ لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک تیرتی رہے۔
ڈاکٹر عثمان انور صاحب دھیمے مزاج کے متحرک افسر ہیں، جن کے کمان سنبھالتے ساتھ ہی محکمہ ء پولیس کی گرتی ہوئی ساکھ بحال ہونا شروع ہوئی ہے اور اس میں ان کے اچھے اقدامات کو ادارے کے ساتھ عوام میں بھی پذیرائی مل رہی ہے ۔ موجودہ دور ٹیکنالوجی کا ہے، ڈیجیٹل کا زمانہ ہے اور یہ سہرا بھی ڈاکٹر عثمان انور کو جاتا ہے کہ انہوں نے پولیس میں متحرک لوگوں پہ مشتمل پی آر اوز کی ٹیم تشکیل دی ہے اور اس وقت ایک مکمل ڈیجیٹل سیٹ اپ کا حامل یہ ادارہ ہے جو فی الفور اپنی رپورٹس مرتب کرتا ہے، انہیں مختلف میڈیا کے ساتھ شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سوشل میڈیا چینلز پر اپ لوڈ کر دیتا ہے جو کہ انتہائی احسن قدم ہے جس سے عوام اور محکمے میں فاصلے کم ہو رہے ہیں، پولیس کا تشخص بہترین ہو رہا ہے اور عوام میں جو محکمے کے بارے میں غلط رائے تھی وہ آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہی ہے، لیکن اس میں ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ابھی بھی بہت سوں کے نزدیک یہی تاثر قائم ہے کہ پولیس کو دیکھ کر تحفظ کی بجائے دہشت کا احساس ہوتا ہے لیکن امید ہے کہ اگر اسی طرح مثبت انداز میں اس محکمے کو لے کر چلیں گے تو پھر امن و امان کی فضا مزید بہتر ہو گی، عوام کا اعتماد بڑھے گا اور عوام بھی ادارے پر بھروسہ کریں گے ، ڈاکٹر صاحب قدم بڑھاتے جائیں، نئی اصطلاحات سے ادارے میں نئی روح پھونکنے میں کردار ادا کرتے رہیں، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button