ColumnImtiaz Aasi

جیل اصلاحات پر عمل درآمد کا آغاز

امتیاز عاصی
عشروں بعد پنجاب کی جیلوں میں مبینہ کرپشن کے خاتمے کے لئے سنجیدگی سے اقدامات جاری ہیں۔ جیلوں میں کرپشن کے ایسے ایسے راستے ہیں عقل انسانی ورطہ حیرت میں رہ جاتی ہے۔ قتل جیسے سنگین جرائم میں سزا یافتہ قیدیوں کو کئی کئی سال رہنا پڑتا ہے اس دوران ان کے لواحقین کی حالت دیکھ کر انسان خون کے آنسو روتا ہے۔ عمر رسیدہ مائوں اور بہنوں کو میلوں مسافت طے کرنے کے بعد ملاقاتی شیڈ تک پہنچنے میں کئی مراحل سے گزرتا پڑتا ہے ان کی حالت دیدنی ہوتی ہے۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی اور آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر کا قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لئے نت نئے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے ان کی پوری توجہ جیلوں میں قیدیوں اور حوالاتیوں کی فلاح و بہبود پر مرکوز ہے۔ ہم قارئین کو جیلوں میں ہونے والی مبینہ کرپشن اور نگران حکومت کی طرف سے کرپشن کے خاتمے کے لئے کئے جانے والے اقدامات سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ دراصل جیلوں میں کرپشن کا آغاز قیدیوں اور حوالاتیوں کے جیل کے اندر داخلے کے وقت شروع ہو جاتا ہے۔ جیل میں داخل ہوتے ہی جامہ تلاشی کے دوران جو کچھ قیدی اور حوالاتی کے پاس ہوتا ہی وہ جمع کر لیا جاتا ہے خصوصا روپے پیسے کی صورت میں پی پی اکائونٹ کے انچارج ہیڈ وارڈر سے پالا پڑتا ہے جو نقد جمع کرکے رسید دے دیتا ہے۔ قیدی رسید کی بنیاد پر اپنے ضروریات کے لئے سرکاری کنٹین سے اشیا منگواتے ہیں ۔ جب کبھی اسے نقد رقم کی ضرورت پڑتی وہ پی پی اکائونٹ کے انچارج ہیڈوارڈر سے ایک دو ہزار کے خسارے کے عوض اپنی ساری رقم نقدی کی صورت میں حاصل کر سکتا تھا۔ نئی اصلاحات میں قیدی اور حوالاتی کے جیلوں میں داخلے کے وقت پنجاب بنک میں ان کے نام کا اکائونٹ کھل جائے گا اس کے ملاقاتی جو رقم قیدی کو دینے کے خواہاں ہوںگے وہ پی پی اکائونٹ میں جمع ہونے کی بجائے پنجاب بینک میں جمع ہوگی۔ قیدی کوئی شے خریدے گا اس کے اکائونٹ سے خود بخود مطلوبہ رقم وضع کر لی جائے گی۔ اس نئے طریقہ کار سے قیدیوں اور حوالاتیوں کے پیسوں سے جیل ملازمین کا براہ راست تعلق ختم ہو گیا ہے نئے طریقہ کار سے کرپشن کا ایک بڑا راستہ بند ہونے میں مدد ملے گی۔ عام طور پر جیلوں کے ہسپتالوں میں قیدیوں اور حوالاتیوں کو میڈیکل آفیسر سے ساز باز کرکے جیل ہسپتال میں داخلے کی شکایت ہوتی ہے۔ حکومت نے جیلوں کے ہسپتالوں کا انتظام محکمہ صحت کے حوالے کر دیا ہے جس کی منظوری پنجاب کے وزیراعلیٰ نے دے دی ہے ۔ نئے نظام میں جیل میں ایک میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ دو چار میڈیکل آفیسر ہوں گے تاکہ وہ قیدیوں کے علاج معالجے پر پوری توجہ دے سکیں۔ ایک میڈیکل آفیسر کی صورت میں وہ جو چاہے کرتا پھرے اب ایسا ممکن نہیں ہوگا بلکہ کسی صحت مند قیدی یا حوالاتی کو ہسپتال میں داخل کرتے وقت ایم ایس سے اجازت لینا ضروری ہو گی البتہ ایم ایس سپرنٹنڈنٹ جیل کے ماتحتی میں کام کرے گا۔ جہاں تک ادویات کی خریداری کی بات ہے مستقبل قریب میں کسی سپرنٹنڈنٹ جیل کو اپنے طور پر ادویات خریدنے کی اجازت نہیں ہو گی بلکہ تمام ادویات پنجاب کا محکمہ صحت سپلائی کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔ قیدیوں اور حوالاتیوں کو لنگر خانے سے فراہم کی جانے والی روٹی کے لئے آٹا کنٹریکٹروں کی بجائے پنجاب کا محکمہ خوراک مہیا کرنے کا ذمہ دار ہوگا لہذا آٹے کی کنٹریکٹروں سے خریداری میں جیل حکام کی براہ راست ذمہ داری کے ساتھ ناقص آٹے کی شکایت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ جیلوں میں یوٹیلیٹی سٹورز کھلنے سے قیدیوں اور ان کے لواحقین کو سرکاری کینٹین سے اشیائے ضرورت کے غیر معیاری اور مہنگے داموں ملنے کی شکایات کے خاتمے میں مدد ملے گی ورنہ ایک سینٹرل جیل کے کینٹین کنٹریکٹر کے پاس کروڑوں کا ٹھیکہ ہوتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کینٹین کنٹریکٹر جیلوں کے بعض سپرنٹنڈنٹس، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس اور بعض دیگر افسران کو پورے مہینے
کا راشن فری میں دینے کا پابند ہوتا تھا، یوٹیلیٹی سٹورز کھلنے کے بعد مبینہ کرپشن کا ایک اور راستہ بند کرنے میں مدد ملے گی۔ جیلوں میں مبینہ کرپشن کے اور بہت سے راستے ہیں پنجاب حکومت اسی جذبے سے جیلوں میں اصلاحات پر عمل پیرا رہی تو ایک وقت آئے گا کرپشن کے تمام راستے بند ہو جائیں گے۔ یہ ناچیز جیلوں میں ہونے والی مبینہ کرپشن پر کتاب لکھی جا سکتی ہے تنگی کالم کی وجہ سے چیدہ چیدہ امور پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ حیرت طلب بات یہ ہے جب کوئی قیدی اور خصوصا حوالاتی کسی مقدمہ میں گرفتار ہو کر جیل آے تو ایک ہی مقدمہ میں ملوث کئی حوالاتیوں کو یکجا رکھنے کی بجائے مختلف بیرکس میں رکھا جاتا ہے جس کا مقصد مال پانی کمانا ہوتا۔ بھلا جیل مینوئل میں کہاں لکھا ہے ایک مقدمہ میں گرفتار حوالاتیوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھا جائے۔ کوئی یقین کرے نہ کرے ایک ایک حوالاتی کو اپنے مقدمے والوں کے ساتھ رہنے کے لئے کئی ہزار روپے مبینہ طور پر رشوت دینی پڑتی ہے جو جیلوں میں سینٹرل ٹاور ( چکر) میں تعینات ملازمین کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ جیلوں میں پولیس کے اے ایس آئی کے برابر عہدے کے ملازم کو چیف کہا جاتا ہے جو انتظامی طور پر پوری جیل کا انچارج ہوتا ہے جس کی ذمہ داریوں میں بیرکس سے سب اچھا جمع کرکے آگے دینا ہوتا ہے۔ عام لوگ لفظ اڑدی سے واقف نہیں ہوتے منشیات کے مقدمات میں گرفتار جیلوں میں آنے والے حوالاتیوں کو قانونی طور پر ایک ہی بیرک میں رکھا جانا چاہیے ہوتا یہ ہے انہیں ہر روز ایک بیرک سے دوسری بیرک میں شفٹ کر دیا جاتا ہے جس کے بعد تنگ آئے حوالاتی کو نذرانہ دینے کے بعد اپنی اڑدی رکوانی پڑتی ہے۔ آئی جی جیل خانہ جات ایک مثبت سوچ کے حامل اعلیٰ افسر ہیں وہ کا کہنا ہے قیدیوں کی وجہ سے سب افسران اور ملازمین ہیں قیدی نہ ہوں تو محکمہ جیل خانہ کے یہ تمام عہدے لاحاصل ہیں۔ بہرکیف آئی جی جیل خانہ جات کی دوسری ٹرم میں کرپشن کے خاتمے کے لئے کافی کام ہو چکا ہے امید ہے وہ ملازمت پوری کرتے وقت جیلوں میں مبینہ کرپشن کے تمام راستے بند کرکے جائیں گے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button