Editorial

4ادارے حکومتی سرپرستی سے آزاد

ملک عزیز میں اکثر سرکاری اداروں کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے اور یہ عرصہ دراز سے قومی خزانے پر بدترین بار ثابت ہورہے ہیں۔ اوپر سے لے کر نیچے تک پائی جانے والی بدعنوانی نے ان کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔ ان اداروں سے عوام کے وابستہ کام نہیں ہوپاتے۔ لوگوں کو اپنے کام کروانے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ان اداروں میں افسران اور عملہ اپنے فرائض درست طور پر سرانجام نہیں دیتا۔ بہت سے افراد گھر بیٹھے تنخواہیں باقاعدگی سے وصول کرتے ہیں۔ سالہا سال سے ان کی کارکردگی میں گراوٹ آتی چلی جارہی ہے۔ حکومت کے لیے ان کا انتظام و انصرام چلانا کسی کٹھن آزمائش سے کم نہیں ہوتا۔ ہر سال ہی انہیں اربوں روپے کا خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کے امور کو چلانے کے لیے حکومت کو بھاری رقوم دینی پڑتی ہیں، اس کے باعث عوام پر بھی مختلف صورتوں میں بوجھ آن پڑتا ہے۔ ان اداروں کے افسران اور ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں قومی خزانے سے انتہائی خطیر رقوم خرچ ہوتی ہیں۔ پچھلے چند سال سے ملکی معیشت کی صورت حال ویسے ہی ناگفتہ بہ ہے۔ اوپر سے ان اداروں کا بوجھ حکومت کی مشکلات کو دوچند کردیتا ہے۔ ایسا شروع سے نہیں تھا۔ ماضی میں یہ ادارے ملک و قوم کی ترقی میں بھرپور حصّہ ڈالتے تھے۔ ملک کے لیے نفع بخش اور نیک نامی کا باعث تھا۔ دُنیا بھر میں ان کی اعلیٰ کارکردگی کا طوطی بولتا تھا۔ پیشہ ور افسران اور عملہ ان اداروں کی ترقی کو چار چاند لگاتے تھے، لیکن پھر کرپشن کی دیمک نے ان کو جالیا اور آہستہ آہستہ ان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا شروع کردیا۔ یہ وقت گزرنے کے ساتھ پرفارمنس کے لحاظ سے بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ حکومتوں کی جانب سے ان میں سُدھار لانے کی کاوشیں ضرور کی گئیں، لیکن وہ بارآور ثابت نہ ہوسکیں۔ ایسے قومی خزانے پر بوجھ اداروں کی چنداں کمی نہیں۔ پچھلے کئی سال سے سابق حکومتوں کی جانب سے ان کی نج کاری کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس حوالے سے سرگرمیاں بھی دِکھائی دیں۔ گزشتہ مہینوں آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کے بعد اُس سے پروگرام کی قسط موصول ہوئی تھیں۔ آئی ایم ایف نے خزانے پر بوجھ بعض اداروں کو حکومتی سرپرستی سے آزاد کرنے کی شرط عائد کی تھی، جس کی حکومت کی جانب سے ہامی بھری گئی تھی۔ گزشتہ روز عالمی ادارے کی یہ شرط پوری کردی گئی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری کردی، ایوان صدر سے چار سرکاری اداروں کو حکومتی سرپرستی سے آزاد کرنے کے آرڈیننس جاری کردیے گئے۔ نجی ٹی وی کے مطابق صدر مملکت نے چاروں اداروں ریڈیو پاکستان، این ایچ اے، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن اور پوسٹل سروسز سے متعلق آرڈیننسز کی منظوری دے دی، غیر منافع بخش اور مالی خسارے کا سبب بننے والے یہ چار سرکاری ادارے خودمختار بورڈز کے ماتحت کام کریں گے، ان پر سے حکومتی سرپرستی ختم کردی گئی۔ اس حوالے سے ایوان صدر نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی (ترمیمی) آرڈیننس 2023، پاکستان پوسٹل سروسز مینجمنٹ بورڈ (ترمیمی) آرڈیننس 2023، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (ترمیمی) آرڈیننس 2023اور پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (ترمیمی) آرڈیننس 2023 جاری کیے ہیں۔ اس ضمن میں تمام متعلقہ وزارتوں کے سیکریٹریوں نے صدر کو ان آرڈیننس کی فوری ضرورت سے آگاہ کیا تھا، کیونکہ ان چار ایس او ای کے حوالے سے رواں سال جولائی میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاملہ طے پایا تھا۔ نئی ترامیم کے ذریعے بورڈ کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو کے دفاتر کو مذکورہ بالا تمام اداروں میں الگ الگ کردیا جائے گا، تاکہ عالمی طریقوں کے مطابق ادارے کی مینجمنٹ کو یقینی بنایا جاسکے۔ ارکان کو ان اداروں کے بورڈز میں شامل کیا جائے گا، جو فیصلہ سازی کے عمل میں اپنی مہارت کا اضافہ کریں گے، ترمیم میں آزاد ارکان کی مدت ملازمت کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا گیا۔ دریں اثنا حکومت نے پی ٹی وی، کسٹمز اور پاکستان اسٹیل ملز کو بھی حکومتی سرپرستی سے آزاد کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اور ان کے لیے صدارتی آرڈیننس لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ خراب کارکردگی والے ان مزید چار سرکاری اداروں کا بھی انتظامی ڈھانچہ تبدیل کرنے کا فریم ورک تیار کیا جاچکا ہے اور آئندہ یہ مزید چار سرکاری ادارے بھی خودمختار بورڈ کے زیر سرپرستی کام کریں گے۔ ذرائع کے مطابق خود مختار بنائے گئے سرکا ری اداروں کا انتظامی بورڈ 6سے 12ارکان پر مشتمل ہوگا۔ ملکی معیشت کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں ریڈیو پاکستان، این ایچ اے، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن اور پوسٹل سروسز کو حکومتی سرپرستی سے آزاد کرنا صائب فیصلہ معلوم ہوتا ہے۔ آخر کب تک قوم ان سفید ہاتھیوں کا بوجھ ڈھوتی۔ دُنیا بھر میں سرکاری ادارے حکومت کے لیے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ بھرپور نفع کماکر قومی خزانے میں اپنا حصّہ ڈالتے ہیں۔ یہاں تو اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ان سفید ہاتھیوں کو پالنے کے لیے قوم پر ہر سال ہی بھرپور ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔ مہنگائی کو بڑھاوا ملتا ہے۔ غریبوں کا بھرکس نکل جاتا ہے۔ حکومت کو نظام مملکت چلانے میں شدید دشواریاں درپیش آتی ہیں۔ آئندہ بھی مزید اداروں کے حکومتی سرپرستی سے آزاد ہونے کی اطلاعات ہیں۔ لامحالہ سُدھار کے لیے ہزاروں جتن کیے گئے، لیکن کوئی کوشش بارآور ثابت نہ ہوسکی، ایسے میں ان کی حکومتی سرپرستی سے آزادی ہی مناسب معلوم ہوتی ہے۔
مودی حکومت کے گھنائونے اقدام کا پردہ فاش
بھارت اقلیتوں کے لیے جہنم کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ہندوانتہاپسندی خاصی شدّت اختیار کرچکی ہے۔ انتہاپسندوں کا جب دل چاہتا ہے اقلیتوں کا استحصال کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ مسلمان ان کا خاص نشانہ بنتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ہر سطح پر تعصب کا برتائو کیا جاتا ہے۔ معاشرے میں اُنہیں اپنی بقا کے لیے بے پناہ مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ انتہاپسند ہجوم جب چاہتا ہے گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں مسلمان بھارتی شہریوں سے حقِ زیست چھین لیتا ہے۔ مسلمان لڑکیوں کی عصمت دری کے ڈھیروں واقعات بھارت پر بدنما کلنک کی مانند ہیں۔ ملازمتوں میں مسلمانوں کے ساتھ بدترین تعصب روا رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح سِکھ، عیسائی، پارسی اور دیگر بھارت کی اقلیتی برادریوں کے ساتھ بھی ہندو انتہا پسندوں کا سلوک کچھ مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اُن کا بھی بھارتی معاشرے میں بدترین تعصب سے واسطہ پڑتا ہے۔ وہ بھی بے پناہ مشکلات سے گزرتے ہیں۔ اُن کے استحصال کے سلسلے بھی دراز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ مسلسل ظلم و ستم، ناانصافی اور استحصال کے باعث 50 سے زائد علیحدگی کی تحاریک چل رہی ہیں۔ خالصتان تحریک اس میں خاصی توانا حیثیت کی حامل ہیں۔ گزشتہ مہینوں کینیڈا میں خالصتان تحریک کے دو اہم سِکھ رہنمائوں کا قتل ہوا تھا، جس پر کینیڈا اور بھارت کے تعلقات میں سخت کشیدگی پائی جاتی تھی۔ کینیڈا نے اپنے شہریوں کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کی بات کی تھی، جس پر بھارت بُری طرح تلملا گیا تھا۔ کینیڈا کے خلاف اُس کی جانب سے بھرپور پروپیگنڈا کیا گیا۔ اب امریکا میں خالصتان تحریک کے رہنمائوں کے قتل کے احکامات سے متعلق انکشاف ہوا ہے، جس سے کینیڈا کی جانب سے بھارت پر عائد کیے گئے الزامات کو بے پناہ تقویت ملتی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی مودی حکومت کی طرف سے خالصتان تحریک کے رہنمائوں کو بیرونِ ملک خصوصاً امریکا میں چُن چُن کر قتل کرنے کے احکامات دیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی حکومت کی ایماء پر ایک سِکھ رہنما کو نیویارک تو دوسرے کو کیلیفورنیا میں قتل کیا جانا تھا اور ان کے قتل کی سازش بھارتی ایجنٹ نے کی، جو سینئر فیلڈ افسر تھا اور سیکیورٹی و انٹیلی جنس پر مامور تھا۔ بھارت کا مرکزی ہدف سِکھ فار جسٹس تنظیم کے رہنما گورپتونت سنگھ پنوں تھے۔ قتل کے احکامات دینے والا اہلکار بھارتی پولیس میں فرائض انجام دے چکا ہے اور اس نے جنگ کی تربیت بھی حاصل کی ہے۔ اس بھارتی ایجنٹ کے اہم کارندے نکھل گپتا کو جمہوریہ چیک میں گرفتار کیا جاچکا ہے، جو بھارت کا رہائشی ہے اور منشیات و اسلحے کی اسمگلنگ میں ملوث رہا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق گپتا نے کرائے کے قاتل سے رابطہ کیا جو امریکی قانون نافذ کرنے والے ادارے کا خفیہ افسر تھا اور اس مبینہ کرائے کے قاتل کو بتایا گیا تھا کہ کئی اہداف کو نشانہ بنایا جانا ہے۔رپورٹس کے مطابق گورپتونت سنگھ پنوں کے قتل کیلئے ایک لاکھ ڈالر دینے کا وعدہ کیا گیا تھا اور اس حوالے سے 15ہزار ڈالر کی پیشگی رقم دی گئی تھی، جس کی تصویر جاری کردی گئی ہے۔ دُنیا کے لیے یہ انکشاف نیا ہوگا، لیکن بھارت کا مکروہ چہرہ کئی بار بُری طرح بے نقاب ہوچکا ہے۔ بھارت ناصرف خطے کے ممالک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث رہا ہے بلکہ خطے سے دُور پرے کے ممالک میں بھی تخریبی کارروائیاں کرواچکا ہے۔ ڈس انفولیب اس کی گزشتہ سال بے نقاب ہوئی تھی، جس کا مقصد جعلی اور پروپیگنڈا خبروں کی ترویج کرنا تھا۔ بھارت کی انتہاپسند حکومت اپنے ملک کی بدنامیوں میں اضافے کا باعث ہے۔ بھارت میں تمام اقلیتوں کو آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ اُن کے استحصال کی کسی کو اجازت نہیں۔ وہ بھی ہندو باشندوں کی طرح بھارت میں تمام حقوق کے مستحق ہیں۔ بھارتیوں کو سمجھنا چاہیے کہ اُن کا امیج دُنیا میں تباہ کرنے کا کون باعث بن رہا ہے۔ اگلے انتخابات میں وہ ووٹ کے ذریعے ایسی فاشسٹ حکومت کا دھڑن تختہ کرسکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button