ColumnImtiaz Aasi

رائے عامہ سے فرار کیسے؟

تحریر : امتیاز عاصی
اسلام کے نظام خلافت میں رائے عامہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ پیغمبر اسلامؐ کی رحلت کے بعد خلفیہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب رائے عامہ کے ذریعے ہوا تھا۔ گویا جمہوری نظام میں رائے عامہ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ملک کا آئین عوام کو آزادی تحریر و تقریر کے ساتھ اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کا حق دیتا ہے۔ گویا اس اعتبار سے یہاں کے عوام کو اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے جو انہیں آئین نے دیا ہے۔ اس وقت ملک میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد 175ہے۔ پہلے نمبر پر تحریک انصاف اور دوسرے نمبر پر چودہ جماعتی اتحاد ( پی ڈی ایم ) کا ہے۔ پی ڈی ایم کی یہ تمام جماعتیں آئندہ انتخابات کی تیاریوں کے سلسلے میں کسی نہ کسی طریقہ سے مصروف عمل ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی کو انتخابی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے۔ سانحہ نو مئی ملکی تاریخ کا سیاہ باب ہے جسے ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ اس سانحہ میں ملوث مرد وزن جیلوں میں ہیں اور اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم کئی ایک مقدمات کے سلسلے میں پہلے سے جیل میں ہے۔ عجیب تماشا ہے نو مئی کے سانحہ میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات ہیں اور وہ پابند سلاسل ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت جس کی عوامی حمایت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اسے ملک میں کہیں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جہاں کہیں وہ جلسہ کرنے کے خواہاں ہو وہاں ایک سو چوالیس لگا دی جاتی ہے۔ پی ٹی آئی کے بہت سے سرکردہ رہنمائوں نے پریس کانفرنس کرکے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے۔ سوال ہے بیس کروڑ عوام کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ ایک طرف کہتے ہیں جمہوریت میں عوام کو اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کا اختیار ہوتا ہے دوسری طرف عوام کو ان کے جمہوری حق سے محروم کرنا کیا یہی جمہوریت ہے؟۔ ہماری معلومات کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کے بعد اس کی ساری کارروائی سے الیکشن کمیشن کو باضابطہ طور پر آگاہ کر دیتی ہے اس کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی کو دوبارہ انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی ہدایت دینے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ البتہ یہ اختیار ضرور ہے اگر کوئی پارٹی مقررہ مدت کے اندر انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کراتی تو اس پر جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے کئی ہزار ورکرز پر مقدمات ہیں جن میں بہت سے مرد اور خواتین جیلوں میں ہیں۔ اب تو اعلیٰ عدالتوں نے بھی محسوس کر لیا ہے تمام سیاسی جماعتوں کو جلسے کرنے کی اجازت ہے پی ٹی آئی جلسہ کرے تو ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر ایک سو چوالیس لگا دیتے ہیں جو کھلا تضاد نہیں تو اور کیا ہے۔ کے پی کے میں تحریک انصاف کو کنونشن کی اجازت نہ دے کر حکومت نے جمہوریت کی پیٹ میں چھرا گھونپا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے ایک بینچ نے آبزوریشن دی ہے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو جلسے کرنے کی اجازت ہے صرف ایک جماعت کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک طرف الیکشن کمیشن انتخابات میں غیر ملکی مبصرین کو ملک میں آنے کی اجازت دے رہا ہے، دوسری طرف ملک کی سب سے بڑی جماعت کو جلسہ کرنے کی اجازت نہ دے کر کون سی جمہوریت کی خدمت ہے۔ ملک میں صاف ستھری سیاسی قیادت پہلے سے ناپید ہے۔ طلبہ یونیز پر برسوں سے پابندی عائد ہے۔ جب تک طلبہ یونیز کی سرگرمیوں کی اجازت تھی کوئی نہ کوئی لیڈر نکل آتا تھا جب سے طلبہ یونیز پر پابندی لگی ہے ملک میں سیاسی قیادت ناپید ہے۔ بس وہی پرانے گھسے پٹے سیاست دان جن کی اکثریت مبینہ طور پر کرپشن میں آلودہ ہے عوام پر مسلط ہیں۔ گو عمران خان کوئی فرشتہ نہیں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اس نے عوام کو باشعور کر دیا ہے عوام کو اچھے اور برے سیاست دانوں کی تمیز ہو چکی ہے۔ ملک میں جہاں کہیں ضمنی الیکشن ہوئے ان کے نتائج اس امر کے غماز ہیں عوام کی اکثریت کرپٹ سیاست دانوں کو
مسترد کر چکی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو جلسے کرنے کی اجازت نہ دے کر انتخابات کے انعقاد کو مشکوک بنایا جا رہا ہے جو ملک کے لئے اچھا شگون ثابت نہیں ہو گا۔ تعجب ہے پی ٹی آئی کے کسی رہنما کو عدالت ضمانت پر رہا کرتی ہے تو اسے دوبارہ نئے مقدمات میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ایک طرف شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کو ملک کے لئے ضروری قرار دیا جاتا ہے دوسری طرف عوام کو ان کے پسندیدہ نمائندوں کو منتخب کرنے کے حق سے محروم رکھے جانے کی کوشش جاری ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے پچاس سال سے عوام یہی تماشا دیکھتے آرہے ہیں، عوام کی رائے کے برعکس ان پر لیڈر مسلط کئے جاتے ہیں جس کا نتیجہ ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ کرپشن میں ملوث سیاسی رہنمائوں کو کسی نہ کسی بہانے چھوڑ کر انہیں اقتدار میں لانے کی کوششوں کا نتیجہ ملک کی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے بھارت اور ہم ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے ہم ترقی کے معاملے میں بھارت سے کوسوں دور کیوں ہیں۔ آئی ایف ایم کے چنگل سے نکلنے کے لئے کسی حکومت نے سنجیدگی سے کوشش نہیں کی بلکہ ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے رکھنے کی کوشش جاری ہے جس کے نتیجہ میں مہنگائی نے عوام کی زندگیاں اجیرن کر دی ہیں۔ ان تمام پہلوئوں پر روشنی ڈالنے کا مقصد نگران حکومت اور الیکشن کمیشن نے انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں کسی قسم کی تنقید سے بچنا ہے تو تمام سیاسی جماعتوں انتخابی مہم کے لئے مواقع فراہم کرنا ہوں گے ورنہ الیکشن کا انعقاد مشکوک ہونے کا احتمال ہے۔ ہمیں ذاتیات سے نکل کر ملک و قوم کے لئے سوچنا چاہیے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شفاف الیکشن نہ ہونے کا نتیجہ سب نی مارشل لاء کی صورت میں دیکھ لیا تھا لہذا اگر لولی لنگڑی جمہوریت کو بچانا ہے تو ساری سیاسی جماعتوں کو جلسے کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ آزمائے ہوں کو آزمانے کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا الٹا ہمارا ملک پھر سے بحرانوں کا شکار ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button