Column

ایم فل، پی ایچ ڈی کی ڈگریاں اور کرائے کے ریسرچرز۔۔۔۔

تحریر : شہزاد چودھری

معیار ہی کسی چیز کی اصل شناخت اور وجود کی دلیل ہے۔ کوالٹی ہر حال میں کوانٹٹی سے بہتر ہے۔ ایک ہزار قابل آدمی ایک لاکھ نکمے آدمی سے ہر صورت بہتر ہے۔ حتی کہ خلوص، معیار اور حضوری کا ایک سجدہ بے حضوری کے ہزاروں برس کے کروڑوں سجدوں سے بہتر ہے ۔ معیار کے اسی پیمانے کو اگر تعلیم کے حوالے سے دیکھا جائے اور پھر ڈگری یافتہ افراد کی قابلیت اور اہلیت کو دیکھا جائے تو بعض اوقات خاصی مضحکہ خیز صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پہلے تو ملک میں رائج تعلیمی نظام یکساں نہیں سو معیار بھی یکساں نہیں ۔ اداروں کا معیار، اساتذہ کی قابلیت، سب سوالیہ نشان ہیں۔ لمز میں پڑھانے والے اساتذہ اور بلوچستان کے پہاڑوں میں پڑھانے والے اساتذہ کے تعلیمی معیار میں بہت فرق ہے اور اسی تناسب سے پھر ڈگری ہولڈرز کی قابلیت اور استعداد میں بھی ۔
سکول سے لیکر یونیورسٹی تک کئی اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔ کچھ کا علم اور انداز تو ایسا کہ جیسے روح میں اتر گیا ہو اور کچھ سے اکتساب فیض کرتے ہوئے ایک عجیب طرح کی موٹیویشن سی ہوتی تھی کہ یار اگر ان لوگوں نے پی ایچ ڈی کر لی ہے تو ہم بھی آرام سے کر ہی لیں گے۔ میں سوچ میں پڑ جاتا تھا کہ اس بندے نے پی ایچ ڈی کر کیسے لی ؟ ان کی علمی اور تحقیقی جانچ پڑتال کیسے کی گئی ہو گی ؟اور ادارے نے ڈگری جاری کرتے ہوئے کس کس چیز پر کمپرومائز کیا ہو گا ؟
ایک پروفیسر ڈاکٹر صاحب جو کئی کتابوں کے مصنف ہیں، ایک سرکاری یونیورسٹی کے ایکٹنگ وائس چانسلر رہ چکے ہیں اور ایک نجی یونیورسٹی میں ایک ڈیپارٹمنٹ کے ڈین بھی رہے ہیں، انہیں جی پی اے اور سی جی پی اے میں فرق تک معلوم نہ تھا۔ پوری کلاس انہیں سمجھا رہی تھی مگر وہ اپنی بات سے ٹس اور مس نہیں ہو رہے تھے۔ ایم فل کی کلاس طلبا کا موقف تھا کہ ان کا سی جی پی اے تین سے زیادہ ہے لہذا انہیں ریسرچ تھیسس آفر کیا جائے مگر وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہر مضمون میں بھی تھری سی جی پی اے لینا ضروری ہے۔ ان کی پی اے بھی کہہ رہی تھی کہ طلبا کا موقف ٹھیک ہے مگر وہ نہیں مانے۔ لہذا تنگ آ کر ایک طالب علم نے کہا کہ جناب ڈاکٹر صاحب سنا تو یہ تھا کہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر علم کا بینک ہوتا ہے مگر آج معلوم ہوا کہ اب ان بینکوں میں بھی ڈاکہ پڑ چکا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنی ضد پہ اپنی لاعلمی کی بنیاد پہ اڑے رہے اور ساری کلاس کسی اور یونیورسٹی میں ہجرت کر گئی مگر ساری کلاس کا ایک سال اور فیس ضائع ہو چکی تھی۔ ایک ڈاکٹر صاحب ایم فل کی کلاس کو اوریینٹیشن دے رہے تھے اور اپنی ہی لکھی ہوئی کتابوں پر تبصرہ فرما رہے تھے کہ ایک طالب علم ( جس کو معلوم نہیں تھا کہ موصوف ہی ان کتابوں کے مصنف ہیں ) جو ذرا لیٹ آیا اس نے آتے ہی کہا کہ جناب میں نے ان کتابوں کا مطالعہ کیا ہے یہ کتابیں جس بھی شخص نے لکھی ہیں وہ بلا کا کنفیوژڈ آدمی ہے۔ کسی بھی سبق کا سر ہے نہ کوئی پیر۔ پروفسیر صاحب کے ماتھے پہ پسینہ نمودار ہوا اور طالب علم کلاس سے باہر۔
بہر حال یہ سوال جو برسوں سے میرے ذہن میں تھا کہ ان جیسے پروفیسرز نے ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں کیسے پاس کر لیں ؟ اس سوال کا جواب برسوں بعد ’’ رینٹل ریسرچر،، کی صورت میں ملا۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک دوست نے فون کیا اور پوچھا سر کیا آپ نے ریسرچ تھیسس کر لیا ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے مزید پوچھا کہ خود کیا ہے یہ کسی سے کروایا ہے ؟ ایک لمحہ کے لئے تو مجھے اس بے تکے سوال کی سمجھ نہ آئی۔ ذرا توقف کے بعد میں نے کہا کیا مطلب ؟ کیا بنے بنائے بھی مل جاتے ہیں؟ تو اس نے کمال تسلی سے جواب دیا جی جناب میں نے پتا کیا تھا مگر رینٹل ریسرچر کا ریٹ میری اوقات سے ذرا زیادہ تھا۔ پچاس ہزار۔ اس نے مزید انکشاف کیا کہ سر کئی لوگوں نے تھیسس بنوائے ہیں ان سے۔ میں حیران ہوا کہ کرایے پہ مکان ملا کرے تھے ، رینٹل پاور پراجیکٹ ہوا کرتے تھے اور اب رینٹل ریسرچر بھی !!!!! حیرت ہے ۔
میں نے اس موضوع پر مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ تو ایک منظم کاروبار ہے۔ لوگوں نے سیٹ اپ بنایا ہوا ہے۔ کچھ افراد کو رکھا ہوا ہے، ٹیمز بنائی ہوئی ہیں۔ کوئی لٹریچر ریویو کر رہا ہے، کوئی ڈیٹا اینالسس کر رہا ہے، کوئی گرائمر چیک کر رہا ہے اور تھیسس پہ تھیسس بنا بنا کر ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈگری کے متمنی طلبا و طالبات کو دئیے جا رہے ہیں۔ رینٹل ریسرچر پیسے کما رہے ہیں اور لوگ ڈگری یافتہ بن رہے ہیں، تعلیم یافتہ ہونے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔ یہ حال تو کچھ طلبا و طالبات کا ہے۔ خبر یہ ہے کہ کچھ اساتذہ بھی رینٹل ریسرچرز کی خدمات لیتے ہیں۔ ملک کی ایک معروف سرکاری یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ موصوف رینٹل ریسرچرز سے کرائے پہ ریسرچ آرٹیکل لکھواتے ہیں ، پیسے دیکر انہیں منظور شد جرنلز میں چھپواتے ہیں، پھر وہی آرٹیکل پڑھنے کے لئے بیرون ملک جانے کے لئے یونیورسٹی سے گرانٹ لیتے ہیں اور انکریمنٹ بھی طلب فرماتے ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جو دوسرے افراد کا تھیسس ہی کاپی پیسٹ کرکے ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں۔
ایک پروفیسر صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ جناب جب پی ایچ ڈی کا تھیسس ڈیفینڈ کرنے سے آئے تو ویل چیر پی بیٹھے تھے، مصنوعی بیمار تھے، ڈرپ لگی ہوئی تھی، ہانپ رہے تھے، کمیٹی ممبران جو بھی سوال کرتے بس یہی کہتے سر میں بیمار ہوں، پلیز! کمیٹی نے بھی کہا جائو تھیسس منظور کیا جاتا ہے اور یوں پی ایچ ڈی مکمل ہو گئی۔
حیران ہوں، ہم کس طرح کے پروفیشنل پیدا کر رہے ہیں، ڈگریاں لئے پھرتے ہیں مگر اپنے سبجیکٹ کے متعلق کچھ خبر نہیں، میں دیکھ رہا ہوں اردو ادب میں کچھ ایسے افراد پر تھیسز لکھے جا رہے ہیں جن کا اس لیول کا کوئی کام ہی نہیں ۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے پروفیسر جاوید اکرام نے انکشاف کیا تھا کہ ایم فل کے طلبا پیسے دے کر تھیسز لکھوا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ سرکاری جامعات میں تیس فیصد اور نجی جامعات میں پچاس فیصد جعلی تھیسز جمع کرائے جاتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اس بارے میں غور کرنا چاہئے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے ریسرچ تھیسس میں ایچ ای سی کو چاہئے اپنے زیر اہتمام کوئی بورڈ بنائے جو تمام یونیورسٹیز کے ایم فل اور پی ایچ ڈی لیول کے تھیسس کو دیکھے اور خود ٹھوک بجا کے ’’ وائیوا ‘‘ لے اور صرف اہل افراد کو یہ ڈگریاں جاری کرے، تعلیم کے معیار کو یقینی بنائے اور اسے تماشا بننے سے روکے تاکہ ڈگری یافتہ فرد صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ بھی ہو اور تحقیق سے بہرہ ور بھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button