Ali HassanColumn

لاقانونیت کے شاخسانے

علی حسن
کراچی کے علاقے راشد منہاس روڈ پر جمعہ کے روز شاپنگ مال میں آگ لگنے سے گیارہ افراد ہلاک ہو گئے۔ آگ کے معاملے پر کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے محکمہ فائر بریگیڈ نے اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ وہ رپورٹ کیا ہے بس افسوس کرنے کا مقام ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 6منزلہ شاپنگ سینٹر میں ہنگامی صورتحال میں باہر جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ حفاظتی اقدامات موجود نہیں تھے۔ حادثے کی صورت میں بیک اپ پر بجلی کا نظام بھی موجود نہیں تھا ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایمرجنسی میں بچائو کے راستوں کی نشاندہی کیلئے روشنی کا انتظام نہیں تھا۔ آگ لگنے کے حادثے میں عمارت میں موجود 11افراد لقمہ اجل بنے۔ یہ 11افراد آگ لگنے کی وجہ سے نہیں بلکہ دم گھٹنے سے جاں بحق ہوئے۔ شاپنگ مال میں 210دکانیں تھیں جس میں بیشتر کو بچایا گیا تھا، 45دفاتر کے ملازمین مال میں آگ کی وجہ سے پھنسے جنہیں ریسکیو کیا گیا، شاپنگ پلازہ میں ہوا کی آمد و رفت کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے دھواں بھر ہوا تھا۔
ایک اور رپورٹ میں ڈائریکٹر ریسکیو 1122سندھ ڈاکٹر عابد کا کہنا ہے کہ ایک سروے کے مطابق 90فیصد عمارتوں میں فائر فائٹنگ کا نظام سرے سے ہی موجود نہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ شاپنگ مال میں آگ لگنے کے معاملے کی ایف آئی آر ہو چکی اور تحقیقات بھی ہو گی۔ آگ لگنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، بلڈنگ کنٹرول کے معاملے پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شاپنگ مال میں فائر فائٹنگ کا نظام ہمیں نظر نہیں آیا، ریسکیو ٹیموں کو آگ بجھانے کے لیے شاپنگ مال کی عمارت میں داخل ہونے میں بھی دشواری پیش آ رہی تھی۔ عمارتوں میں فائر فائٹنگ کا نظام ہونا کافی نہیں، عمارت میں موجود لوگوں کی ٹریننگ بھی ہونی چاہیے، فائر ڈرلز ہونا بھی بہت ضروری ہے۔
ایس ایس پی ایسٹ انویسٹی گیشن سعود مگسی کا کہنا ہے کہ راشد منہاس روڈ پر واقع آگ سے متاثرہ شاپنگ مال میں ماہرین کے آنے اور شواہد جمع کرنے تک مال سیل رہے گا۔ انہوں نے راشد منہاس روڈ پر شاپنگ مال کا دورہ کیا جہاں میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شاپنگ مال کے بلڈر سے نقشہ طلب کیا ہے، نقشے میں دیکھیں گے کہ ہنگامی اخراج یا حفاظتی انتظامات تھے یا نہیں، تفتیش کے لیے کمیٹی میں ایک انجینئر کو بھی شامل کیا ہے، کچھ شواہد ملے ہیں لیکن ابھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ پولس نے تمام متعلقہ اداروں خط لکھ دیا گیا ہے، انجینئرز اور ماہرین کے ساتھ دورہ کریں گے، جو ذمے دار ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی، مقدمے کے اندراج میں کوئی جلد بازی نہیں ہوئی۔
کراچی یا پاکستان کے کسی بھی شہر میں آگ لگنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ سیکڑوں واقعات ہو چکے ہیں اس کے باوجود ذمہ دار حکام بوجوہ حفاظتی اقدامات نہیں کرتے ہیں۔ حکام توجہ نہیں دیتے۔ آگ لگنے کے واقعات اس لحاظ سے سنگین ہوتے ہیں کہ لوگوں کی جان چلی جاتی ہے لوگوں کے اثاثہ پل میں راکھ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ واقعہ رونما ہونے کے بعد تحقیقات اور تفتیش کے نام پر رپورٹوں کی تیاریوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیوں نہیں تعمیر کے وقت ہی احتیاطی اور حفاظتی اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔ تعمیر کی اجازت دینے والے محکمہ کا معاملہ تو یہ ہے کہ پیسے دے کر کوئی بھی فرد کچھ ہی کرا سکتا ہے۔ آگ کے شکار راشد منہاس جیسی مصروف ترین سڑک پر واقع شاپنگ پلازہ میں سانس لینے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ پوری عمارت اس بری طرح چاروں طرف سے پیک تھی کہ بھاگنے کا راستہ تھا نہ ہی جان بچانے کا راستہ تھا۔ نقشہ منظور کرتے وقت اس طرف توجہ کیوں نہیں دی جاتی ہے۔ یہ بتانا ضروری نہیں کہ عمارت تعمیر کرنے والا بلڈر یا ٹھیکیدار تعمیرات کے دوران دئے گئے قانونی تقاضوں کو ذمہ دار افسران کی ملی بھگت سے اس لئے پورا نہیں کرتے ہیں کہ کہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا پیسہ خرچ ہو جائے گا، ان کی زمین ان کے خیال میں بلا وجہ ’ ضائع ‘ ہو جائے گی۔ اپنے معمولی فائدے کے لئے وہ لوگوں کی جانوں سے کھیل جاتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ غیر قانونی کام کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد ذہن بنا کر رکھتی ہے کہ اس ملک میں ہونا تو کچھ بھی نہیں ہے کیوں قانون ، قانونی تقاضوں، پابندیوں پر عمل کیا جائے۔ ہوتا بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ کچھ بھی ہوجائے، غیر قانونی معاملات کے مرتکب افراد کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کوتی ہے۔
وزراء ایسے واقعات کو اپنی ذمہ داری تصور نہیں کرتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں کس معاملہ کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں یا تصور کرتے ہیں۔ جہاں جہاں پیسہ نظر آتا ہے سب جھپٹ پڑتے ہیں۔ حکومتوں نے عوام سے تعلق رکھنے والے تمام معاملات کو مذاق بنا رکھا ہے۔ صوبہ سندھ کے نگراں وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر جن جن اضلاع کا جہاں جہاں دورہ کرتے ہیں سوائے برہمی کا اظہار کرنے، تنبیہ کرنے اور تحقیقات کرنے کا حکم دینے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر پاتے۔ ان کے احکامات کو سرکاری افسران یہ سوچ کر سنجیدگی سے نہیں لیتے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نگران وزیر اعظم ہوں، وزیر اعلیٰ ہوں یا وزراء ان سب لوگوں کو مہینوں کے اندر اندر چلا ہی جانا ہے۔ دیکھا گیا ہے بعض وزراء تو معاملات میں قطعی دلچسپی نہیں ہیں۔ یہ سارے معاملات بہت زیادہ دلچسپی کا تقاضہ کرتے ہیں۔ ہر دم نگرانی کا تقاضہ کرتے ہیں۔ لیکن منتخب حکمران اور سرکاری افسران اپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے پورے ملک کا انتظامی نظام بیٹھ گیا ہے۔ اسے بحال کرنے میں بھی وقت لگے گا۔ یہاں کسی کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button