ColumnRoshan Lal

آصف زرداری کا تجربہ اور بلاول کا جذبہ

روشن لعل
گزشتہ کچھ دنوں سے ہر قسم کے میڈیا پر آصف علی زرداری کا حامد میر کو دیا گیا انٹرویو شد و مد کے ساتھ زیر بحث ہے۔ زرداری صاحب کا انٹرویو پہلی مرتبہ دیکھ کر ہی اس میں کہی جانے والی تمام باتیں سمجھ میں آگئی تھیں مگر اس کے باوجود اسے بار بار دیکھا۔ مذکورہ انٹرویو ایک سے زیادہ مرتبہ دیکھنے سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ زرداری صاحب کا دماغ اب بھی مکمل فعال ہے اور اپنے روز افزوں تجربوں کی بدولت ان کی غوروفکر کی صلاحیتیں اب بھی حسب سابق ہیں مگر قید و بندکی صعوبتوں کی وجہ سے لاحق ہونے والی بیماریوں کے سبب کچھ ایسے لفظ ان کی دسترس سے باہر ہو جاتے ہیں جن کے استعمال کے بغیر ذہن میں آئی ہوئی باتیں کما حقہ واضح نہیں ہو پاتیں۔ چاہے کسی کو یہ بات پسند نہ آئے مگر اسے کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ زرداری صاحب میں رونما ہونے والی اس واضح چھیج کو نہ انہیں خود اور نہ ہی ان کے خیر خواہوں کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ چھیج ایسے کمی کو کہتے ہیں ہے جو کسی شے کو بار بار تولنے سے اس کے وزن میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ زرداری صاحب میں رونما ہونے والی چھیج کو مد نظر رکھ کر اگر ان کے تازہ ترین انٹرویو پر غور کیا جائے تو اس میں بہت کم ایسی باتیں نظر آتی ہیں جنہیں خلاف واقعہ سمجھا جا سکے۔ زرداری صاحب کے انٹرویو کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں انہوں نے ایسے امکانات کا ذکر کیا جن کا اندازہ انہیں اپنے سابقہ حکومتی اتحادیوں کے حالیہ رویوں کو دیکھ کر ہوا ۔ زرداری صاحب نے جو کچھ کہا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے خیال کے مطابق اس ملک میں کسی بھی سیاستدان یا سیاسی جماعت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ دیگر موثر سیاستدانوں کو اعتماد میں لیے بغیر تن تنہا اس ملک کے گھمبیر مسائل حل کر سکے ۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ وہ دیگر سیاسی جماعتوں کے تعاون کے بغیر محض اسٹیبلشمنٹ یا ایجنسیوں کی بیساکھیوں کے سہارے ملک کے کوہ گراں جیسے مسائل حل کر سکتا ہے تو کوئی مثبت پیش قدمی کرنے کی بجائے وہ خود کو اور ملک و قوم کو اس سے بھی بڑی کھائی کی طرف دھکیل رہا ہے جس میں وہ پہلے بھی کئی مرتبہ اپنے ساتھیوں سمیت چھلانگ لگا چکا ہے۔
یہ مشاہدہ پاکستان میں معمولی سیاسی فہم کے حامل لوگوں نے بھی کر رکھا ہے کہ آصف علی زرداری ہر نئے سیاسی دور کے آغاز پر ایسے سیاستدانوں کی طرف تعاون کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں جن کی جماعتیں پارلیمنٹ کا حصہ بنتی ہیں یا ان کے بننے کا امکان ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ میں معمولی سی عددی اکثریت رکھنے والے لوگ کسی اور کے اشارے پر آصف علی زرداری کا تعاون کے لیے بڑھایا ہوا ہاتھ بری طرح جھٹک دیتے ہیں مگر جب اشارے کرنے والے ان کے سر سے اپنا ہاتھ کھینچتے ہیں تو اس کے بعد وہ زرداری کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے تگ و دو شروع کر دیتے ہیں ۔ پانامہ سکینڈل سامنے آنے کے بعد میاں نوازشریف نے 2017میں آصف علی زرداری کا وہ ہاتھ پکڑنے کی بہت کوشش کی جو انہوں نے عمران خان کا دھرنا ختم ہونے کے بعد 2015میں بری طرح سے جھٹک دیا تھا۔ اسی طرح جب عمران خان اپنے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کوششوں کے باوجود ناکام نہ بنا سکے تو پھر انہوں نے بھی آصف علی زرداری کی طرف ہاتھ بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ زرداری صاحب نے جس طرح مطلب کے تحت بڑھایا گیا میاں نوازشریف کا ہاتھ تھامنے سے انکار کیا تھا اسی طرح عمران خان کے بڑھائے گئے ہاتھ کو بھی بری طرح نظر انداز کر دیا۔ زرداری صاحب نے اپنے انٹرویو میں جو کچھ کہا اس سے تجربوں کی بنیاد پر کیا گیا ان کا یہ قیاس ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت جو لوگ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر کسی کی بیساکھیوں کے سہارے آئندہ الیکشن میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں ان کے خوابوں کی تعبیر کسی طرح بھی ان کی خواہشوں کے مطابق برآمد نہیں ہو سکے گی۔ جو لوگ بیساکھیوں کو سہارا بنا چکے، یہ نظر نہیں آتا کہ وہ فوری طور پر بیساکھیوں سے کنارہ کشی اختیار کر سکتے ہیں۔ زرداری صاحب کا خیال ہی کہ آئندہ الیکشن میں اپنی امید اور دوسروں کی یقین دہانیوں کے باوجود متوقع نشستیں حاصل نہ ہونے پر مذکورہ سیاستدانوں کے لیے بیساکھیوں کا ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہو جائے گا۔ لگتا ہے کہ ایسی صورت میں زرداری صاحب کا پروگرام انہیں کھائی میں گرتا ہوا دیکھنے کا نہیں بلکہ ان ہاتھ تھامنے کا ہے۔ اس کے علاوہ ہی یہ بھی لگتا ہے کہ زرداری صاحب کھائی میں گرتے ہوئے لوگوں کا ہاتھ تھام کر ان سے اٹھارویں ترمیم سے بھی بڑا کوئی کام کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
زرداری صاحب کو اپنے تجربے کی بنیاد پر جو کچھ ہونے کا امکان نظر آرہا ہے بلاول کا جذبہ اسے دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تجربہ صرف زرداری صاحب کا نہیں بلکہ کم عمر ہونے کے باوجود بلاول کا بھی ہے ۔ بلاول اپنے تجربات کے دوران دیکھ چکے ہیں کہ جو لوگ بیساکھیوں کے سہارے اقتدار حاصل کرتے ہیں انہیں بیساکھیوں کی قیمت ادا نہ کرنے پر جیل بھی جانا پڑ جاتا ہے ۔ بیساکھیوں کے عادی ہو چکے لوگ جیل یاترا کے باوجود اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور بیساکھیاں ملنے کا امکان پیدا ہونے پر پھر سے اسے سہارا بنانے کی تگ و دو شروع کر دیتے ہیں۔ بلاول نے اسمبلی کے فلور پر ایسے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیساکھیوں کو سہارا بنانے کے باوجود یہ ایسے حالات پیدا کرنے سے قاصر رہتے ہیں جن میں ان کے بچوں کو اپنے والدین سے مختلف زندگی گزارنے کا ماحول میسر آسکے۔ جو بات بلاول نے اسمبلی میں کی تھی اسی کے تسلسل میں انہوں نے کے پی کے میں تقریر کرتی ہوئے کہ بزرگ سیاستدانوں کو یہ پیغام دیا کہ جو بزرگ باربار کئے جانے والے ایک ہی تجربے کی مسلسل ناکامی کے باوجود کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں انہیں ریٹائر ہو کر سیاسی میدان نوجوانوں کے لیے کھلا چھوڑ دینا چاہیے۔
بلاول نے صرف جذبے ہی نہیں بلکہ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر جو حقائق بیان کیے وہ ناقابل تردید ہیں مگر اس کے باوجود ان کے والد آصف علی زرداری نے ان کے متعلق یہ کہہ دیا کہ انہیں ابھی مزید تربیت اور تجربہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان باپ اور بیٹے کی باتوں سے یوں لگتا ہے کہ جنبز رگوں کو بلاول سیاست سے ریٹائر دیکھنا چاہتا ہے انہیں زرداری صاحب اس وجہ سے زائد المعیاد نہیں سمجھتے کیونکہ وہ حالات ابھی تک جوں کے توں ہیں جن میں ایسے لوگوں کو بیساکھیاں میسر آتی رہتی ہیں۔ جس طرح زرداری صاحب کے انٹرویو کے بعد میڈیائی نابغوں نے بلاول کے سیاسی فہم پر سوال اٹھانا شروع کر دیئے ہیں اسی طرح مشرف دور میں حاکم علی زرداری سے لیا گیا انٹرویو نشر ہونے پر آصف علی زرداری کے رویوں اور فہم پر بھی باتیں شروع کر دی گئی تھیں۔ اتفاق سے مرحوم حاکم علی زرداری کا انٹرویو کرنے والے کا تعلق بھی اسی میڈیا ہائوس سے تھا جس سے آصف علی زرداری کا انٹرویو کرنے والے کا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button