CM RizwanColumn

ناانصافی کی تلافی بڑی بات!

سی ایم رضوان
پچھلے پانچ سالوں میں حد سے زیادہ جلسوں، پریس برہفنگز اور مباحثوں میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو شدتِ اور کثرت کے ساتھ چور، ڈاکو اور منی لانڈرر کہا جاتا رہا۔ ان سب الزامات کی بنیاد وہ عدالتی فیصلے تھے جو 2018کے انتخابات سے قبل نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف دیئے گئے تھے۔ اب گزشتہ روز پیر کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے دوران سماعت ریمارکس دیئے ہیں کہ نواز شریف پر چارج صحیح فریم نہیں ہوا تھا۔ ایون فیلڈ اور العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنسز میں نواز شریف کی سزائوں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے معذرت کے ساتھ کہا کہ نہ تو چارج صحیح فریم ہوا اور نہ ہی نیب کو پتہ تھا کہ شواہد کیا ہیں۔ اس سے پہلے نواز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا تھا کہ احتساب عدالت نے کرپشن الزام سے بری کیا مگر آمدن سے زائد اثاثوں میں سزا سنائی تھی۔ واضح رہے کہ ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیلوں کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن پر مشتمل ڈویعن بینچ کر رہا ہے اور یہ اپیلیں بحال ہونے کے بعد دوسری سماعت تھی۔ نواز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل میں پانامہ کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے کہا کہ 2017میں سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ یہ جو فیکٹ آپ نے دیئے ہیں کیا یہ ریفرنس دائر کرنے سے پہلے کے ہیں تو امجد پرویز نے جواب دیا کہ تین حقائق ریفرنس سے پہلے کے ہیں باقی بعد کے ہیں۔ اس کے بعد وکیل امجد پرویز نے جے آئی ٹی کی تشکیل، ٹی او آرز اور جے آئی ٹی ارکان سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جولائی 2017میں نااہل قرار دے کر ریفرنسز دائر کرنے کی ہدایات کیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے استفسار کیا کہ فیصلے میں چیئرمین نیب کو کیا ہدایات دی گئیں سپریم کورٹ کی کارروائی الگ معاملہ ہے چیئرمین نیب کو معاملہ بھجوانے کے بعد کیا ہوا وہ بتائیں۔ امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ نیب کو فیصلے کے چھ ہفتوں کے اندر ریفرنسز دائر کرنے کی ہدایت کی گئی۔ ریفرنسز پر چھ ماہ میں فیصلہ کرنے کی بھی ڈائریکشن دی گئی، نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس دائر کیا گیا، اس کے علاوہ نواز شریف، حسن اور حسین نواز کیخلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس دائر کیا گیا، نیب نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ آرڈرز کی روشنی میں ان کے پاس ریفرنس بنانے اور دائر کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ تو ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کر چکی تھی پھر نیب نے تفتیش کا کیوں کہا؟ امجد پرویز نے جواب دیا کہ نیب نے ضابطے کی کارروائی پورا کرنے کے لئے ایسا کیا اور ایون فیلڈ ریفرنس میں دس سال اور العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی، فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف احتساب عدالت سے بری ہوئے تھے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے بریت کے خلاف اپیل دائر کی تھی؟ امجد پرویز نے جواب دیا کہ نیب نے بریت کے خلاف اپیل دائر کی تھی، اس پر ابھی تک نوٹس نہیں ہوا۔ امجد پرویز نے مزید بتایا کہ نواز شریف پر ایون فیلڈ ریفرنس میں اکتوبر 2017میں فرد جرم عائد کی گئی، جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم ٹین کی دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں، والیم ٹین میں باہمی قانونی معاونت کے لئے مختلف ممالک کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت سے متعلق دستاویزات تھیں۔ جسٹس حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ آپ نے کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی بھی ایک درخواست دائر کی تھی، جج صاحب نے ایک ریفرنس کو جلدی سے چلا کر فیصلہ سنایا اور دو پر کارروائی روک دی۔ امجد پرویز نے بتایا کہ فیصلے کے بعد دیگر ریفرنسز دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست دی تھی اور درخواست عدالت میں زیر سماعت ہونے کے دوران ہی جج محمد بشیر نے کیس سننے سے معذرت کر لی تھی، نیب نے ایک ابتدائی تفتیشی رپورٹ جمع کرائی اور بعد میں ضمنی تفتیشی رپورٹ دی، ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں صرف سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا، نیب نے ٹی وی انٹرویوز پیش کیے، نواز شریف کی اسمبلی فلور پر تقریر کا حوالہ دیا، ایک گواہ رابرٹ ریڈلے پیش کیا جو نواز شریف کی حد تک کیس میں متعلقہ گواہ نہیں، نیب نے گواہوں کے بیانات کے علاوہ کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے۔ جسٹس حسن اورنگزیب نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ کیا نیب نے صرف ڈاکیے کا کام کرنا تھا یا اپنا مائنڈ بھی استعمال کرنا تھا؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ پوری جے آئی ٹی رپورٹ نیب نے ریفرنس میں شامل کر دی۔ امجد پرویز نے کہا کہ نیب نے کال اپ نوٹس بھیجنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا، نواز شریف کو مالک اور مریم نواز سمیت دیگر بچوں کو بے نامی دار ثابت کرنے کا بوجھ پراسیکیوشن پر تھا، ہمارا موقف یہی رہا کہ چارج بھی غلط فریم ہوا ہے، نیب نے مریم نواز کو بینفشل اونر ثابت کرنے کی کوشش ضرور کی مگر اس الزام کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا تھا۔ بالآخر چیف جسٹس نے دو گھنٹے دلائل سننے کے بعد کہا کہ آج سماعت کو یہاں پر ہی ختم کرتے ہیں، ان اپیلوں پر مزید سماعت بدھ کے روز کی جائے گی۔
یاد رہے کہ 2016میں پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آیا جس میں نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں سے متعلق دستاویزات بھی شامل تھیں۔ تحریک انصاف، جماعت اسلامی نے ان پیپرز کی بنیاد پر نواز شریف کی نااہلی کے لئے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر دیں۔ 20اکتوبر 2016کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف پاناما کیس قابل سماعت قرار دے دیا جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، 20 اپریل 2017کو اس بینچ نے فیصلہ سنایا جس میں دو جج صاحبان کی جانب سے نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا جبکہ تین ججوں کے فیصلے میں مشترکہ تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنانے کی سفارش کی گئی۔ تین مئی 2017کو چھ افراد پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی گئی، دو ماہ میں تحقیقات ختم کرنے کی ہدایت دی گئی۔ دس جولائی 2017کو جے آئی ٹی نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی۔ 28جولائی 2017کو آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے فیصلے میں لکھا کہ نواز شریف نے کیپیٹل ایف زیڈ ای سے متعلق کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپائے، نواز شریف عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 12کی ذیلی شق، ٹو ایف اور آرٹیکل 62کی شق ون ایف کے تحت صادق نہیں رہے، نواز شریف کو رکن مجلس شوریٰ کے طور پر نااہل قرار دیتے ہیں، الیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن فوری جاری کرے، جس کے بعد نواز شریف وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔ فیصلے میں نیب کو نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف لندن کے چار فلیٹس سے متعلق ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا گیا جبکہ نواز شریف، حسن اور حسین نواز کے خلاف العزیزیہ سٹیل ملز سمیت بیرون ممالک قائم دیگر 16کمپنیوں سے متعلق بھی ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی۔ اسی طرح ایون فیلڈ ریفرنس میں بھی نیب نے الزام تو لگا دیئے مگر ان الزامات کو ثابت نہیں کیا اور نہ اس وقت کی عدالت نے یہ تکلف کیا جبکہ العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس پر بھی انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر احتساب عدالت نے 21فروری 2018کو نواز شریف کو مسلم لیگ ن کی صدارت سے نااہل قرار دے دیا۔ 6جولائی 2018میں عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف کو آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر 10سال قید کی سزا سنا دی، معاونت پر مریم نواز کو سات سال اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو بطور گواہ دستخط کرنے پر ایک سال قید کی سزا سنا دی۔ اس فیصلے کے وقت نواز شریف ملک سے باہر تھے۔ پاکستان میں 2018 کے عام انتخابات 25جولائی کو ہوئے اور نواز شریف کو انتخابات کے بعد ضمانت ملی تھی۔ تاہم بعدازاں احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اپیلوں پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے 19ستمبر 2018کو سزائیں معطل کر کے تینوں کو ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔
گو کہ نواز شریف کو انصاف اور اصول کے تقاضے پورے کئے بغیر سنائی گئی ان سزاں کی بناء پر اس قدر چور کہا گیا کہ اب ملک کا ہر دوسرا شخص اس جھوٹ کو نہ صرف مان چکا ہے بلکہ اس کی تشہیر بھی کر رہا ہے مگر اس ناانصافی کی تلافی کی امید پیدا ہوئی ہے جو کہ بڑی بات ہے۔ مطلب یہ کہ ہر معاملے میں انصاف ہونا ضروری ہے۔ الزام چاہے نواز شریف پر ہو یا عمران خان پر۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button