ColumnImtiaz Aasi

فلسطین کی بے بسی اور عالم اسلام کی بے حسی

امتیاز احمد شاد
سرزمینِ قدس، قبلہ اول کی بنا پر تمام اُمتِ مسلمہ کا مشترکہ اَثاثہ ہے۔ یہاں انبیاء کرامٌ کی کثرتِ بعثت کی بنا پر یہ ’’ سرزمینِ انبیائٌ‘‘ بھی کہلاتی ہے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے صاحبزادہ حضرت اسحاق علیہ السلام سے حضرت یعقوبٌ، حضرت یوسفٌ، پھر حضرت موسیٌٰ ، حضرت زکریاٌ، حضرت یحییٌٰ، حضرت دائودٌ، حضرت سلیمانٌ اور بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٌٰ تک یہ خطہ انوارِ نبوت سے جگمگاتا رہا ہے۔ پیغمبرِ آخرالزماں خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہجرت کے بعد ایک مدت تک بحکمِ الٰہی ’’ بیت المقدس‘‘ کی جانب رُخ کرکے نماز پڑھتے رہے ہیں، اسی لیے یہ مسلمانوں کا قبلہ اول کہلاتا ہے۔ معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مسجدِ اقصیٰ میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو نماز پڑھائی اور ’’ امام الانبیائؐ‘‘ کے شرف سے مفتخر ہوئے اور پھر یہیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ سفرِ معراج شروع ہوا، جس نے انسانیت کو سرِعرش مہمان نوازی کا اعزاز عطا کیا۔ اس بنا پر اُمتِ محمدیہ کا سر زمینِ فلسطین، مسجدِ اقصیٰ اور بیت المقدس کے ساتھ ایک ایمانی رشتہ قائم ہے۔ یہ رشتہ اتنا اَٹوٹ ہے کہ معلوم انسانی تاریخ میں سوائے ایک صدی ( جب صلیبیوں کا یہاں تسلُّط قائم ہوا) کے یہ خطہ ہمیشہ پرچمِ محمدی کے سرنگوں رہا ہے اور یہاں اسلام کی شان و شوکت کا ڈنکا بجتا رہا ہے۔
یہود جو ’’ مغضوب علیہم‘‘ قوم ہے، پچھلے تہتر سالوں سے اہلِ فلسطین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، یوں تو اس قوم کے ہاتھ انبیاء کرام علیہم السلام جیسی مقدس جماعت کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، اپنی ہی قوم کے علماء و صلحاء کا خون بہانا ان کا صدیوں سے آبائی پیشہ رہا ہے اور آج یہ فلسطین پر قابض ہوکر، وہاں صدیوں سے آباد مسلمانوں کا قتلِ عام کرکے انھیں نقل مکانی پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہودیوں کے مختلف جرائم قرآن کریم میں مذکور ہیں، جن میں ’’ قتلِ انبیائ‘‘ کا تذکرہ بار بار دہرایا گیا ہے۔ انہی جرائم کی بنا پر یہ قوم ذلت و پستی کی پاتال میں اُتاری گئی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ امت مسلمہ کے رہنما فقط گفتن، شنیدن ، برخواستن تک محدود ہو کر رہ گئے اور صیہونی قوتیں غالب آتی گئیں۔ سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’ اور تمہارے پاس کیا عذر ہے کہ تم جہاد نہ کر و اللہ کی راہ میں اور کمزوروں کی خاطر سے جن میں کچھ مرد ہیں اور کچھ عورتیں ہیں اور کچھ بچے ہیں جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو اس بستی سے باہر نکال جس کے رہنے والے سخت ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ( غیب سے) کسی دوست کو کھڑا کیجئے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ( غیب سے) کسی حامی کو بھیجیے‘‘۔ مسلم حکمران اگر اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں تو اُمتِ مسلمہ کے ہر فرد پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی اپنی حیثیت اور دائرہ کار میں اسرائیلی مظالم کے خلاف ضرور آواز اُٹھائے۔ ارضِ فلسطین جو دہائیوں سے لہو لہو ہے، جہاں بنیادی انسانی ضروریات بھی ظالم و جابر اسرائیلی فوج کی مرہونِ منت ہیں، جہاں سیّدنا آدمٌ و سیّدنا اسحاقٌ کا تعمیر کردہ قبلہ اول قائم ہے، جسے سیّدنا سلیمان علیہ السلام نے تزئین و آرائش سے آراستہ کیا تھا، جو امام الانبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت گاہ ہے، اس کی آزادی اور صیہونی چنگل سے رہائی اُمت کے فراموش کردہ فرائض میں سے ایک ہے۔ تاریخ پڑھیں واضح ہو گا کہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ نے اس خطے کو کیسے حاصل کیا، یہاں بسنے والے مظلوموں کی کیسے مدد کی؟ مال و دولت کے انبار تمہارے پاس، افرادی قوت جو یقینا ایمان سے لبریز تمہاری صفوں میں،جدید ہتھیار تمہاری دسترس میں اور غالب وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے ’’ مغضوب علیہم‘‘ قوم قرار دیا۔
عالم اسلام کی مجموعی بے حسی اور منافقت دیکھیں کہ اسرائیل نے غزہ میں مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور امت مسلمہ کے مجاہد فقط ریلیاں نکال کر شہیدوں میں اپنا نام لکھوا رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو دوسرا حصہ خود بخود بے تاب ہو جاتا ہے لیکن مجال ہے جو کسی اسلامی ملک نے فلسطین کی مدد کے لیے کمر باندھی ہو۔ وہی گھسی پٹھی باتیں، وہی روایتی بیانیہ اور وہی بے بنیاد دعوے جو یہ ہمیشہ سے کرتے ہیں۔ وہاں غزہ میں مسلمان تباہ برباد ہو گئے، یہاں انہوں نے ان کا دکھ محسوس کرتے ہوئے نیتن یاہو اور اسرائیلی جھنڈے کی تصویر پرنٹ کروا کے روڈز پر چپکا دی، وہاں نظام حیات رک گیا، اسپتال اڑا دئیے گئے، بچوں کی لاشوں سے آنگن بھر گئے یہاں شعلہ بیان مقررین نے گلے پھاڑ کر کہا کہ ہم فلسطین کے ساتھ ہیں۔ او بھائی، آپ کیسے ساتھ ہیں؟ انسانیت وہاں مر رہا ہے اور تم یہاں کہہ رہے ہو کہ ہم ان کے ساتھ ہیں، کیسے ساتھ ہو؟ اور تم کیسے بھائی ہو جو اپنے بھائی کے ساتھ صرف بیانیے کی حد تک کھڑے ہو۔ ترکی کی مشہور کہاوت ہے کہ یہ کہنا کافی نہیں کہ تم میرے بھائی ہو۔ ذرا بتائو تو، کون سے بھائی ہو؛ ہابیل یا قابیل؟ یہ بات آج کے مسلم نوجوان نسل کو معلوم ہونی چاہیے کہ عالمی نقشے پر فلسطین آج وہ نہیں جو خلافت عثمانیہ میں ہوا کرتا تھا۔ عالم اسلام کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گاڑا گیا۔ اس کے نتیجے میں فلسطین ایک لمبی سی پٹی بن کر رہ گیا۔ اس فلسطین میں غزہ ایک بہت چھوٹا سا خطہ نظر آتا ہے۔ اہل غزہ نے کئی سال قبل یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ ان نمائندوں کو اپنا ووٹ دیں گے جو حقیقی معنوں میں آزادی و حریت کے علم بردار ہوں اور جن کی زندگی اس بات کا ثبوت پیش کرے کہ وہ کسی طاغوتی قوت سے نہ مرعوب ہیں، نہ اس کے ہاتھوں بِک سکتے ہیں۔ انہیں حماس کی قیادت میں اپنے ان خوابوں کی تعبیر نظر آئی۔ انہوں نے حماس کو اپنی نمائندگی کے لئے منتخب کرلیا۔ غزہ میں حماس کی حکومت قائم ہوئی جس نے پوری دنیا کے غاصبوں اور ظالموں کی نیندیں حرام کر دیں۔ عالمی نقشے پر یہ خطہ ایک چھوٹے سے نقطے کی حیثیت رکھتا ہے۔ کل رقبہ 360مربع کلومیٹر ہے اور آبادی 1660000 کے لگ بھگ ہے۔ مگر سب نے دیکھا کہ کس طرح یہ مجاہد اسلام آسمان سے ابابیلوں کی ماند مسجد اقصیٰ کے آنگن میں اترے، اسرائیل کی تمام ٹیکنالوجی کو فلاپ کر دیا۔ میڈیا چونکہ ان ظالموں کے کنٹرول میں ہے اس لئے سچائی سامنے نہیں آرہی۔ یہ بات واضح ہے کہ اسرائیلی ان ایمان سے لبریز مجاہدوں سے تو لڑ نہیں پا رہے مگر نہتے فلسطینیوں ، جن میں بچے بوڑھے اور خواتین شامل ہیں پر اپنی وحشت کا اظہار کر رہے ہیں۔ بہر حال ظلم کو مٹنا ہے اور سچ کا سورج طلوع ہونا ہے۔ واقعہ کربلا میں کوفیوں کے کردار کی جس تاریخ کے طالبعلم کو سمجھ نہیں آئی وہ یقینا فلسطینیوں پر ہونے والے موجودہ مظالم پر مسلم امہ کے تمام ممالک کے کردار کا جائزہ لے لے، اس پر واضح ہو جائے گا کہ جب نواسہ رسولؐ کا ناحق خون بہایا جا رہا تھا تو اس دور کے کوفی آج کے دور کے کوفیوں کی مانند اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ سے خود کو کیسے تسلیاں دے رہے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button