Editorial

معاشی بحالی کیلئے آرمی چیف کی مکمل تعاون کی یقین دہانی

ملک عزیز پچھلے کچھ سال سے بدترین معاشی بحران کا شکار رہا ہے۔ معیشت کی صورت حال وقت گزرنے کے ساتھ دگرگوں ہوتی گئی۔ سابق دور حکومت میں معیشت کے ساتھ سنگین کھلواڑ کیے گئے۔ معیشت کے نظام کو تجربات کی بھینٹ چڑھادیا گیا۔ ترقی کے سفر کو روکا گیا۔ معیشت کے پہیے کو سست روی سے دوچار کیا گیا۔ معاشی گیم چینجر منصوبے سی پیک پر کام کی رفتار کو سست کیا گیا، یا بالکل روک دیا گیا۔ پاکستانی روپے کو بدترین بے توقیری سے دوچار کیا گیا۔ امریکی کرنسی اُسے چاروں شانے چت کرتی دِکھائی دی۔ ایک زمانے میں ایشیا کی مضبوط ترین کرنسی کہلانے والا پاکستانی روپیہ اپنی بے وقعتی پر ماتم کناں دِکھائی دیا۔ اس کی سراسر ذمے داری حکومت کی ناقص کارکردگی پر عائد ہوتی تھی، جس نے پاکستان اور اس کے 25کروڑ عوام کے لیے زیست عذاب بناڈالی۔ تاریخ کی بدترین مہنگائی اُن پر مسلط کی۔ آٹا، گھی، تیل، چینی، پتی، پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دی۔ ملکی تاریخ میں بڑے بڑے قرضے لیے۔ غربت مٹائو کے بجائے غریب مٹائو پروگرام پر عمل پیرا ہوا گیا۔ اس تمام عمل سے غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ کتنے ہی سفید پوش گھرانے غربت کی نچلی ترین سطح پر آپہنچے۔ کتنے ہی گھرانے فاقہ کشی پر مجبور ہوئے۔ عوام کی چیخیں نکالنے کے دعوے کرنے والوں نے غریبوں کا بھرکس نکال ڈالا اور بڑے فخر کے ساتھ میڈیا پر اپنی ناقص کارکردگی کے دفاع پر مامور نظر آئے۔ صورت حال بہت مشکل تھی۔ ایسا لگتا تھا ملک کو جان بوجھ کر ترقی معکوس کا شکار کیا جارہا ہے۔ خدا خدا کرکے نگراں حکومت آئی اور اُس نے معیشت کی بحالی کے لیے راست اقدامات ممکن بنائے، جن کے ثمرات ظاہر ہورہے ہیں، مہنگائی کے زور میں کمی آرہی ہے۔ نگراں حکومت کے ذخیرہ اندوزوں، اسمگلروں کے خلاف کریک ڈائون کے نتیجے میں ڈالر، سونے کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، جس کے ثمرات گزشتہ دو بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معقول کمی کرکے عوام کو پہنچائے گئے ہیں۔ گاڑیوں، کاروں اور الیکٹرانکس آئٹم کی قیمتوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ نگراں حکومت نے معیشت کی بحالی کے لیے درست سمت کا تعین کیا ہے اور اس کے لیے راست اقدامات یقینی بنارہی ہے، جس سے آئندہ وقتوں میں صورت حال کے بہتر رُخ اختیار کرنے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ ماہرین معیشت بھی ان اقدامات کو تحسین کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ گزشتہ روز خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں پاک فوج نے معیشت کی بحالی میں حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کا عزم ظاہر کیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ایپکس کمیٹی اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پاکستان کی پائیدار معاشی بحالی میں پاک فوج کے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کے عزم کو دہرایا ہے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا، اجلاس میں کونسل کے تحت ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں آرمی چیف، نگراں کابینہ کے ارکان، نگراں صوبائی وزرائے اعلیٰ اور متعلقہ اعلیٰ حکومتی اہلکاروں نے شرکت کی، اجلاس کے شرکا کو مختلف وزارتوں نے متعین شدہ اہداف کے بر وقت حصول میں سہولت کیلئے اقدامات پر بریفنگ دی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیٹی نے سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے کیے گئے اب تک کے اقدامات پر پیش رفت کو اطمینان بخش قرار دیا ہے۔ اجلاس میں ملک میں تیل اور گیس کے شعبے میں سرمایہ کاری کے منصوبوں اور خسارے کے شکار سرکاری اداروں کی نج کاری کے عمل کا بھی جائزہ لیا گیا جب کہ ایس آئی ایف سی کی اپیکس کمیٹی نے متفقہ طور پر دوست ممالک کے ساتھ رابطے کے لیے مختلف اقدامات کی منظوری دیتے ہوئے ان اقدامات کے تحت تصور کیے گئے مختلف منصوبوں پر تیزی سے عملدرآمد کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے تعاون کے ممکنہ شعبوں کی نشان دہی کرنے کے لیے متعلقہ وزارتوں کی کوششوں کو سراہتے ہوئے تمام شراکت داروں کو طویل المدتی اقتصادی منافع کے حصول کی ہدایت کی۔پاک فوج کی جانب سے معاشی بحالی کے لیے تعاون کی یقین دہانی خوش آئند ہے۔ پاک افواج کا کردار ہر موقع پر قابلِ تعریف رہا ہے۔ ملک و قوم پر جب بھی کوئی مشکل وقت آتا ہے تو پاک افواج مدد کے لیے سب سے پہلے پہنچتی ہیں۔ معیشت کے میدان میں بھی ان کے تعاون سے ملکی ترقی کی راہ تیزی سے ہموار ہوگی۔ اس میں شبہ نہیں کہ معاشی بحالی کے لیے درست راہ چُنی جاچکی ہے، اس پر باقاعدگی سے چلا بھی جارہا ہے، جو ملک و قوم کے لیے نیک شگون ہے۔ قوم شر پھیلانے والوں کی باتوں میں ہرگز نہ آئے۔ ان شاء اللہ پریشانی کے دن تھوڑے ہیں۔ کچھ ہی عرصے بعد ملک پھر ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہوگا اور عوام کی خوش حالی کا دور دورہ ہوگا۔ گو ملک پر قرضوں کا بے پناہ بار ہے، لیکن یہ وطن عزیز قدرت کا عطا کردہ انعام ہے، یہ بے پناہ وسائل سے مالا مال ہے، ان کو درست خطوط پر بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ یہ قرضے بھی جلد اُتر جائیں گے۔ ملک کو 60فیصد جوان آبادی کا ساتھ میسر ہے۔ اگر یہ ورک فورس صحیح سمت میں کام کرے تو ملک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں ٹاپ پر پہنچ سکتا ہے۔
اسموگ سنگین چیلنج اور عوام کی ذمے داری
موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی اسموگ کا مسئلہ ایک سنگین چیلنج کی صورت اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ اس وقت موسم سرد ہے اور ملک کے اکثر علاقوں میں اسموگ کی صورت حال ہے۔ ملک کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب اس سے زیادہ متاثر دِکھائی دیتا ہے۔ اس حوالے سے وہاں نگراں حکومت کی جانب سے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں۔ عام تعطیل بھی کی گئی، تعلیمی سمیت دیگر اداروں کو بند بھی رکھا گیا، لاک ڈائون بھی لگایا گیا، مزید اقدامات جاری ہیں۔ اس وقت پنجاب میں اسموگ کے حوالے سے صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ مسائل بڑھ رہے ہیں۔ عوام کی بڑی تعداد متاثر ہے۔ لاہور سمیت دیگر شہروں میں بدترین اسموگ کے باعث شہریوں میں نزلہ، زکام، بخار اور گلے میں انفیکشن کی شکایات میں اضافہ ہوا ہے۔ بچے خاص طور پر زیادہ متاثر دِکھائی دیتے ہیں۔ حدِ نظر بُری طرح متاثر ہے۔ اس باعث ٹریفک حادثات بھی رونما ہورہے ہیں۔ مسائل در مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کے عفریت سے نمٹے بغیر صورت حال بہتر رُخ اختیار نہیں کرسکتی۔ اس وقت لاہور، کراچی سمیت ملک کے اکثر شہر فضائی آلودگی کے لحاظ سے دُنیا بھر میں سرفہرست جارہے ہیں۔ عالمی ویب سائٹ ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق دُنیا کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور گزشتہ روز بھی پہلے نمبر پر رہا۔ آلودگی کی تعداد 352 پرٹیکیولیٹ میٹر ریکارڈ کی گئی، 6ڈویژنز میں اسموگ کی شدّت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکر بھی ہے۔ ہمارے شہروں کا دُنیا کے آلودہ ترین بلادوں میں شمار ہونے سے ہماری جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ دوسری جانب نگراں حکومت پنجاب کی کوششیں ہر لحاظ سے قابلِ تعریف ہیں، وہ اسموگ پر کنٹرول کے لیے مصروفِ عمل دِکھائی دیتی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سنگین چیلنج بن گیا ہے۔ اس حوالے سے ماضی میں حکومتی سطح پر محض بیانات تک محدود رہا گیا جب کہ دُنیا بھر کے ممالک اس صورت حال کے تدارک کے لیے اقدامات کیے جاتے رہے، جس کے ثمرات اُنہیں ملے اور ہمارے ہاں حالات وقت گزرنے کے ساتھ مزید خراب ہوتے چلے گئے۔ صرف پنجاب ہی نہیں ملک کے اکثر علاقے اسموگ کی لپیٹ میں ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پائے بغیر صورت حال بہتر رُخ اختیار نہیں کر سکتی۔ یہ اکیلے حکومت کے بس کا کام نہیں ہے۔ اس کے لیے عوام کو بھی ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ شہری جس طرح اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، اسی طرح گلی، محلوں، عوامی مقامات پر بھی صفائی کا خصوصی خیال رکھیں، ان مقامات پر کچرا وغیرہ پھینکنے سے گریز کریں۔ کچرے کو ڈسٹ بن میں ڈالنے کی عادت اختیار کریں۔ دھواں چھوڑنے والی فیکٹریوں اور گاڑیوں کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے۔ اُن کے مالکان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ ہر قسم کی آلودگی کا سدباب کیا جائے۔ حکومت ہر کچھ دنوں بعد شجرکاری مہم کی داغ بیل ڈالے اور پورے ملک میں تمام شہری اس میں اپنا بھرپور حصّہ ڈالیں۔ پودوں کی آبیاری کی ذمے داری باقاعدگی سے ادا کریں۔ انسان دوست ماحول کو پروان چڑھائیں تو صورت حال بہتر ہوسکتی ہے اور اسموگ کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button