Editorial

مہنگی بجلی آخر کب تک؟

وطن عزیز کافی عرصے تک توانائی کے بدترین بحران کی زد میں رہا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی قوم پر گزرا کہ بجلی موجود کم ہوتی تھی اور غائب زیادہ رہتی تھی۔ بدترین لوڈشیڈنگ کے سلسلے دراز تھے۔ ہر طرف عوام سراپا احتجاج رہتے تھے۔ پھر سابق ادوار میں بجلی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی بازگشت سنائی دی۔ لوڈشیڈنگ کے دورانیوں میں کمی واقع ہوئی۔ اس عرصے کے دوران حکومتی سطح پر لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے تو بڑے طمطراق سے کیے گئے مگر سستی بجلی کی پیداوار کے بارے میں زبانیں خاموش رہیں۔ اس حوالے سے راوی چَین ہی چَین لکھتا رہا۔ قوم پر مہنگی بجلی کا بم ہر کچھ عرصے بعد برسایا جاتا رہا اور اب عالم یہ ہوگیا کہ وطن عزیز میں خطے میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی استعمال کی جارہی ہے۔ غریب عوام کی آمدن سے زائد بجلی بل اُنہیں موصول ہوتے ہیں۔ دو دو کمروں کے گھروں میں لاکھوں روپے بجلی کے ماہانہ بل موصول ہونے کی ڈھیروں نظیریں موجود ہیں۔ دوسری جانب چین، بھارت، ایران، بنگلہ دیش وغیرہ میں بجلی انتہائی سستی ہے اور ان ملکوں کے عوام کو اس سہولت کے بدلے محض اپنی آمدن کا معمولی حصّہ صَرف کرنا پڑتا ہے جب کہ وطن عزیز میں تو بجلی بل کی ادائیگی کے لیے جمع پونجی ختم ہوجاتی ہے اور زیورات تک بیچنے پڑ جاتے ہیں۔ مہنگی بجلی کے حوالے سے صورت حال یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر کچھ عرصے بعد اب بھی بجلی کی قیمت میں اضافے ہوتے رہتے ہیں۔ پچھلے مہینوں ہونے والے ہوش رُبا اضافے پر ملک گیر احتجاج کے سلسلے دراز نظر آئے۔ تاجروں اور عوام نے بجلی قیمت میں اضافے کو یکسر مسترد کردیا۔ بجلی کی قیمت دہری ہوگئی، جس کی ادائیگی کرتے کرتے غریب کی کمر بھی دہری ہوچکی ہے۔ ملک گیر احتجاج کے باوجود کوئی نتیجہ نہ نکلا اور بل بھرنے ہی پڑے۔ اب پھر سے بجلی کی قیمت میں اضافے کے اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک میں بجلی کی قیمت میں ایک بار پھر اضافے کا امکان ہے، جس سے صارفین پر 40ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ ذرائع کے مطابق ملک میں بجلی صارفین پر 40ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں بجلی کی قیمت 3روپے 53پیسے فی یونٹ بڑھائے جانے کا امکان ہے۔ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کی جانب سے بجلی مہنگی کرنے کے لیے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں درخواست دائر کردی ہے۔ 3روپے 53پیسے فی یونٹ کا اضافہ اکتوبر 2023کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مانگا گیا ہے۔ بجلی مزید مہنگی کرنے کی سی پی پی اے کی درخواست پر نیپرا 29نومبر کو سماعت کرے گا۔ ذرائع کے مطابق من و عن اضافے کا جی ایس ٹی سمیت بجلی صارفین پر قریباً 40ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ بجلی کی قیمت میں اضافے کا اطلاق کے الیکٹرک صارفین پر نہیں ہوگا۔ بجلی قیمت میں اضافے کے خدشات یقیناً غریب صارفین کے لیے سوہانِ روح ہیں۔ وہ پہلے ہی بہ مشکل بجلی بل کی ادائیگی کر پارہے ہیں، اس کے لیے انہیں کیا کیا پاپڑ نہیں بیلنے پڑ رہے۔ اب مزید بوجھ سے اُن پر ہولناک بار آپڑے گا، جس کے وہ ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے۔ ضروری ہے کہ وسیع تر عوامی مفاد میں بجلی کی قیمت بڑھانے سے گریز کیا جائے۔ دوسری جانب بجلی قیمت میں اضافے کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو عوام کا بھرکس نکلتے دیر نہیں لگے گی۔ اب اس سلسلے کو متروک ہوجانا چاہیے اور سستی بجلی کی پیداوار کی جانب قدم بڑھانے کے لیے سنجیدگی سے ناصرف سوچنا چاہیے بلکہ اس حوالے سے عملی اقدامات بھی بروئے کار لانا چاہئیں۔ بجلی مہنگی کرنا مسئلے کا حل ہرگز نہیں، یہ سراسر عوام کے مصائب میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔آخر کب تک عوام مہنگی بجلی استعمال کرنے پر مجبور کیے جاتے رہیں گے۔ آخر کب تک ایسا چلے گا؟ کب اُن کی اشک شوئی ہوگی۔ یہ تمام سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ عوام کا درد رکھنے والے حکمراں اُن کے مصائب میں کمی لانے کے لیے اقدامات کرتے ہیں، اُن کی مشکلات میں اضافے کی وجہ نہیں بنتے۔ سستی بجلی کے حصول کے لیے کوئی تو سبیل کی جائے۔ سابق حکومتیں تو اس ضمن میں سنجیدہ اقدامات کرنے سے قاصر رہیں، اب تو اس حوالے سے قدم اُٹھالیے جائیں۔ اس ضمن میں چنداں تاخیر نہ کی جائے کہ جوں جوں اس حوالے سے لیت و لعل سے کام لیا جاتا رہے گا، مسئلہ اور سنگین ہوتا چلا جائے گا اور بجلی کی پیداوار بھی مزید مہنگی ہوتی رہے گی۔ ضروری ہے کہ بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع سے بتدریج جان چھڑائی جائے اور ملک میں استعمال ہونے والی تمام تر بجلی سستے ذرائع ( ہوا، پانی، سورج) سے حاصل کی جائے۔ اس حوالے سے بیانات سے بڑھ کر عملی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ منصوبے بنائے جائیں اور اُنہیں جلد از جلد پایۂ تکمیل کو پہنچایا جائے۔ چھوٹے ہوں یا بڑے زیادہ سے زیادہ تعداد میں ڈیمز تعمیر کیے جائیں۔ ان منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ اس سے ناصرف ملک بھر میں لاحق آبی قلت کا سنگین مسئلہ حل ہوسکے گا، بلکہ پانی کے ذریعے وافر اور سستی بجلی کی پیداوار بھی ممکن ہوسکے گی۔ ہوا اور شمسی توانائی سے بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کے منصوبے لگائے جائیں۔ یہ تمام منصوبے انسان دوست ماحول کے حامل ہیں۔ سستے ذرائع سے ہم ناصرف ملکی ضروریات کے مطابق بجلی کشید کرسکتے ہیں بلکہ اسے بیرونِ ملک فروخت کرکے بڑے پیمانے پر آمدن حاصل کرسکتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button