Columnمحمد مبشر انوار

ہزیمت

محمد مبشر انوار
ظلم ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے، انسانیت ہے کہ دم توڑتی جا رہی ہے، سسک رہی ہے، بلک رہی ہے لیکن تف ہے عالمی امن کے ٹھیکیداروں پر، خود ساختہ عالمی طاقت پر کہ جو انتہائی بے شرمی و ڈھٹائی کے ساتھ اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کے سامنے سر جھکائے کھڑی ہے۔ پنجہ یہود میں دنیا پھڑکتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور مجال ہے کہ اسرائیلی ریاست کی دہشت گردی کے خلاف متحرک ہو سکیں البتہ ان کی مجبوری و بے بسی و لاچاری کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ ایک ظالم ریاست کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے، اسے حق دفاع سب مظالم و جرائم معاف کئے بیٹھے ہیں۔ اقوام متحدہ تک اس ریاستی دہشت گردی کے سامنے بے بس نظر آتی ہے کہ امریکہ بہادر دو قراردادوں کو، جو روس اور چین کی طرف سے جنگ بندی کے لئے پیش کی گئی، ان کو ویٹو صرف اس لئے کر دیتا ہے کہ کہیں اس کی کمزوری عیاں نہ ہو جائے تاہم ایک دوسرے ملک کی جنگ بندی کی قرارداد پر خاموشی یا اجلاس سے باہر نکل کر، اس قرارداد کو منظور ہونے دیتا ہے۔ قرارداد منظور ہونے کے باوجود بھی، اسرائیلی ریاستی دہشتگردی کو روکنے کے کوئی ٹھوس اقدامات ہنوز سامنے نہیں آئے بلکہ غزہ کے شہریوں پر ظلم و ستم و بربریت مزید بڑھی ہے اور ویسٹ بنک میں بھی اسرائیلی فوج گھس کر فلسطینی شہریوں کا قتل عام کر رہی ہے، لیکن امن کا ٹھیکیدار خاموش ہے۔ 14ہزار سے زائد نہتے فلسطینی شہریوں کو بشمول نومولود و شیر خوار بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور مریضوں کا قتل عام کرنے والے اسرائیل کے خلاف کوئی فعال کردار ادا کرنے سے قاصر عالمی برادری قتل انسانیت میں برابر کی شریک دکھائی دیتی ہے جبکہ دنیا بھر میں عوام جس طرح اس ریاستی دہشت گردی کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہیں، اس کی مثال اس سے قبل بالخصوص فلسطین کے معاملے پر دکھائی نہیں دیتی ۔ اس کے باوجود حکومتیں ہنوز ٹال مٹول اور سستی سے کام لیتی دکھائی دیتی ہیں اور درپردہ ان کی یہ یہی خواہش نظر آتی ہے کہ اس وقت میں، جو عالمی طاقتوں کی باہمی کشمکش کے باعث اسرائیل کو میسر ہے، وہ اپنے اہداف بخوبی حاصل کر لے۔ اسرائیلی اہداف بھی اب کوئی ڈھکے چھپے نہیں رہے کہ معدنیات کے اس دور میں ہر ریاست کی ترقی کا انحصار معدنی ذخائر اور ان سے حاصل ہونے والی آمدن ہی ہے، اور بدقسمتی دیکھئے کہ فلسطین کی سرزمین پر قائم کی جانے والی جبری اسرائیلی ریاست کے حصہ میں یہ معدنی ذخائر موجود نہیں جبکہ اس کے اردگرد، عرب کے ریگزار، ان معدنی ذخائر سے مالامال ہیں۔ بدقسمتی کی حد تو یہ ہے کہ اسرائیل فلسطین کے بڑے حصے پر قابض ہونے کے باوجود، ان ذخائر سے محروم جبکہ غزہ کی چھوٹی سی پٹی اور اس متصل سمندری حدود میں قدرتی گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جن کے باقاعدہ حصول کی خاطر اسرائیل اس وقت اپنی پوری طاقت کے ساتھ بروئے کار ہی اور اس کی شدید خواہش ہے کہ کسی طرح غزہ کے شہریوں کو بے دخل یا ختم کر دے تا کہ ان ذخائر پر اس کا قبضہ ممکن ہو سکے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان معدنی ذخائر کو غیر قانونی طور پر اس وقت بھی اسرائیل نہ صرف حاصل کرر ہا ہے بلکہ ان کی تجارت سے کثیر آمدن بھی حاصل کر رہا ہے لیکن چونکہ اس کا یہ حصول غیر قانونی ہے اور کسی بھی وقت حالات پلٹ سکتے ہیں، اس لئے اسرائیل ہر صورت غزہ پر اپنا قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
حقیقتا تو اسرائیلی ریاست کا قیام، ایک مختصر سے علاقے میں کیا گیا تھا جبکہ بعد ازاں عالمی ٹھیکیداروں کی بے جا حمایت اور عرب مسلمانوں کی کمزور حربی صلاحیت نے اسرائیل کو اس قدر بے باک کر دیا کہ وہ ان مفتوحہ علاقوں سے دستبردار ہونے کے بجائے، مزید علاقوں کو اپنی ریاست کا حصہ بناتا رہا ہے۔ اس امر کا اظہار بارہا ہو چکا ہے کہ مسلمانوں کی حربی صلاحیتیں اس وقت اغیار کے تعاون پر منحصر نظر آتی ہیں، کہ جدید حربی ٹیکنالوجی اس وقت غیر مسلموں کے پاس ہے، جس سے وہ آن واحد میں دنیا کو نیست و نابود کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تاہم یہ امر واضح ہے کہ اس حربی صلاحیت کو یقینی طور پر اپنے دشمنوں پر ہی استعمال کر کے دشمن کو ہی تباہ کیا جاتا ہے۔ پوری دنیا کو تباہ کرنے سے چونکہ اپنی برادری و ممالک بھی ختم ہوجاتے ہیں لہذا دنیا پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے گھر کی دہلیز سے دور ہی دشمنوں کی صفوں میں اختلاف پیدا کرکے انہیں آپس میں لڑایا جائے اور ان کے وسائل سے اپنے ممالک کی ترقی و خوشحالی کو یقینی بنایا جائے، یہی اس وقت بھی عالمی نقشے پر ہو رہا ہے۔ تاہم ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں، کے مصداق عروج و زوال کی اس کہانی میں یہ امر بھی یقینی ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے اور لازوال ذات فقط اللہ رب العزت کی ذات ہے، جو اقوام و گروہوں میں دن پھیرنے پر قادر ہے، اس وقت دنیا ایک بار پھر دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور اللہ رب العزت نے امریکی طاقت کے مقابلے میں روس و چین کو کھڑا کر دیا ہے۔ امریکی اکلوتے ورلڈ آرڈر کی حیثیت اب باقی نہیں رہی اور دنیا امریکہ سے ہٹ کر دوسری طاقت کی طرف دیکھ بھی رہی ہے اور اسے عالمی معاملات و تنازعات میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے دیکھنا چاہتی ہے۔ چین کی پالیسی کا بغور جائزہ لیں تو یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ درپردہ کہیں نہ کہیں یہ خواہش واضح ہے کہ وہ دنیا میں اپنا کردار بخوبی ادا کرنے کے لئے نہ صرف پر تول رہا ہے بلکہ دوسری طاقتوں کی طرح اس کا مطمع نظر بھی دنیا کی حکمرانی ہی نظر آتا ہے البتہ چین کا طریقہ کار دیگر عالمی طاقتوں کی نسبت مختلف اس لئے ہے کہ چین اپنا اثر و رسوخ معاشی حیثیت سے بڑھا رہا ہے ۔ دیگر اقوام پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت واضح نظر آتی ہے کہ دیگر اقوام کا اقوام عالم پر حکمرانی کا خواب بزور شمشیر روبہ کار آیا تھا جبکہ چین قدم بہ قدم، موجودہ دور کی نبض پر ہاتھ رکھ کر مستقل مزاجی سے آگے بڑھ رہا ہے، حربی صلاحیت کے میدان میں بھی چین مسلسل آگے پیش قدمی کر رہا ہے تاہم چین کی حربی صلاحیت کا اظہار تاحال کسی میدان میں سامنے نہیں آیا۔
اس پس منظر میں مسلم ممالک، جو معدنی وسائل سے مالا مال ہیں لیکن ان کے وسائل بہرطور کسی نہ کسی حوالے سے غیرمسلموں کے تصرف میں ہی نظر آتے ہیں ماسوائے اتنے کہ وہ اپنے ان وسائل سے آسائش بھری زندگی گزارتے رہیں، اور ان آسائشوں کے لئے یہ ریاستیں اور ان کے عوام بہرطور غیر مسلم ممالک پر انحصار کرتے رہیں۔ عرب لیگ ہو یا او آئی سی، ان میں اتنی طاقت ابھی تک نہیں آئی کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام پر، صیہونی بربریت کے خلاف میدان میں برسر پیکار آ سکیں اور ان تنظیموں کے اعلامیوں پر امریکہ و دیگر مغربی اقوام کان دھرنے کے لئے قطعی تیار نظر نہیں آتی لہذا مسلم ممالک کے وزراء خارجہ کا ایک مشترکہ وفد اپنی فریاد لے کر چین جا پہنچا کہ کہ کسی طرح اسرائیلی درندوں کے مظالم کو روکا جائے۔ مرگ مفاجات کی اس سے بڑی تصویر اور کیا ہو سکتی ہے کہ جب قرآن اور حدیث میں احکامات واضح دئیے جا چکے ہیں کہ اپنے گھوڑوں کو ہر وقت ظلم کے خلاف تیار رکھو، مسلمان اس فرض اولین سے غافل ہو چکے اور ایک وقت تھا کہ جب غیر مسلموں کے وفود مسلم حکمرانوں کے پاس ظالموں کی ایسی شکایات لے کر داد رسی کے لئے حاضر ہوتے رہے اور مسلمان ان کو ظالموں کے ظلم سے بچاتے رہے۔ افسوس تو اس امر کا ہے کہ وزرائے خارجہ کا یہ وفد فوری جنگ بندی کی فریاد لے کر چین کے پاس پہنچا ہے، دو ریاستی فارمولا ترجیح میں دوسرے نمبر پر ہے کہ اس وقت حقیقتا فوری طور پر اس قتل عام کو رکوانا ہی ضروری ہے۔ مسلم ریاستوں کے لئے اس سے زیادہ ہزیمت اور کیا ہو گی کہ اپنے مسلم بہن بھائیوں کو شہید ہوتے دیکھ رہے ہیں، ان پر ظلم و بربریت دیکھ رہے ہیں، ان کی محدود تعداد و وسائل سے بھی باخبر ہیں لیکن ایسے ہاتھ بندھے ہیں کہ بڑھ کر نہ تو ظالم کا ہاتھ روک سکتے ہیں اور نہ ہی جسم واحد کے ایک عضو کو تکلیف سے نکال سکتے ہیں۔ شنید ہے کہ اپنے مالی معاملات کو سیدھا کرنے کے لئے، آقائوں کے احکامات پر، غیر مسلم ریاست کو میدان جنگ میں اسلحہ تو پہنچایا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے اپنے مسلم بھائیوں کی نسل کشی پر مجبور نظر آتے ہیں، دوسری طرف اسرائیل اپنے تمام تر وسائل اور عالمی حمایت کے باوجود، غزہ کو زمین بوس کرنے کے باوجود، ویسٹ بنک میں اپنی جھلاہٹ کا اظہار کرنے کے باوجود، نہ اپنے یرغمالی رہا کروا پایا اور نہ ہی ان کا سراغ اسے مل سکا ہے، نہ ہی مجبور و بے کس و لاچار غزہ کو فتح کر پایا ہے، ایسی شکست بھی کسی ہزیمت سے کم تو نہیں!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button