ColumnImtiaz Aasi

وفا داریاں کیا مستحکم حکومت بن سکے گی؟

امتیاز عاصی
انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی سیاسی وفاداریوں کے بدلنے کے موسم کا آغاز ہو گیا ہے۔ ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے سیاست دانوں نے موسمی پرندوں کی طرح ٹھکانے بدلنے شروع کر دیئے ہیں۔ جوڑ توڑ کا سلسلہ گزشتہ پچاس سالوں سے جاری ہے جس کے نتیجہ میں کوئی مستحکم حکومت اقتدار میں نہیں آسکی ہے۔ ماضی میں جائیں تو ایم کیو ایم نے ہمیشہ طاقت ور حلقوں کی خواہش پر نوازشریف کا ساتھ دیا۔ عوام کو آزادی سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع نہ دینے سے انتخابات محض ایک ڈھونگ بن چکے ہیں۔ چاروں صوبوں میں سب سے زیادہ وفاداریاں صوبہ بلوچستان میں بدل رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وہ لوگ جو ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے دیرینہ ساتھی تھے پارٹی کی طرف سے قدر و منزلت نہ ہونے سے مایوسی کا شکار ہیں۔ سردار فتح محمد حسنی، میر باز خان کھتیران اور میر صادق عمرانی جیسے لوگ بلوچستان میں ضروری تھے۔ بی بی شہید تک ان لوگوں کو پارٹی کے لئے خدمات کے اعتراف میں پارٹی عہدوں کے ساتھ حکومتی عہدے دیئے گئے۔ درحقیقت پیپلز پارٹی نے جب سے پارٹی کے دیرینہ کارکنوں کو نظرانداز کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے پارٹی کے نظریاتی کارکن مایوس ہو کر وفاداریاں بدل رہے ہیں۔ بعض ایسے لوگ جن کی سیاسی طور پر پارٹی کے لئے کوئی خدمات نہیں تھیں، محض مال و دولت کے بل بوتے پر انہیں پارٹی عہدوں سے نوازنے کا سلسلہ شروع ہو چکا۔ پارٹی کے وہ کارکن جنہوں نے فوجی دور میں کوڑوں کے سزائوں کے ساتھ جیلیں دیکھیں یکسر نظر انداز ہونے سے بددلی کا شکار ہیں۔ بلوچستان میں سرداری نظام کے آثار کچھ نہ کچھ ابھی باقی رہنے کے باوجود وہاں کے لوگ خاصے باشعور ہو چکے ہیں وہ اپنے فائدے اور نقصان کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں بلوچستان عوامی پارٹی ( بی اے پی) کے نام سے ایک نئی جماعت وجود میں آئی جس نے صوبے کے معاملات سنبھال لئے۔ مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف بلوچستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ واحد بلوچستان ہے جہاں کے سیاسی رہنمائوں کی خاصی تعداد نے موسم بدلنے کے ساتھ نقل مکانی شروع کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے وہ لوگ جو سمگلنگ کے کاروبار سے وابستہ ہیں انہی پیسوں سے سندھ میں کئی ایک پٹرول پمپ لگا رکھے ہیں۔ میر باز کھتیران اور میر صادق عمرانی جیسے نظریاتی کارکن سائیڈ لائن کئے ہوئے ہیں۔ اگرچہ بی بی شہید کے دور میں میر باز کھتیران وفاقی وزیر ان کے چھوٹے بھائی میر شاہ جہان کھیتران کو سیاحت کی وزارت میں اعلی عہدہ دیا گیا۔ پارٹی کی تنظیم نو کی ذمہ داری ان کے ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور کے پاس ہے۔ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں بھٹو دور میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہ چکی ہے ۔ صوبے میں پارٹی کو مضبوط کرنے کے لئے نظریاتی کارکنوں کی خدمات سے بھرپور استفادہ کرنے کی ضرورت تھی نہ کہ ایسے کارکن جو نصف صدی سے پارٹی کے ساتھ چل رہے تھے انہیں نظر انداز کر دیا جاتا۔ اس میں شک نہیں ہماری سیاست کا مرکز و محور ملک اور عوام کی خدمت کی بجائے ذاتی مفادات سے جڑا ہے۔ مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف کو دیکھ لیں تین مرتبہ وزیراعظم رہنے کے باوجود اقتدار کا حصول ان کی منزل ہے۔ پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈائون سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا نواز شریف کو وزارت عظمیٰ پر فائز کرنے کے لئے ابتدائی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ بس الیکشن کا بگل بجنے کی دیر ہے۔ جب سے ہماری سیاست میں روپے پیسے کا عمل دخل شروع ہوا ہے سیاست دانوں کے لئے سیاست بڑا ذریعہ آمدن بن چکا ہے۔ کوئی پارٹی کے لئے عطیات دیتا ہے تو وزارت ملنے کے بعد اس کا مالی خسارہ پورا ہو جاتا ہے۔ گویا اس لحاظ سے ہماری سیاست غیر نفع بخش نہیں ہے۔ ہماری کل آبادی کا دس کروڑ نوجوان نسل پر مشتمل ہے جن کی عمریں 35سال سے کم ہیں ان کی اکثریت پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے ساتھ ہے۔ ہم یہ بات دعویٰ سے کہتے ہیں آج کی نوجوان نسل نواز شریف کو ووٹ نہیں دے گی ۔ اگر کسی کو شک و شبہ ہے تو الیکشن میں اس کا پتہ چل جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری کو بلوچستان جیسے صوبے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جہاں آج بھی پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک موجود ہے۔ پیپلز پارٹی کے قائد کو بلوچ ہونے کے ناطے یہ اعزاز حاصل ہے بلوچ قوم کے لوگ پیپلز پارٹی کو ضرور
ووٹ دیتے ہیں۔ نواز شریف نے ایسے ہی بلوچستان کا دورہ نہیں کیا وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں پنجاب اور دیگر صوبوں میں مسلم لیگ نون کیلئے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو شکست دینا اتنا آسان نہیں ہوگا لہذا انہیں وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کے لئے کچھ نہ کچھ محنت تو کرنا ہوگی۔ اگرچہ مسلم لیگ نون کے عطاء تارڑ ایک بیان میں کہہ چکے ہیں بات ہو چکی ہے وزیراعظم نواز شریف ہوں گے۔ عطاء تارڑ کے اس بیان کے بعد عوام کو کسی شک میں نہیں رہنا چاہیے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کا پروگرام بن چکا ہے۔ شنید ہے الیکشن کمیشن نے رٹیرننگ افسران اور دیگر انتخابی عملہ محکمہ ریونیو سے لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینے کی صورت میں انہیں دبائو میں لانا آسان نہیں ہوگا جب کہ ریونیو کے محکمہ سے لئے جانے والے تحصیل داروں، پٹواریوں اور گرداواروں کو آسانی سے دبائو میں لایا جا سکتا ہے۔ اس وقت دنیا کی نظریں پاکستان کے آنے والے انتخابات پر ہیں۔ شفاف انتخابات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جھرلو پروگرام کے تحت کوئی حکومت اقتدار میں آئی تو کرپشن اور جھوٹے وعدوں سے تنگ عوام ایسی حکومت کو مسترد کر دیں گے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات میں غیر ملکی مبصروں کو دعوت دے کر احسن اقدام کیا ہے تاہم اس مقصد کے لئے پولنگ اسٹیشنوں تک رسائی دینا بہت ضروری ہے ورنہ الیکشن کا انعقاد مشکوک ہو سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے قائد آصف علی زرداری نے الیکشن کمیشن پر اعتماد کا اظہار کرکے اچھا کیا ہے ۔ کسی ادارے پر قبل از وقت دھاندلی کا الزام لگانا اچھی بات نہیں۔ پی ٹی آئی کو بھی الیکشن کمیشن پر اعتماد ظاہر کرنا چاہیے چیف الیکشن کمیشن کی تقرری سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں ہوئی۔ چنانچہ اگر وہ الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد ظاہر کرتے ہیں اپنے منتخب کردہ چیف الیکشن کمیشن کو مسترد کرنے کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ عمران خان کو چیف الیکشن کمیشن کی سفارش خواہ کسی نے کی ہو ان کی تقرری کے ذمہ دار تو وہی ہیں لہذا اب ان پر کسی قسم کا شبہ ظاہر کرنا ان کے اپنے انتخاب پر حرف آئے گا۔ گزشتہ انتخابات کی طرف وفاداریاں بدلنے کی روایت برقرار رہی تو آنے والی حکومت پانچ سال پورے نہیں کر سکے گی اس کا حشر بھی پی ٹی آئی جیسا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button