چمن: حکومت اور مظاہرین کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار، پاک افغان شاہراہ تجارت کے لیے بند

بلوچستان کے افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن میں دھرنا کمیٹی اور حکومت بلوچستان کے حکام کے درمیان مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کے باعث دھرنا کمیٹی نے کوئٹہ اور چمن کے درمیان شاہراہ کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان مال بردار گاڑیوں کی آمدورفت کے لیے کھولنے سے انکار کیا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اتوار کے روز وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو کی قیادت میں دھرنا کمیٹی کے شرکاء سے مذاکرات کے لیے ایک وفد چمن بھیج دیا تھا جس میں چمن سے تعلق رکھنے والے بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر عبدالخالق اچکزئی بھی شامل تھے۔
سرکاری سطح پر رات گئے تک مذاکرات کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا تاہم رابطہ کرنے پر دھرنا کمیٹی کے ترجمان صادق اچکزئی نے بتایا کہ حکومتی وفد کے دھرنا کمیٹی سے مذاکرات کے دو دور ہوئے ۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتی وفد کی جانب سے یہ کہا گیا کہ کوئٹہ اور چمن کے درمیان شاہراہ کو پہلے مال بردار گاڑیوں کے کھولا جائے لیکن دھرنا کمیٹی نے اس کے لیے یہ شرط رکھ دی کہ حکومت سب سے پہلے چمن سے افغانستان کے لیے لوگوں کی آمدورفت کے لیے پاسپورٹ کی شرط کے خاتمے اور پہلے کی طرح قومی شناختی کارڈ کے ذریعے اسے بحال کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتی وفد کی جانب سے اس سلسلے میں آمادگی ظاہر نہ کرنے کے باعث مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے پر سرکاری وفد واپس کوئٹہ چلاگیا تاہم یہ بتایا گیا کہ دو تین روز میں وزیر اعلیٰ بلوچستان چمن آئیں گے۔
خیال رہے کہ چمن سے افغانستان کے درمیان آمدورفت کے لیے حکومت پاکستان کی جانب سے پاسپورٹ کی شرط کے خلاف چمن شہر میں گذشتہ سال اکتوبر سے ایک احتجاجی دھرنا جاری ہے۔
تاہم چار مئی کو چمن شہر میں ایف سی ہیڈکوارٹر کے سامنے احتجاج کرنے والے مظاہرین پر فائرنگ سے مظاہرین میں سے دو کی ہلاکت اور متعدد افراد کے زخمی ہونے کے بعد دھرنے کے شرکاء کی جانب سے نہ صرف چمن میں وفاقی حکومت کے متعدد دفاتر کو تالا لگا دیا گیا بلکہ کوئٹہ اور چمن کے درمیان شاہراہ کو مال بردار گاڑیوں کی آمدورفت کے لیے بند کیا ہے۔ مال بردار گاڑیوں کے لیے شاہراہ کی بندش سے چمن سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت معطل ہوگئی ہے۔