Ali HassanColumn

بے ساکھیوں کے سہارے جینا بھی کیا جینا

علی حسن
ن لیگ کے پارٹی قائد نوازشریف نے ایک روزہ ہوائی دورے پر بلوچستان کیا پہنچے کہ ان کا تھیلا ہی بھر گیا۔ اپنی چار سالہ خود ساختہ جلا وطنی کے بعد وہ ۲۱ اکتوبر کو لاہور پہنچے تھے ۔ اس کے بعد یہ ان کا پنجاب کے باہر کسی علاقہ کا پہلا دورہ تھا۔ اس دورے میں انہوں نے سیاسی تیتروں اور بٹیروں کا شکار کیا۔ جو صوبائی سیاسی رہنماء ’ شکار‘ کئے گئے ان میں سابق وزیراعلی بلوچستان جام کمال، سابق رکن اسمبلی سلیم کھوسہ، نور محمد دمڑ، ربابہ بلیدی، سابق وزیر سردار عبدالرحمان کیتھران، محمد خان لہڑی، سردار مسعود لونی، سردار فتح محمد حسنی، مجیب الرحمن محمد حسنی، میر عاصم کرد، میر دوستین ڈومکی، شعیب نوشیروانی سمیت بلوچستان عوامی پارٹی، بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی 30سے زائد اہم شخصیات شامل ہیں۔ ان لوگوں نے ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا ۔ کوئٹہ کے مہنگے ترین سیرینا ہوٹل میں محفل منعقد کی گئی تھی جہاں سیکورٹی کے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے۔ سیرینا اہم شخصیات کے قیام کا ٹھکانہ ہوتا ہے اسی لئے سکیورٹی سخت ہوتی ہے اتنی سخت کہ پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ہے۔ ویسے بھی بلوچستان کی موجودہ صورت حال میں غیر بلوچی خصوصا پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی حفاظت کا خاص خیال خود ہی رکھنا پڑتا ہے۔
مسلم لیگ ( ن) کے قائد کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کا وفد شمولیتی پروگرام کے حوالے سے منگل کے روز کوئٹہ پہنچا تھا جہاں اْن سے سابق وزیراعلیٰ ، وزراء ، سابق اراکین اسمبلی سمیت درجنوں اہم سیاسی شخصیات نے ملاقاتیں کیں۔بعد ازاں سابق وزیر خان محمد جمالی، فائق جمالی، غفور لہڑی، شعیب نوشیروانی، ذین مگسی، محمد خان ، شیر گل خلجی، حاجی برکت رند، شوکت بنگلزئی، عطااللہ، میر انور شاہوانی، سردار علی حیدر ایم حسنی، جعفر کریم بنگار، سردار زادہ ادریس تاج، آغا فیصل احمد زئی، ملک شہریار، رامین ایم حسنی اور حاجی نور اللہ لہڑی، سعید الحسن عاطف سنجرانی ڈاکٹر اشوک کمار، ڈاکٹر محمد ایوب بلوچ، میر اسماعیل بلوچ، میر طارق بگٹی، بسنت لال گلشن، محمد کاشف، مصلح الدین مینگل، دائود شاہوانی، سردار نعمت اللہ تمرانی بزنجو، سردار زادہ میر اخلاق کدرانی، سردار زادہ عالم خان تمرانی بزنجو ودیگر بھی مسلم لیگ ( ن) کا حصہ بن گئے۔ نوازشریف کی کوئٹہ میں باپ، نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے قائدین سے ملاقاتیں ہوئیں۔ جس میں شہباز شریف، مریم نواز، پرویز رشید اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سمیت دیگر شخصیات موجود تھیں۔
جس طرح پاکستانی سیاستدانوں کے دل ہر وقت اقتدار کے لئے مچلتے رہتے ہیں اسی طرح بلوچستان کی سیاسی شخصیات کا طویل عرصہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ ’ اڑنے‘ کے لئے بے قرار رہتے ہیں۔ جب انہیں ان کا من پسند ٹھکانہ نظر آجاتا ہے تو وہ وہاں بیٹھ جاتے ہیں۔ تیز رفتاری کے ساتھ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں سے یہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہے کہ بلوچستان میں جس قسم کی جس انداز میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی پائی جاتی ہے اسے ختم کرانے کے لئے وہ لوگ اپنا کردار کیوں نہیں ادا کرتے ہیں۔ جب دیکھو دہشت گردی کی لہر ابھرتی ہے ، اور عسکریت پسند دہشت گرد ی کا کھلے عام مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ دہشت گرد کیوں نہیں پکڑے جاتے ہیں۔ انہیں کن لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے ؟ ان عناصر کی کھل کر نشان دہی کیوں نہیں ہو پاتی ہے۔ کیا سیکورٹی فورس کے جوانوں کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی جانیں قربان کریں۔
شمولیت کے اس خصوصی پروگرام کے بارے میں پیپلز پارٹی اور بعض دیگر اہم سیاسی شخصیات نے سخت رد عمل کا اظہار کیا۔ ممتاز وکیل اور سیاست داں لطیف کھوسہ نے نہایت ترش لہجے میں کہا ’ یہ بندر بانٹ ہے۔ کیوں مذاق کرتے ہو ۔ کیوں الیکشن کروا رہے ہو، جب تم ایک معاہدہ کر کے آئے ہو کسی کو چوتھی بار وزیر آعظم ہے تو فرمان جاری کر دو۔ کیوں عوام کو پاگل بنا رہے ہو۔ کیوں ڈھونگ رچا رہے ہو، کیوں اربوں کھربوں روپیہ اس قوم کا خرچ کرا رہے ہو۔ جب ڈیل کر کے آئے ہو کہ پنجاب کس کو دینا ہے، بلوچستان اس کو دینا ہے، خیبر پختونخوا کس کو دینا ہے، بس دے دو، اپنی چودھراہٹ قائم دائم رکھو‘۔ بلوچستان کے ایک سابق وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری نے بھی رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ انہوں نے ن لیگ کو اصولوں پر چھوڑا تھا۔ میرے ساتھ ان کا رویہ غیر انسانی اور غیر اخلاقی تھا‘۔ ایک چینل نے تو ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز کی ماضی کی گفتگو پر مبنی ایک کلپ بھی سنوائی ہے ۔ وہ کہہ رہی تھیں ۔ ’ یہ لوگ یہ سمجھتی ہیں کہ بلوچستان کے عوام کو اپنے نمائندے چننے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ان کے وزیر اعلیٰ اور وزراء کا فیصلہ بلوچستان کے عوام نہیں، کوئی اور کرے گا۔ راتوں رات باپ اور ماں کے نام سے ایک پارٹی بنتی ہے وہ ایک بچے کو جنم دیتی ہے، اگلے دن وہ ہی بچہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا جاتا ہے‘۔ بلوچستان وہی صوبہ ہے جہاں سے 2013کی حکومت کے قلعے سے پہلی اینٹ نکالی گئی تھی۔ اسٹبلشمنٹ کے اشارے پر مارچ 2018میں مسلم لیگ نون اور مسلم لیگ قاف کے متعدد ارکان اسمبلی نے اپنی پارٹیوں سے بغاوت کرکے صوبے سے نون لیگی حکومت کا خاتمہ کیا اور بلوچستان عوامی پارٹی ( باپ) بنا کر اس کی حکومت تشکیل دی۔ نون لیگ کی اس صوبائی حکومت کے خاتمے میں سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی اسٹبلشمنٹ کی بھرپور معاونت کی۔ میاں نوازشریف کی حکومت نے آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو کئی مقدمات میں الجھا رکھا تھا۔ آصف زرداری نے بلوچستان حکومت کے خاتمے میں کردار ادا کرکے اپنے طور پر سکور سیٹل کیا۔ جب آصف زرداری کی توقعات کے برعکس بغاوت کرنے والوں نے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی بجائے ’ باپ‘ پارٹی بنالی تو پیپلز پارٹی کی قیادت کو سمجھ میں آیا کہ وہ تو استعمال ہو گئے ۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ ملک کے ساتھ 70 سال سے کھیلے جانے والے کھیل کو کہیں نہ کہیں ہمیں فل سٹاپ لگانا پڑے گا۔ ایبٹ آباد میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے خیبر پختونخوا کو شناخت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پرانے سیاستدانوں کو گھر بٹھانا ہوگا کہ آپ ذرا آرام کریں۔ آپس کی دشمنیاں ایسی ہی چلنی ہیں تو عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لاڈلا اگر بننا ہے تو عوام کا لاڈلا بننا ہے۔ پرانی سیاست جس نے 2018ء میں ملک کو تباہ کیا وہ ہی سیاست دوبارہ قبول نہیں کریں گے۔ پاکستان اور اس کی ترقی کا سب سے بڑا دشمن وہی پرانی سیاست ہے۔ ہم نے کب تک پرانی چیزیں پھر سے دہرانی ہیں؟ پیپلز پارٹی سندھ کے صدر سینیٹر نثار کھوڑو نے تبصرہ کیا ہے کہ بلوچستان میں لوگوں کو مختلف جماعتوں کے سیاسی لوگوں کو توڑ کر ن لیگ کے ساتھ ملایا جا رہا ہے جو عمل کسی کے اشارے پر ہونا ظاہر کرتا ہے۔ اس تماش گاہ میں سیاست دان دیکھ چکے ہیں کہ ہانک کر لائے جانے والے نام نہاد سیاسی لوگ کسی کے کام نہیں آئے۔ ان لوگوں نے نواز شریف کو دھوکہ دیا۔ آصف زرداری کو دھوکہ دیا۔ عمران خان کے ہاتھوں سے جس انداز میں اڑے ہیں، وہ حیران کن اور افسوس ناک تھا۔ اب پھر نواز شریف اپنے دل میں چوتھی بار وزیر اعظم مقرر ہونے کی مچلنے والی خواہش کو اس ملک کے مستقبل کی خاطر دبا دیں۔ ان سیاست دانوں کو جو ماضی میں اقتدار میں رہ چکے ہیں، اپنی خواہشات پر اقتدار میں بار بار آنے کے حوالے سے قابو پانا چاہئے تاکہ یہ ملک صحیح ملک بن سکے۔ وگرنہ یہ ملک جمہوریت کی ایسی گاڑی پر چل رہا ہو گا جس کا عوام کے حق میں کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button