ColumnImtiaz Aasi

انتقامی سیاست

امتیاز عاصی
پاکستانی سیاست انتقام سے بھری پڑی ہے سیاسی حکومتیں اقتدار میں آنے کے بعد ملک کی ترقی کی بجائے پہلے مرحلے کے طور پر سیاسی مخالفین کو کنارے لگانے کے اقدامات کرتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سے عمران خان کے دور کی جمہوری حکومتوں پر نظر ڈالیں تو ہر جماعت سیاسی انتقام سے آلودہ ہے۔ ستم ظرفی تو یہ ہے ایک دوسرے کے خلاف بے بنیاد مقدمات قائم کرنے کے باوجود مفادات کی بات ہو تو وہی جماعتیں ایک دوسرے کی ہمنوا بن جاتی ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لانے میں جو سیاست دان پیش پیش تھے وہی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں آگے ہیں۔ سانحہ نو مئی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی قانونی ضرورت تھی بلکہ انہیں قرار واقعی سزائیں دینے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے تھی۔ کئی ماہ گزرنے کے باوجود سانحہ میں ملوث لوگوں کے خلاف چالان عدالتوں میں پیش نہ کئے جانا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ عمران خان کے ساتھ وفاداری کا دم بھرنے والوں کی اکثریت نے نئے آشیانے تلاش کر لئے ہیں۔ ہمیں یہ خبر پڑھ کر حیرت ہوئی اٹک سے قومی اسمبلی کے سابق رکن سردار طاہر صادق کو سانحہ نو مئی میں ملوث کر لیا گیا ہی۔ سردار طاہر صادق چودھری شجاعت حسین کی حقیقی ہمشیرہ کے شوہر ہیں۔ ضلع اٹک کی کھڑ فیملی سے تعلق رکھنے والے میجر ( ر) طاہر صادق سے ہماری کوئی شناسائی نہیں۔ خبر کے مطابق طاہر صادق نو مئی کو عمرہ کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب میں تھے۔ اٹک میں طاہر صادق اور ن لیگ کے شیخ آفتاب کے درمیان قومی اسمبلی کے الیکشن میں کانٹے دار مقابلہ ہوتا ہے۔ عجیب تماشا ہے طاہر صادق کو پولیس نے سانحہ نو مئی میں تتمہ بیان میں رکھتے ہوئے ملوث کر لیا ہے۔ قانون کی نظر میں تتمہ بیانsupplementary statement ایک بہت کمزور شہادت تصور کی جاتی ہے جس سے عام طور پر ملزمان کی مقدمات سے بریت یقینی ہوتی ہے۔ مروجہ طریقہ کار کے مطابق تتمہ بیان دینے والے کا موقف ہوتا ہے ابتدائی رپورٹ لکھواتے وقت اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی یا وہ کوئی بات بھول گیا تھا۔ گویا اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ابتدائی رپورٹ درج کرانے والے کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی تو اس نے ایف آئی آر بھی غلط درج کرائی ہوگی لہذا اس کی طرف سے لکھوائی جانے والی ابتدائی رپورٹ کی قانونی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے۔ پولیس تتمہ بیان درج کرتے وقت ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161کے تحت مدعی فریق کا تتمہ بیان ریکارڈ کرتی ہے۔ طاہر صادق کے وکیل نے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں رٹ پٹشن دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے اس کا موکل ملک میں موجود نہیں تھا بلکہ سعودی عرب میں عمرہ کی ادائیگی کے لئے گیا ہوا تھا لہذا اس کے موکل کو آنے والے الیکشن سے باہر رکھنے کے لئے نو مئی کے مقدمہ میں ملوث کیا گیا ہے۔ خبر کے مطابق متعلقہ آفس نے رٹ پٹیشن پر کوئی اعتراض لگایا لیکن عدالت کے جج جناب چودھری عبدالعزیز نے رٹ کو سماعت کے لئے لگانے کا حکم دیا۔ گویا یہ سب کچھ حکومتی دبائو کا نتیجہ ہے کہ کسی طریقہ سے نون لیگ کی انتخابات میں جیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ ہمیں تو حیرت ہے اپنی پولیس پر جنہیں نہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہے اور نہ قانون کی کوئی پروا ہے بلکہ اپنی نوکری کو پکا رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ یہ تو ایک واقعہ ہے نہ جانے اس طرح کے کئی ایسے واقعات ہوں گے جن میں لوگوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہوگا۔ تعجب ہے پولیس افسران یہ جانتے ہوئے ان کے ایسے غیر قانونی اقدامات سے ملزمان عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں اس کے باوجود وہ بڑوں کو خوش کرنے کی خاطر غیر قانونی اقدامات کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ بات درست ہے جن لوگوں نے نو مئی کو ملک کی خاطر جانیں دینے والے شہدا کی یادگاروں اور سرکاری تنصیبات کو نقصان پہنچایا ہے وہ کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں البتہ سانحہ کی آڑ لیتے ہوئے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے۔ باوجود اس کے سیاست دان یہ سمجھتے ہوئے آج وہ کسی کے خلاف غیر قانونی اقدامات کریںگے۔ حقیقت یہ ہے سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد ملک وقوم کی ترقی کی طرف توجہ دیتی آج ہمارے ملک کا یہ حال نہیں ہوتا۔ ہم ماضی کی طرف لوٹیں تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے ایک دوسرے کے خلاف مقدمات قائم کئے جن کا فیصلہ برسوں نہیں ہو سکا۔ عمران خان نے احتساب کا نعرہ لگا کر عوام کو اپنی طرف متوجہ کیا وہ اپنے احتسابی نعرے کو عملی جامہ پہننانے میں بری طرح ناکام رہے۔ گو اقتدار سے علیحدگی کے بعد ان کا کہنا تھا انہیں جنرل باجوہ نے احتساب سے روکا تھا۔ عمران خان کو چاہیے تھا وہ اس بات سے قوم کو بروقت آگاہ کرتے ۔ عمران خان کا یہ کہنا ہے ان کے دور میں شریف خاندان کے خلاف صرف منی لانڈرنگ کا مقدمہ قائم ہوا۔ چلیں مان لیا شریف خاندان کے خلاف ایک ہی مقدمہ درج ہوا تو اس میں عمران خان کی حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ جو وزیراعظم اقتدار میں رہنے کے باوجود وہ شہباز شریف کے خلاف فرد جرم لگوانے میں ناکام رہا ہو اس سے عوام کسی قسم کی توقعات رکھ سکتے ہیں؟ سیاست دانوں کو اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ جب تک سیاسی جماعتیں انتقامی سیاست سے کنارہ کش نہیں ہوں گی ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکے گا۔ اگرچہ عمران خان نے کرپشن کے خلاف جس بیانئے کے بل بوتے پر عوام سے ووٹ لئے اس میں وہ بری طرح ناکام رہا ہے البتہ اس نے عوام کو کرپشن سے بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادیں بنانے والوں سے عوام کو شناسا ضرور کرایا ہے۔ دراصل عمران خان نے عوام کو شعور اور کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کے خلاف بیدار کیا ہے جس کے آنے والے انتخابات میں گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ تاسف ہے ایک طرف نگران حکومت اور الیکشن کمیشن منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے بڑے دعویٰ کرتے ہیں دوسری طرف سیاسی رہنمائوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کا عمل بھی جاری ہے جس سے الیکشن کی شفافیت مشکوک ہو سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button