Editorial

گیس کی قیمت میں مزید اضافے کا عندیہ

عوام کے لیے بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے دِکھائی دے رہے ہیں۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ یکم نومبر سے ملک بھر میں گیس کی قیمتوں میں بہت بڑا اضافہ کیا گیا ہے۔ قوم اس پر پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے۔ اس فیصلے کے خلاف مختلف حلقوں کی جانب سے آوازیں بھی اُٹھی ہیں۔ اب جو ماہ نومبر کے گیس کے بل آئیں گے، وہ کافی زیادہ ہوں گے، جن کی ادائیگی غریب طبقے کے افراد کے لیے چنداں آسان نہیں ہوگی۔ عالمی ادارے کی شرائط پر پہلے ہی پچھلے مہینوں بجلی کے نرخوں میں کافی بڑا اضافہ کیا گیا تھا۔ بجلی قیمتوں میں اضافے کے خلاف پورے ملک میں ڈیڑھ دو ہفتے تک شدید احتجاج دیکھنے میں آئے۔ تمام شہروں میں احتجاج کے سلسلے دراز رہے۔ دھرنے دئیے گئے۔ تاجر برادری بھی ان احتجاجوں میں پیش پیش تھی۔ ملک کے بعض حصّوں میں لوگوں نے بطور احتجاج بل جلائے اور بل ادا نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ کوئی ریلیف نہ مل سکا۔ احتجاج کے سلسلے بھی متروک ہوگئے۔ قوم پچھلے 5، 6سال سے بدترین مہنگائی سے جوج رہی ہے۔ معیشت کی صورت حال بھی ناگفتہ بہ ہے۔ ملک ایک موقع پر ڈیفالٹ کے دہانے پر جاپہنچا تھا۔ نگراں حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی مشکل فیصلے کرنے پڑرہے ہیں۔ ڈالر کے نرخ مسلسل ہوش رُبا حد تک بڑھ رہے ہیں اور وہ تین گنا سے زائد پہنچ چکے تھے، نگراں حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں اُن میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے، ڈالر کی قدر زائد ہونے کے باعث اشیاء ضروریہ کے دام بھی تین، چار گنا زیادہ ہوچکے ہیں۔ الیکٹرونکس آئٹمز، موٹر سائیکلیں، کاریں اور گاڑیاں بھی تین گنا مہنگی ہوچکی ہیں۔ گویا مہنگائی کا تناسب تین گنا زائد ہوچکا ہے۔ یہی فارمولا بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر بھی رائج ہے۔ ان کے دام بھی مسلسل بڑھتے رہے ہیں، تاہم غریب طبقے کی آمدن وہی ہے، جس میں ان کا گزارا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ اُنہیں روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے بے پناہ کوششیں کرنی پڑرہی ہیں، پھر بھی وہ آسودہ حالی سے کوسوں دُور ہیں۔ مسائل در مسائل کی جونکیں اُن کے گھروں سے چمٹے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اگر مزید مہنگائی کے جھکڑ چلنے لگیں تو غریب کہاں جائیں گے۔ کس سے درد کے مداوے کی اُمید رکھیں گے۔ اُن کے لیے ہر نیا دن کسی امتحان سے کم نہیں۔ اب دو ماہ بعد پھر سے گیس کے نرخوں میں اضافہ کرنے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ حکومت نے جنوری 2024سے گیس کی قیمتیں پھر بڑھانے کا فیصلہ کرلیا۔ نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو جنوری 2024سے گیس کی قیمتیں پھر بڑھانا ہوں گی تاکہ گردشی قرض میں اضافہ نہ ہو۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ ہوگیا ہے اور امید ہے آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ بھی جلد منظوری دے دے گا۔ مالی استحکام کے لیے ترقیاتی کاموں کو روکا نہیں جائے گا، حکومتی اخراجات میں کمی کی جائے گی، محصولات کو بڑھایا جائے گا، ترقیاتی کاموں کے لیے پبلک انویسمنٹ پلان شروع کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کو توانائی شعبے کے ٹیرف پر نظرثانی سے آگاہ کردیا گیا ہے، رئیل اسٹیٹ اور ریٹیلرز سمیت مختلف شعبوں پر اضافی ٹیکس لگانے کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ایف بی آر کے 9415ارب روپے کے ٹیکس ہدف کا حصول پہلی ترجیح ہے، اگر ٹیکس محاصل میں کوئی شارٹ فال ہوا تو پھر اضافی اقدامات کا سوچیں گے، حکومت نے 1.5ارب ڈالر کا انٹرنیشنل بانڈ کے اجرا کا فیصلہ موخر کردیا ہے۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد ریٹنگ میں بہتری آئے گی، اس کے بعد بانڈ جاری کرنے پر غور کیا جائے گا، اس سال عالمی بینک سے 2ارب ڈالر فنڈز ملنے کا امکان ہے، اے ڈی بی، اسلامی ترقیاتی بینک اور ایشیائی انفرا اسٹرکچر بینک سے بھی مجموعی طور پر 1ارب ڈالر ملنے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی معیشت میں بہتری آئی ہے، مزید بہتری کے لیے بہت کام کی ضرورت ہے، پاکستان کا آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہنا ضروری ہے، اس وقت 3ارب ڈالر کے پروگرام کی تکمیل ترجیح ہے، وقت ملا تو آئی ایم ایف سے نئے پروگرام پر بھی بات کی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ برآمدات میں اضافے اور مقامی وسائل پیدا کرنے تک آئی ایم ایف کے ساتھ رہنا ضروری ہے، آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کے تحت 1.1ارب ڈالر کی آخری قسط کیلئے ابھی سے کام شروع کرنا ہے، آئی ایم ایف نے70کروڑ ڈالر کی دوسری قسط کیلئے کوئی پیشگی شرائط نہیں رکھی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بیرونی فنانسنگ گیپ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، متبادل ذرائع سے فنانسنگ کے حصول کیلئے کوششیں جاری ہیں، مختلف ممالک، عالمی اداروں اور کمرشل فنانسنگ کے حصول کا پلان ہے۔ گیس قیمتوں میں مزید بڑھوتری سے گریز کی روش اختیار کرنی چاہیے۔ گیس پہلے ہی بہت مہنگی ہوچکی ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے دیگر آپشنز پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید مہنگی گیس کے غریب عوام ہرگز متحمل نہیں ہو سکتے ۔ دوسری جانب حکومتی اخراجات میں کمی کے لیے راست کوششیں ہیں۔ نگراں وزیر خزانہ نے اس کا عندیہ بھی دیا ہے۔ کفایت شعاری کی روش قوموں کو عروج پر پہنچا دیتی ہے۔ اگر نگراں حکومت اور آئندہ عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت بھی کفایت شعاری کی راہ پر چلے تو اس سے صورت حال خاصا بہتر رُخ اختیار کر سکتی ہے۔ ڈالر کی قیمت کو کنٹرول اور مزید کمی لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس حوالے سے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ ڈالر کی قدر گرنے سے ملک و قوم کے بہت سے مسائل حل کی منزل پر پہنچ سکیں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ملکی معیشت کی صورت حال بہتر ہوئی ہے، اس میں مزید بہتری کے لیے کوششیں ناگزیر ہیں۔ ملکی وسائل کو درست خطوط پر بروئے کار لایا جائے۔ مسلسل لگن کے ساتھ اگر ملک و قوم کی ترقی اور خوش حالی کے لیے اقدامات کیے گئے تو ضرور ان کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
اسرائیلی دہشت گردی کا توڑ جلد ہوگا
غزہ میں سسکتی انسانیت کے نوحے جابجا بکھرے پڑے ہیں۔ 44روز کے دوران 12 ہزار سے زائد فلسطینی شہید کیے جاچکے ہیں، ہر طرف لاشے ہی لاشے ہیں، کہیں بین کرتے والدین ہیں تو کہیں اولادیں اپنے ماں باپ کے لاشوں پر ماتم کناں دِکھائی دیتے ہیں۔ ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے۔ انفرا اسٹرکچر تباہ کردیا گیا ہے۔ عمارتوں کے ملبوں کے ڈھیر ہیں، ان ملبوں تلے نہ جانے کتنے لوگ دبے ہوئے ہیں، کوئی شمار نہیں۔ اکثر اسپتال بند ہوچکے ہیں کہ درندہ صفت اسرائیل جنگی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ناصرف اسپتالوں اور عبادت گاہوں پر بم حملے کر رہا ہے بلکہ تعلیمی اداروں اور اقوام متحدہ سمیت دیگر امدادی مراکز کو بھی نشانہ بنارہا ہے۔ فلسطین کے معصوم پھولوں یعنی اطفال کو انتہائی بے دردی سے کچلا گیا۔ ساڑھے 4ہزار بچوں کو اسرائیلی درندہ صفت فوج نے زندگیوں سے محروم کردیا ہے۔ ایسے مظالم تاریخ انسانی میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔ اسرائیل نصف صدی سے زائد عرصے سے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ بے گناہ لوگوں کی زندگی کے چراغ گُل کردینا اس کا وتیرہ رہا ہے۔ مسلمانوں کے قبلۂ اوّل کے تقدس کی بارہا پامالی کی روش اسرائیلی فوج نے اختیار کیے رکھی۔ ظلم و ستم بڑھتے چلے جارہے تھے۔ فلسطینی مسلمان بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ اُن کی آزادی اور خودمختاری پر اسرائیل نے قدغن لگائی ہوئی ہے۔ ظلم کی انتہا ہوچکی تھی کہ آخر اس کے خلاف آواز تو اُٹھنی ہی تھی۔ اس لیے فلسطین کی حریت پسند تنظیم حماس نے پچھلے مہینے اسرائیل پر 5 ہزار راکٹ فائر کیے۔ اسرائیل پہلے بوکھلا گیا۔ پھر اُس نے پلٹ کر بہت زیادہ شدّت سے پے درپے وار کیے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ وہ فلسطین پر زمینی، فضائی اور بحری حملے متواتر کررہا ہے۔ گزشتہ روز بھی اسرائیلی فضائیہ کی غزہ میں مسجد پر بم باری سے کم از کم 50نمازی شہید جب کہ درجنوں زخمی ہوگئے جبکہ صیہونی فورسز کی جانب سے الشفاء اسپتال پر دوبارہ دھاوا بولا گیا ہے، جس سے اسپتال کے جنوبی و داخلی راستے مکمل تباہ ہوگئے، سعودی عرب نے اسپتال پر حملے اور اُردن فیلڈ اسپتال کے آس پاس علاقوں میں بم باری پر اسرائیلی فوج کی سخت مذمت کی ہے۔ دوسری طرف شمالی غزہ میں فلسطینی مسلح گروپوں سے جھڑپوں میں مزید 2 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگئے۔ اِدھر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے غزہ میں انسانی بنیادوں پر عارضی جنگ بندی کی قرارداد منظور کرلی ہے۔ قرارداد مالٹا کی جانب سے پیش کی گئی۔ قرارداد پر ووٹنگ میں 12ممالک نے حصّہ لیا جبکہ 3مستقل ارکان امریکا، برطانیہ اور روس نے ووٹنگ میں حصّہ نہیں لیا، قرارداد میں حماس اور دوسرے گروپوں کی طرف سے یرغمال بنائے گئے شہریوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ دوسری جانب اسرائیل نے سلامتی کونسل کی طرف سے جنگ بندی کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔ اسرائیل کی غنڈہ گردی کا توڑ ناگزیر ہوچکا ہے۔ یہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے دُنیا کے چند بڑوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ وہ ان کی شہہ پر جو چاہے کر گزرتا ہے اور دُنیا کے بڑی ممالک اس پر اسے درست قرار دیتے ہیں۔ وہ ظالم کو مظلوم اور مظلوموں کو ظالم قرار دیتے نہیں تھکتے۔ اُن کی نظر میں اسرائیل درست اقدام کررہا ہے۔ 12ہزار بے گناہ لوگوں کو زندگی سے محروم کردینے پر بھی اُن کی روحیں نہیں کانپ رہیں۔ اسرائیل کا وجود ان شاء اللہ جلد اس دُنیا سے مٹ جائے گا۔ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو اُس کا اختتام نزدیک آتا جاتا ہے۔ یہی اسرائیل کے معاملے میں بھی لگ رہا ہے۔ فلسطین میں آزادی کا سورج جلد طلوع ہوگا اور وہاں کے عوام آزادی اور خودمختاری کے ساتھ زیست گزار سکیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button