CM RizwanColumn

نگران حکومت کی احسن کارکردگی

سی ایم رضوان
پاکستان کا موجودہ معاشی بحران ملک میں پچھلی چھ دہائیوں سے رائج سیاسی و انتظامی بداعمالیوں کا واضح شاخسانہ ہے۔ ماضی قریب و بعید میں ناقص گورننس، بے ربط عدالتی نظام، فرسودہ قوانین، ٹیکس کا پیچیدہ نظام، شفافیت کا فقدان، چار بار کی طالع آزمائی اور بالآخر سابقہ طاقتوروں کی جانب سے عمران پراجیکٹ کی رونمائی جیسے عوامل نے آج مزدور اور عام تنخواہ دار پاکستانی کی زندگی مشکل ترین کر دی ہے۔ نیز غیر موثر بیوروکریسی، قدرتی اور آبی وسائل کا بے دریغ استعمال، مقامی و عوامی حکومتوں کی نالائقی اور کمی، ملکی منصوبہ بندی کے لئے ناقابل اعتماد ڈیٹا اور سرکاری محکموں کی جانب سے پالیسیوں پر عملدرآمد میں مسلسل خامیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ گاہے بگاہے اقتصادی ترقی بڑھانے کی کوششوں کے باوجود ملکی جی ڈی پی کی شرح نمو ہمیشہ اپنی صلاحیت سے بھی کم رہی۔ اہم شعبوں کی ترقی اور سرمایہ کاری کی راہ میں ناکافی ریونیو اکٹھا کر پانے جیسے مسائل بھی رکاوٹ بنے۔ پی ٹی آئی دور میں تو سارے معاملات ہی بگڑ گئے۔ حکمرانوں کی جانب سے چور چور کا شور ڈال کر خود ڈاکے ڈالے گئے جس کی وجہ سی پچھلے چند سالوں سے اشیائے خورونوش، پٹرول، بجلی و دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور ناقابل برداشت حد تک مہنگائی اب غریبوں کے فاقوں تک پہنچ چکی ہے۔ اسی بناء پر عوام کی بے اطمینانی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کی اہم وجہ خراب انتظامیہ اور نظام پر مسلط دائمی ہٹ دھرمی ہے۔ نظام میں بہتری اسی صورت میں آ سکتی ہے اگر وفاقی، صوبائی حکومتیں مل کر کام کریں اور مجموعی نظام میں انصاف پسندی اور خود کار احتساب کا موثر اور عادلانہ نظام ہو پھر یہ بھی کہ کم از کم پندرہ سال کے لئے معاشی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہ لائی جائے۔ خاص طور پر ٹیکس ادائیگیوں کے نظام میں بنیادی خامیاں ہیں جن کی وجہ سے پاکستان بین الاقوامی سطح پر کامیاب ٹیکس لینے والے ممالک میں 173ویں نمبر پر ہے جبکہ ورلڈ بینک کے ایز آف ڈوئنگ بزنس ( کاروبار کے لئے آسانی) انڈیکس کے مطابق پاکستان ٹیکس کے اصولوں کی تعمیل کے لحاظ سے دنیا میں مجموعی طور پر 136؍172ویں نمبر پر ہے۔ اس رینکنگ کے مطابق اس وقت ملک میں معاشی سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹیں شفافیت کا فقدان اور ٹیکس کا پیچیدہ نظام ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد اور کاروباری اداروں کو ٹیکس نیٹ میں لا کر ٹیکس انتظامیہ کو دیانتدار، فرض شناس اور مضبوط کیا جائے، ٹیکس بیس کو وسیع کیا جائے اور بیرونی ذرائع سے حاصل کردہ قرضوں سے نجات پانے کے لئے ایک مضبوط اندرونی قرض کے انتظام کی حکمت عملی بنائی جائے۔ سرمایہ کاری اور روزگار کی تخلیق کے موثر ضابطوں کو ہموار کرنے اور انتظامی رکاوٹوں کو دور کر کے کاروبار کو آسان بنانا بھی بہت ضروری ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو سپورٹ کرنا اور مشورے اور علم کے لئے غیر ملکی تنظیموں کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا بھی ازحد ضروری ہے، آمدنی کی وصولی بڑھانے، طویل المدتی اقتصادی ترقی کے لئی وسائل کی موثر تقسیم کو یقینی بنانے کے لئے بھی حکومت، کارپوریٹ سیکٹر، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی شراکت داروں کی جانب سے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے مگر قرض لے کر عیاشی کرنے کی جو لت ہمارے حکمرانوں کو پڑ گئی ہے اس کی وجہ سے ہم آزاد معاشی پالیسی بنانے سے قاصر ہو چکے ہیں۔ سابقہ نواز حکومت نے اپنی مدت کے اختتام پر بروقت قرض ادا کر کے آئی ایم ایف سے آئندہ کے لئے چھٹی مانگ لی تھی مگر بعدازاں ایک جھوٹے حکمران نے آ کر سابقہ ساری حکومتوں سے دوگنا زیادہ قرض لے لیا اور اپنے بیان کے مطابق خودکشی بھی نہ کی۔ الٹا کئی غریبوں کو خودکشیوں پر مجبور کر دیا۔ اعمال اور بیانات میں ربط نہ رکھنے کی پاداش میں وہ تو اپنے سیاسی انجام کو پہنچ گیا مگر آج کی نگران حکومت بھی آئی ایم ایف کے ساتھ طے کی گئی شرائط کو کافی حد تک پورا کر لینے کے باوجود چند مشکلات کا شکار ہے۔
ان دنوں آئی ایم ایف کا جائزہ مشن ایک مرتبہ پھر پاکستان آیا ہوا ہے اور اگلی قسط کے حصول کے لئے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین ایک طرف مذاکرات جاری ہیں تو دوسری طرف ایک مرتبہ پھر پاکستان کی نظریں دوست ممالک پر ہیں کہ وہ پاکستان کو درپیش مالی کمی بیشی کو اپنے تعاون اور امداد سے پورا کر دیں۔ یعنی یہ کاسہ ہماری جان نہیں چھوڑ رہا اور جو امداد یا قرضہ ملتا ہے اس کے تمام تر خسارے اور خمیازے بھگتنا تو قوم نے ہوتے ہیں مگر حکمرانوں کی عیاشیاں اور فضول اخراجات قوم کو مزید مقروض کر دیتے ہیں گو کہ موجودہ نگران حکومت کی معاشی ٹیم کی اس حوالے سے کارکردگی حوصلہ افزا ہے مگر سابقہ پی ٹی آئی حکومت کے بلنڈر اتنے بڑے ہیں کہ آئندہ پانچ سالوں میں بھی ریکوری مشکل ہے۔ وہ بھی اگر نواز شریف جیسا کوئی محب وطن اور باعمل حکمران ملکی معاملات چلانے میں آزاد ہوا تو۔ بہرحال پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹینڈ بائی پروگرام کی نئی قسط کے حصول کے لئے اقتصادی جائزہ مذاکرات اسلام آباد میں جاری ہیں۔ ایک ہفتے سے جاری ان مذاکرات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو آئندہ قسط جلد ملنے کی امید ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے آئی ایم ایف پروگرام کے زیادہ تر اہداف کو مکمل کر رکھا ہے اور مذاکرات بہتر انداز میں چل رہے ہیں۔ اگست میں قائم ہونے والی اس نگران حکومت سے قبل اتحادی حکومت کو آئی ایم ایف سے جاری پرانے قرض پروگرام کی آخری دو اقساط کے لئے طویل انتظار کرنا پڑا تھا۔ آخر کار وہ پروگرام نامکمل ہی رہا۔ جس کے بعد پاکستان نے رواں سال جولائی میں تین ارب ڈالر کے حصول کے لئے آئی ایم ایف سے نو ماہ کی مدت کا یہ سٹینڈ بائی ایگریمنٹ کیا تھا جس کا پہلا جائزہ رواں ماہ کے پہلے ہفتے سے جاری ہے۔
اس معاہدے کے بعد پاکستان نے اضافی فنڈنگ کے لئے کوششیں تیز کی تھیں اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کے لئے اقدامات اٹھائے تھے۔ یہ اقتصادی جائزہ مکمل ہونے پر پاکستان کو 70کروڑ ڈالر کی دوسری قسط حاصل ہو گی جبکہ فروری میں دوسرا جائزہ مکمل ہونے پر باقی 1.2ارب ڈالر جاری ہوں گے۔ نگران حکومت نے آئی ایم ایف کو بتایا ہے کہ ایکسٹرنل فنانس گیپ کو براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سے پورا کیا جائے گا اور اس ضمن میں دوست ممالک سے ہونے والی بات چیت سے بھی آگاہ کیا ہے۔ گو کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے زیادہ تر اہداف کو مکمل کر لیا ہے مگر ایکسٹرنل فنانس گیپ کے لئے حکومت دوست ممالک کی طرف دیکھ رہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ سٹینڈ بائی پروگرام کے اہداف مڈٹرم پروگرام کی طرح سخت نہیں ہوتے اور اس جاری پروگرام کے زیادہ تر اہداف کو حکومت نے مکمل کر لیا ہے اور مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پرائمری بیلنس بھی سر پلس ہے اور توانائی کے گردشی قرضوں کو بھی کم کیا گیا ہے۔ اب صرف بیرونی فنانسنگ گیپ کو پورا کرنا ہے جو کہ ساڑھے چار ارب ڈالر کے قریب ہو گا۔ حکومت کا آئی ایم ایف کے سامنے یہ موقف ہے کہ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی واقع ہوئی ہے اور بیرونی فنانس گیپ ماضی کے تخمینوں سے کم ہو گیا ہے جسے پورا کرنے کے لئے زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں ہو گا۔ تاہم آئی ایم ایف یہ چاہے گا کہ اس بیرونی مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لئے پاکستان دوست ممالک یا مالیاتی اداروں سے رضا مندی لائے۔ اس ضمن میں پاکستان کو یقین دہانی تو موجود ہے کہ دوست ممالک اسے فنڈز مہیا کریں گے تاہم اس پر عملدرآمد کی رفتار کافی سست ہے۔ پاکستان کا آئی ایم ایف سے مطالبہ ہو گا کہ وہ جائزہ اجلاس کو مکمل کر کے آئندہ قسط جاری کرے تاکہ پاکستان کی معیشت پر اعتماد بحال ہو۔ ایسے میں دوست ممالک اور مالیاتی اداروں سے بیرونی مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لئے درکار مالیات حاصل کرنے میں بھی آسانی ہو گی۔ ایف بی آر کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی سے ستمبر کے دوران بورڈ دو ہزار 41ارب روپے کے ٹیکس جمع کرنے میں کامیاب رہا ہے جو ہدف سے تین فیصد زیادہ ہے۔ اسی طرح پاکستان کا بجٹ خسارہ بھی گزشتہ مالی سال کی اسی سہ ماہی سے کم رہا ہے۔ تاہم یہ جی ڈی پی کا اب بھی 0.9فیصد ہے۔ اس کمی کی بنیادی وجہ ملک کے تمام صوبوں کی جانب سے اس سہ ماہی میں کیش سر پلس رہنا بتایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف کے اس معاہدے میں پانچ بنیادی مطالبے تھے جن میں سے چار پر حکومت عمل کر چکی ہے البتہ ایکسٹرنل فنانس گیپ پورا کرنا ابھی باقی ہے۔ اب معاملہ صرف بیرونی ادائیگیوں کا ہے جو تقریبا 28ارب ڈالر ہے۔ جن میں ساڑھے چار ارب ڈالرز کا حصول باقی ہے۔ اس مقصد کے لئے حکومت کو کچھ مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ وہ یورو بانڈ کا اجرا نہیں کر پائے گی اور شرح سود زیادہ ہونے کے سبب کمرشل بینکوں سے تین ارب ڈالر کا حصول بھی مشکل ہو گا۔ مجموعی طور پر معیشت کے حوالے سے نگران حکومت کی کارکردگی حوصلہ افزا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button