Editorial

آئی ایم ایف 9415ارب کے ٹیکس ہدف پر رضامند

ملکی معیشت اس وقت انتہائی مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔ اس کی بہتری کے لیے اقدامات جاری ہیں، نگراں حکومت کی جانب سے کیے گئے بعض اقدامات کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں، لیکن معیشت کی مکمل بحالی کے لیے ایسے ہی کچھ اور بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے۔ ملک بھر میں گرانی اپنی حشر سامانیاں بپا کر رہی ہے۔ غریب عوام کی حالتِ زار انتہائی دگرگوں ہے۔ پچھلے پانچ سال میں ڈالر کے ہوش رُبا حد تک بڑھتے نرخ مہنگائی کے طوفان میں ہولناک شدّت لانے کا باعث بنے۔ مہنگائی تین گنا بڑھ چکی ہے۔ لوگوں کی آمدن وہی ہے۔ روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا دُشوار ہے۔ اُس پر طرّہ کہ ملک عزیز پر قرضوں کا بے پناہ بار ہے، اس بوجھ میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔ قرض دینے والے عالمی اداروں نے ملک میں اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کروائے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے پہلے پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑے، پھر نگراں حکومت بھی اس کے لیے کم تگ و دو نہیں کر رہی۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے، جس میں عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے کڑی شرائط اور مطالبات سامنے آرہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران ہی اہم اطلاع یہ منظرعام پر آئی ہے کہ اب قوم کو منی بجٹ کا سامنا نہیں کرنا ہوگا۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پالیسی سطح کے مذاکرات جاری ہیں۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف 9 ہزار 415 ارب کا سالانہ ٹیکس ہدف برقرار رکھنے پر رضامند ہوگیا ہے، جس کے بعد منی بجٹ نہیں آئے گا۔ ذرائع ایف بی آر نے بتایا کہ نگراں حکومت کوئی نیا ٹیکس نہیں لگائے گی، آئی ایم ایف کو آگاہ کردیا گیا ہے، آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی گئی کہ ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے ٹیکس حکام انتظامی اقدامات بہتر بنائیں گے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کو آگاہ کردیا گیا کہ معیشت کو دستاویزی شکل دے کر ٹیکس نیٹ بڑھانے کا بھی پلان ہے، حکام ایف بی آر کے مطابق سالانہ 9415ارب روپے کا ٹیکس ہدف باآسانی حاصل کرلیا جائے گا، مالی سال کے پہلے 4 ماہ کے تمام اہداف پورے کرلیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کو ٹیکس ہدف کے حصول کا تحریری پلان فراہم کردیا گیا ہے اور آئی ایم ایف کو 9415 ارب روپے کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جب کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے ٹیکس چوری کے خاتمے کی بھی یقین دہانی کرادی گئی ہے۔ دوسری طرف نجی ٹی وی کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان پہلے جائزے کی کامیابی سے تکمیل کے لیے پُرامید ہے۔ پالیسی سطح کے مذاکرات کے پہلے روز خصوصی سرمایہ کاری فیسیلٹیشن کونسل کی جانب سے بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں ایس آئی ایف سی کے تحت متوقع سرمایہ کاری اور اس پر دی جانے والی ٹیکسوں کی رعایت پر بھی غور کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق مذاکرات 15 نومبر تک جاری رہیں گے۔ مذاکرات میں نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر نے وفد کی سربراہی کی، جس میں گورنر اسٹیٹ بینک، چیئرمین ایف بی آر، وزارت خزانہ، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک اور وزارت توانائی کے دیگر حکام شریک تھے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے مشن کے سربراہ ناتھن پورٹر نے وفد کی قیادت کی۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف وفد نے اپنے مطالبات اور سفارشات سے آگاہ کیا ہے۔ تکنیکی سطح کے مذاکرات میں آئی ایم ایف کے ساتھ اقتصادی ڈیٹا شیئر کیا گیا اور پاکستان پہلے جائزے کی کامیابی سے تکمیل کے لیے پُرامید ہے۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ آمدن بڑھانے، اخراجات میں کمی، ڈالر اِن فلوز، ادارہ جاتی اصلاحات، نیشنل کلین ایئر پالیسی، نیشنل کلائمیٹ فنانس اسٹرٹیجی، ایکسچینج ریٹ، نئے قرض کے لیے سکوک بانڈز، ٹی بلز، انویسٹمنٹ بانڈز کا اجرا، قرض پروگرام کے دوران توانائی کے شعبے میں سبسڈی نہ دینے، بجٹ خسارہ کم کرنے کے اقدامات، پاور سیکٹر اور پٹرولیم سیکٹر کے لیے ری بیسنگ، ایڈجسٹمنٹ اور گردشی قرضے میں کمی کا پلان بھی سامنے رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تکنیکی سطح کے مذاکرات میں پاکستان کی جانب سے 6.5ارب ڈالر کے بیرونی فنانسنگ گیپ کو پورا کرنے کے لیے پیش کردہ ایکسٹرنل فنانسنگ، ایف بی آر کی جانب سے رواں مالی سال کے باقی ماندہ عرصے کے لیے پیش کردہ ریونیو پلان، درآمدات کی آڑ میں منی لانڈرنگ، مشکوک ٹرانزیکشنز پر سخت پالیسی بنانے اور آئندہ بجٹ میں فنانس بل کے ذریعے مشکوک ٹرانزیکشنز کے لیے سزائیں مزید سخت کرنے سے متعلق تجاویز سمیت دیگر امور بھی زیر غور آئیں گے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان پہلے جائزے کے لیے آئی ایم ایف کی تمام اہم شرائط پوری کر چکا ہے۔ پالیسی سطح کے مذاکرات میں اسٹاف لیول ایگریمنٹ فائنل کیا جائے گا اور جائزہ مذاکرات کامیابی سے مکمل ہونے پر پاکستان کو 71کروڑ ڈالر ملیں گے۔ مزید برآں نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ وفاقی حکومت اخراجات میں کفایت شعاری کی پالیسی اپنائے گی، اخراجات میں کمی کر کے بجٹ خسارہ قابو میں رکھیں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ معیشت کی بہتری اور اصلاح کے لیے پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت اور پھر نگراں حکومت نے راست کوششیں کی ہیں، جن کے حوصلہ افزا نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔ منی بجٹ نہ آنے کی اطلاع یقیناً خوش کُن ہے۔ مالی سال کے ابتدائی چار ماہ کے تمام اہداف بہ احسن و خوبی پورے کیے گئے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے دیا گیا ٹیکس وصولی کا ہدف بھی ان شاء اللہ پورا کیا جائے گا۔ گردشی قرضوں میں کمی کی خاطر راست کوششیں کی جائیں۔ معیشت کی بہتری کے لیے جو ممکن ہوسکے، وہ اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ نگراں حکومت کی جانب سے اخراجات میں کفایت شعاری کا عندیہ خوش آئند ہے۔ ملک عزیز کی معیشت پھر سے استحکام کی منزل کو پا سکتی ہے، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے لیے نیک نیتی کے ساتھ اقدامات ممکن بنائے جائیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والی قرض کی رقم سے صورت حال مزید بہتر رخ اختیار کر سکے گی، لیکن یہ حقیقت بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ قرضے کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہوتے۔ ملک عزیز وسائل سے مالا مال ہے، لہٰذا قرضوں سے مستقل جان چھڑاتے ہوئے ان وسائل کو درست خطوط پر بروئے کار لانے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
دہشت گردوں سے جھڑپ، 2اہلکار شہید
ملک میں پھر سے دہشت گردی کی کارروائیاں بڑھتی نظر آرہی ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کو متواتر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان صوبے دہشت گردوں کی کارروائیوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کے قافلوں پر حملے ہورہے ہیں، چیک پوسٹوں پر دہشت گرد دھاوا بول رہے ہیں، سال بھر سے جاری کئی واقعات میں کافی بڑی تعداد میں جوان و افسران جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ ان کی قربانیوں کو قوم کبھی فراموش نہیں کرسکے گی، جنہوں نے ملک کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ یہ اور ان کے لواحقین ہر لحاظ سے قابلِ عزت و احترام ہیں۔ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے سیکیورٹی فورسز آپریشنز میں مصروف ہیں۔ ملک کے مختلف حصّوں میں دہشت گردوں کو چُن چُن کر جہنم واصل کیا جارہا ہے، ان کے ٹھکانوں کو تباہ کیا جارہا ہے، گرفتاریاں عمل میں لائی جارہی ہیں، متعدد علاقوں کو دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے پاک کیا جاچکا ہے۔ یہ آپریشنز رُکے نہیں ہیں، بلکہ ان کا سلسلہ جاری ہے اور ان کے نتیجے میں جلد دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ شمالی وزیرستان میں گزشتہ روز دہشت گردوں سے فائرنگ کے تبادلے میں 2سیکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے جب کہ ایک دہشت گرد کو ہلاک کیا گیا۔ ایک اور دوسری کارروائی میں ایک اور دہشت گرد کو جہنم واصل کیا گیا۔ اس حوالے سے سامنے آنے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق خیبر پختون خوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان شدید فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 2 اہلکار شہید ہوگئے جب کہ ایک دہشت گرد کو ہلاک کردیا گیا۔ آئی ایس پی آر سے جاری بیان کے مطابق علاقے میر علی میں سیکیورٹی اہلکاروں اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ بیان میں کہا گیا کہ اہلکاروں نے دہشت گردوں کو ان کے ٹھکانوں پر نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ایک دہشت گرد ہلاک ہوگیا جب کہ دہشت گردوں کے ساتھ شدید فائرنگ کے تبادلے کے دوران مردان سے تعلق رکھنے والے 25سالہ سپاہی عبداللہ اور تھرپارکر سے تعلق رکھنے والے 19سالہ سپاہی محمد سہیل نے شہادت پائی۔ اس کے علاوہ تھانہ حدود دتہ خیل میں فورسز اور دہشت گردوں کے مابین جھڑپ کے نتیجے میں 1اہلکار زخمی ہوگیا۔ ادھر فورسز نے ضلع خیبر کے علاقے باڑہ میں آپریشن کرکے ایک دہشت گرد کو ہلاک کردیا، جس کی شناخت قدرت شاہ کے نام سے ہوئی، دہشت گرد سے گولا بارود برآمد ہوا، قدرت دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث تھا۔ 2 سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت پر سبھی افسردہ ہیں۔ پوری قوم ان کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ تمام سیکیورٹی اہلکار ملک و قوم کا فخر ہیں۔ ان دونوں شہدا کی قربانیاں قوم کبھی بُھلا نہیں سکے گی۔ پاکستان پہلے بھی تن تنہا دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹ چکا ہے۔ 2014کے اواخر میں شروع کردہ آپریشن ضرب عضب اور اس کے بعد ردُالفساد کے ذریعے وطن عزیز دہشت گردی کا سر کچل چکا ہے۔ کتنے ہی دہشت گردوں کو مارا گیا۔ کتنے ہی گرفتار ہوئے۔ ان کی کمین گاہیں تباہ و برباد کردی گئیں۔ ان حالات میں جو دہشت گرد بچے، اُنہوں نے یہاں سے فرار کی راہ لی۔ دہشت گردی کا چیلنج پاک افواج کے لیے نیا نہیں ہے۔ اُنہیں ان سے نمٹنے کا بھرپور تجربہ ہے۔ پاکستان میں پہلے بھی امن و امان کی فضا بحال کر چکی ہیں اور اب بھی ایسا جلد کر سکیں گی۔ مختلف علاقوں میں آپریشنز جاری ہیں، جن کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہورہے ہیں، دہشت گردی کا خاتمہ نزدیک ہے، ملک جلد دہشت گردی پر مکمل قابو پالے گا اور امن و امان کی صورت حال بہتر رُخ اختیار کر سکے گی۔

جواب دیں

Back to top button