Ali HassanColumn

ایم کیو ایم ضلعی حکومتوں کا قیام چاہتی ہے

علی حسن
تماش گاہ میں اچھل کود شروع ہو گیا ہے۔ یہ اچھل کود انتخابی مہم کی صورت میں ہے۔ مختلف علاقوں کے دورے، اس دوروں میں وعدوں پر مشتمل تقاریر، عوام کو سہانے خواب دکھانے کی جستجو۔ نتیجہ تو انتخابات کے انعقاد کے بعد نتائج سے ہی پتہ چلے گا کہ عوام کی کتنی سنی گئی اور ان ریکھی قوتوں کی کتنی سنی گئی۔ پاکستان میں تکلیف دہ بات یہ ہے کہ عوام یعنی ووٹر انتخابات پر اپنا اعتماد کھو بیٹھا ہے۔ وہ یہ یقین ہی نہیں رکھتا کہ اس نے جس امیدوار کو ووٹ دیا تھا وہ ہی کامیاب ہوا ہے۔ اس لاتعلقی نے اسے ملک میں موجود نظام سے متنفر کر دیا ہے۔ بہر حال، ملک پر حکمرانی کرنے والے جانیں کہ وہ اس ملک کی نیا کس طرح پار لگانا چاہتے ہیں۔
مسلم لیگ ( ن) کا وفد اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) پاکستان سے مذاکرات کیلئے بہادر آباد پہنچا ۔ ایم کیو ایم کے بہادر آباد دفتر میں ہونے والی ملاقات میں اس ملاقات میں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، مصطفیٰ کمال، نسرین جلیل، امین الحق اور دیگر شریک ہوئے۔ جبکہ ن لیگی وفد میں سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، بشیر میمن، نہال ہاشمی، کھیئل داس کوہستانی اور علی اکبر گجر شامل تھے۔ ن لیگ اور ایم کیو ایم قیادت کی، ملاقات میں سندھ کی سیاسی صورتحال، انتخابی اتحاد، سندھ میں نئی حکمت عملی سمیت دیگر امور زیر غور رہے۔ متحدہ قیادت نے ن لیگ کے سامنے انتخابات اور انتخابات کے بعد کیلئے مطالبات سامنے رکھے جن میں ایک نکتہ زیادہ ہی اہم تھا۔ وہ آئینی ترمیم سے متعلق تھا۔ 3اہم آئینی ترامیم ایم کیو ایم کی اولین ترجیح ہیں۔ یہ تین ترامیم ایسی ہیں جو اتفاق سے ملک کی کوئی سیاسی جماعت نہیں چاہتی ہے۔ خصوصا سندھ میں پیپلز پارٹی ایسی کوئی موثر ترمیم نہیں چاہتی ہے، جس کے نتیجے میں بلدیاتی نظام مستحکم ہو۔ ایم کیو ایم نے سیاسی جماعتوں کی اسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔ ایم کیو ایم اچھی طرح سمجھتی ہے کہ مستحکم بلدیاتی نظام سے ملک بھر میں عوام کو فائدہ پہنچے گا جس کا اعتراف سعد رفیق نے بھی کیا۔ لیگی وفد سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میں خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ حکمران دوست آئین سے کام نہیں چلے گا، ہمیں مالی نہیں نیتوں کے بحران کا سامنا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے آئین کو عوام دوست بنانا چاہیے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے، بلدیاتی اور شہری حکومت کو تحفظ ملنا ضروری ہے۔ ہمیں مالی، انتظامی، عدالتی سمیت ہر بحران کا سامنا ہے، پاکستان میں اصل بحران مالی نہیں بلکہ نیتوں کا ہے، سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کا مینڈیٹ قبول کرنا چاہیی۔ بلدیاتی الیکشن کو 90دن میں کروانے کیلئے مدت ختم ہونے پر نگراں حکومت آئے۔ آئین میں درج کیا جائے شہری حکومت کے پاس کون کون سے ادارے اور اختیارات ہوں گے۔ آئین میں ہونا چاہیے کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل عام انتخابات نہیں ہوسکتے۔
یوں تو ایم کیو ایم کے اس مطالبہ کو پیپلز پارٹی کو تسلیم کرنا چاہئے تھا تاکہ دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان بہترین افہام رہتا جو صوبہ کے عوام کے حق میں بھی بہتر ہوتا۔ سابق صدر مرحوم مشرف کے دور میں نافذ کیا گیا بلدیاتی نظام اس لحاظ سے مثالی تھا کہ تینوں سطحوں پر حکومتیں اپنی اپنی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کرتیں لیکن پیپلز پارٹی کے صوبائی حکومت کو یہ مثالی انداز اس لئے پسند نہیں آیا کہ وفاقی حکومت ضلعی حکومتوں کو ان کے فنڈ براہ راست ادا کر رہی تھی اور ضلعی حکومتیں اخراجات کے معاملہ میں با اختیار تھیں۔ پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزرا کو یہ طریقہ کار اس لئے نا پسند تھا کہ بلدیاتی اداروں کے معاملات میں عمل دخل سے وہ لوگ محروم ہو گئے تھے۔ وزیر اعلیٰ اس نظام کے تحت فنڈ اپنی صوابدید سے استعمال نہیں کر سکتے تھے، اس کے بر عکس اب صورت حال یہ ہے کہ وہ جہاں جس ضلع میں جتنا چاہتے ہیں فنڈ دے دیتے ہیں۔ دوسرے بھلے اپنی ضرورتوں کے باوجود محتاج رہیں۔ ایم کیو ایم کراچی ، حیدر آباد، میر پور خاص وغیرہ میں پیسوں کی کمی کی وجہ سے ہی روتی رہی ہے، لیکن پیپلز پارٹی نے اس کے رونے پر کوئی توجہ نہیں دی اور ان شہروں کے بنیادی مسائل پر بھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں، ن لیگ کی قیادت کا بھی یہ ہی مسئلہ رہا ہے۔ جو بھی حکمران ہیں انہیں بھرپور اور مکمل اختیار درکار ہوتا ہے۔ نواز شریف نے اپنی ماضی کے ادوار میں بلدیاتی اداوں کو مستحکم کرنے کا کبھی مظاہرہ نہیں کیا۔ حالانکہ وفاق اور صوبوں میں حکومت کرنے والی سیاسی جماعتوں کو بلدیاتی اداروں کو مستحکم کرنا چاہئے تاکہ ان پر بوجھ اور دبائو کم ہو سکے اور عوام کی بنیادی ضرورتوں کے فقدان کی ذمہ داری وفاق یا صوبہ میں حکمرانی کرنے والی جماعتوں پر عائد نہ ہو ۔
ن لیگ کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ن لیگ اور متحدہ کے اس اتحاد سے کراچی سمیت پورا پاکستان مستفید ہوگا۔ خالد مقبول صدیقی کے ہمراہ میڈیا بریفنگ میں سعد رفیق نے کہا کہ ہمارے درمیان سیٹوں کی تقسیم پر کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ پاکستان میں موجود جمہوریت کو عام آدمی کی جمہوریت میں بدلنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی نظام کو ہم بدقسمتی سے پوری طرح اپنا ہی نہیں سکے، شہری حکومتوں کو نہایت مہذب اور مفید ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی کام یہ ہے کہ اصلاحات کی طرف بڑھا جائے، وقت آگیا ہے کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کو آئینی تحفظ دیا جائے۔ سعد رفیق کو یہ فکر بھی کھائے جاتی ہے کہ جس امیدوار کو ووٹ پڑے وہ اسی امیدوار کو نکلے بھی، یہ نہ ہو کسی اور کو نکلے۔ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ( ن) کے اتحاد سے پورا پاکستان مستفید ہوگا۔ کچھ چیزیں ہم نے بھی ایم کیو ایم کی جانب سے سامنے رکھی گئیں وہ ملک کے لئے اہم ہیں، بنیادی بات اصلاحات کی طرف بڑھنا ہے۔ مسلم لیگ ( ن) اور ایم کیو ایم کی 2ٹیمیں کام کر رہی ہیں، ہماری کوشش ہے سندھ میں عوامی امنگوں پر پورا اترنے کیلئے اتحاد بنائیں۔ ملک معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے جس سے ہم نبردآزما ہیں۔ کراچی جو کھنڈر بن گیا اسے بہتر کریں۔ ہم نیب کے احتساب کے قانون کو تسلیم نہیں کرتے، ہم آئندہ نظام عدل پر بات کریں گے۔ شاید یہ منشور میں پہلے نمبر پر ہو۔ ہمارے اپنے اپنے منشور بھی تیار ہو رہے ہیں اور ہم ایک قومی سیاسی ایجنڈا بھی لیکر آئیں گے۔ ہم اپنے منشور میں ججوں کی تقرریوں پر بھی بات کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button