ColumnM Riaz Advocate

صدر، چیف جسٹس اور تمام سیاسی جماعتوں کے نام کھلا خط

محمد ریاض ایڈووکیٹ
جناب عارف علوی صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان
جناب انوار الحق کاکڑ نگران وزیراعظم پاکستان
جناب قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان
قومی سیاسی جماعتوں کے معزز سربراہان
میں محمد ریاض ایڈووکیٹ ممبر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ، شیخوپورہ ، آپ کی توجہ پاکستان کے انتہائی اہم قومی مسئلہ ’’ یعنی انصاف کے حصول میں تاخیر‘‘ کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدہ پر تعینات ہونے والے معزز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی بدولت سپریم کورٹ میں مقدمات کو نمٹائے جانے کی کارکردگی کی ہفتہ وار رپورٹ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دیکھنے کا مشاہدہ ہوا۔ سپریم کورٹ کی 30 ستمبر کی پریس ریلیز کے مطابق ایک ہفتہ میں سپریم کورٹ نے متفرق سول اپیلوں کے علاوہ 257مقدمات نمٹائے۔ سات اکتوبر کی پریس ریلیز کے مطابق ہفتہ میں 224مقدمات نمٹائے جبکہ چودہ اکتوبر کی پریس ریلیز کے مطابق ہفتہ میں 250مقدمات نمٹائے۔ تین ہفتوں کی کارکردگی کی بات کی جائے تو 731مقدمات نمٹائے گئے اور انہی تین ہفتوں میں سپریم کورٹ میں مزید 80نئے مقدمات کا اندراج بھی ہوا۔ موجودہ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم بینچوں کی کارکردگی قابل تحسین ہے مگر، کیا سپریم کورٹ میں موجود 55000ہزار سے زائد زیر التوا مقدمات کا بیک لاگ کبھی ختم ہو پائے گا؟ موجودہ کارکردگی فی ہفتہ اوسطا 250مقدمات نمٹائے جانے کی کارکردگی کی بناء پر سادہ سے تقسیم کے فارمولا کے تحت زیر التوا 55000سے زائد مقدمات کو نمٹانے کے لئے 220ہفتے یا تقریبا 4سال مزید درکار ہونگے اور اتنے عرصے میں 50000سے زائد مقدمات مزید دائر ہوجائیں گے۔ یعنی زیر التوا مقدمات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو پائے گا۔ اگر بات کی جائے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کی تو سپریم کورٹ ( ججوں کی تعداد) ایکٹ، 1997کے سیکشن 2کے تحت سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے علاوہ مزید 16جج ہونگے۔ یاد رہے سال 1998کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 13کروڑ 23لاکھ نفوس پر مشتمل تھی جبکہ سال 2023کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 24کروڑ 22لاکھ نفوس پر مشتمل ہوچکی ہے۔ یعنی گزشتہ 25سال میں پاکستان کی آبادی میں تقریبا 83فیصد اضافہ ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے لحاظ سے جہاںسکول، کالجز، ہسپتال، سرکاری دفاتر و سرکاری ملازمین کی کمی کا سامنا دیکھنے کو ملتا ہے وہیں پر ریاست پاکستان کے شہریوں کو اپنے آئینی و قانونی حقوق کے حصول و دادرسی کے خاطر قانونی چارہ جوئی کے لئے عدالتوں میں ججز کی قلت کا سامنا دیکھنا پڑ رہا ہے۔ چھوٹی عدالتوں سے لیکر سپریم کورٹ تک ہر جگہ ججز کی قلت یقینی طور پر مقدمات کے التوا کا باعث بن رہی ہے۔ آج سے 25سال پہلے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17تھی مگر افسوس 25سال گزرنے کے باوجود آج بھی سپریم کورٹ میں 17ججز انصاف کی فراہمی کے لئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ آبادی میں اضافہ کے تناسب سے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17کی بجائے31ہونی چاہیے۔ اسی طرح ہائیکورٹس و ماتحت عدالتوں میں بھی ججز کی تعداد کو آبادی کی تعداد کے حساب سے بڑھایا جانا چاہیے۔ آئین کے آرٹیکل 176کے مطابق سپریم کورٹ ایک چیف جسٹس پر مشتمل ہو گی جس میں چیف جسٹس آف پاکستان علاوہ دیگر ججز جن کا تعین ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ لہذا سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد کا تعین صرف پا رلیمنٹ ہی قانون سازی کے تحت کر سکتی ہے۔ جناب والا ، ہم سب جانتے ہیں کہ انصاف کے حصول کے لئے سائلین کی جوتیاں گھِس جاتی ہیں۔ جائیدادیں تک بک جاتی ہیں۔ کئی نسلیں قبر کی آغوش میں پہنچ جاتی ہیں۔ مگر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انصاف کب ملے گا ۔ جناب والا، آئین پاکستان کے آرٹیکل 37(d)کے تحت ریاست پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ سستے اور فوری انصاف کو یقینی بنائیں۔ آرٹیکل 2Aقرارداد مقاصد کے مطابق ایسی ریاست قائم کی جائے گی کہ جس میں اسلام کی طرف سے بیان کردہ جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی انصاف کے اصولوں کی مکمل پابندی کی جائے گی۔جناب والا، ضرورت اس امر کی ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں فی الفور ججز کی تعداد کو بڑھایا جائے اور اور اس سلسلہ میں صدر پاکستان عارف علوی، نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور قومی سیاسی جماعتوں کے سربراہان پہلی فرصت میں ملاقات کریں اور سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد کو بڑھانے کے لئے نتیجہ خیز مذاکرات کریں۔ جناب والا، موجودہ حالات میں سینٹ میں قانون سازی تو ہوسکتی ہے مگر قومی اسمبلی کے نئے انتخابات کے انعقاد تک قانون سازی کا عمل التوا کا شکار رہے گا۔ لہذا صدارتی آرڈیننس ہی بہترین آپشن رہے گا۔ نئی قومی اسمبلی وجود میں آنے کے بعد ایوان بالا اور ایوان زریں سے اس آرڈیننس کو باقاعدہ منظوری دلوائی جائے۔ جناب صدر پاکستان عارف علوی صاحب ، آپ سے التماس ہے کہ آئین کے آرٹیکل 89(1)کے تابع صدارتی آرڈیننس جاری کریں اور سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کم از کم 30تک بڑھایا جائے۔ آرڈیننس کے ذریعہ تمام صوبوں کی ہائیکورٹس کے ججز کو بھی آبادی کے تناسب کے ساتھ بڑھا دیا جائے۔ یقینی طور پر اس اقدام سے ریاست پاکستان کے شہریوں کو سستے اور فوری انصاف کے حصول میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button