ColumnImtiaz Aasi

عمران خان اور جیل سہولتیں

امتیاز عاصی
سابق وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان کا جیل میں اے کلاس کا استحقاق ہے۔ جب سے پنجاب حکومت نے اے کلاس کو بی کلاس میں ضم کیا ہے سیاست دانوں ، بیوروکریٹس اور ان لوگوں کو بی کلاس میں رکھا جاتا ہے جو انکم ٹیکس ادا کرنے کے ساتھ گریجویٹس بھی ہوں۔ پنجاب کی جیلوں میں سب سے بہتر بی کلاس سنٹرل جیل راولپنڈی میں ہے جہاں قیدیوں کے لئے انفرادی طور پر آمنے سامنے کمروں کے علاوہ چہل قدمی کے لئے اچھا خاصا سر سبز کھلا احاطہ ہے۔ بیڈمنٹن کھیلنے کے لئے باقاعدہ کورٹ بنائی گئی تھی آصف علی زرداری کو سینٹرل جیل رکھا گیا تو موجودہ بی کلاس جو پہلے کبھی اے کلاس ہوا کرتی تھی بیڈمنٹن کورٹ والی جگہ دیوار تعمیر کر دی گئی تاکہ قیدی ایک دوسرے سے مل نہ سکیں۔ سینٹرل جیل راولپنڈی میں بی کلاس والی جگہ گزشتہ کئی برسوں سے بعض خصوصی قیدیوں کو رکھا گیا ہی جن کا تذکرہ نامناسب ہے۔ بی کلاس میں باقاعدہ کچن کی سہولت میسر ہے۔ گیس کی سہولت کے ساتھ فریج، اوون، ڈیفریزر جانے کون کون سی چیزیں موجود ہیں۔ دراصل یہ تمام اشیاء ان وی آئی پی قیدیوں کی چھوڑی ہوئی ہیں جو کبھی یہاں رہ چکے تھے ورنہ سرکاری طور پر ماسوائے گیس کی سہولت کے علاوہ کوئی چیز سرکاری نہیں ہے۔ عمران خان کے وکلاء اسی لئے اٹک جیل سے سنٹرل جیل راولپنڈی منتقلی کے لئے زور لگا رہے تھے۔ یار لوگوں نے عمران خان کو بی کلاس قیدیوں کے لئے مختص جگہ کی بجائے سزائے موت کے سرکل کے ساتھ ایک پہرہ دے دیا ہے جہاں ان قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جنہیں پھانسی دینے سے دو تین روز قبل دوسرے قیدیوں سے علیحدہ کرکے یہاں لایا جاتا ہے۔ اس ناچیز کے مشاہدات کے مطابق سینٹرل جیل اڈیالہ میں جب کوئی وی آئی پی قیدی آتا تھا تو معمول کے مطابق بی کلاس میں پہلے سے رکھے گئے قیدیوں کو کسی بیرک میں منتقل کر دیا جاتا تاکہ نئے آنے والے وی آئی پی کو وہاں رکھا جا سکے جیسا کہ میاں نواز شریف کو بی کلاس میں رکھتے وقت وہاں پہلے سے موجود قیدیوں کو بیرک میں بھیج دیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم سے خصوصی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ گو اس پہلے شاہد خاقان عباسی کو بھی وہیں رکھا گیا جہاں آج کل عمران خان ہیں۔ میاں نواز شریف گویا اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہیں یا قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہے۔ وہ ملک سے ہیں ان کی درخواست ضمانت اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی جانی تھی نیب پراسیکوٹر لاہور سے پہلے عدالت میں پہنچ چکے تھے۔ پیغمبر اسلامؐ نے 14سو برس پہلے فرما دیا تھا جن قوموں میں انصاف نہیں ہوتا وہ برباد ہو جاتی ہیں۔ ہماری بربادی میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا ہے پاکستان واحد ملک ہے جہاں کے حکمران پیسوں کی بھیک مانگنے ملکوں ملکوں پھرتے ہیں۔ قوم اس اعتبار سے خوش قسمت ہے نواز شریف ملک وقوم کی خوشحالی کا نسخہ اپنے ساتھ لا رہا ہے۔ بس برسوں سے مشکلات میں گھیری قوم کے لئے ہر طرف آسانیاں ہی ہوں گی۔ نواز شریف کی ہونہار بیٹی قریہ قریہ عوام کو خوش خبر ی دے رہی ہے ان کی خوشحالی کا دور لوٹنے والا ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو ہمارا ملک اور عوام مسائل کے بھنور سے نکل سکیں۔ ہم عمران خان کو جیل میں ملنے والی سہولتوں کا ذکر رہے تھے۔ عمران خان کے مخالفین اس کے دیسی مرغ کھانے پر بھی نالاں ہیں۔ چلیں احتساب عدالت کے جج صاحب کی مہربانی سے اسے واک ( چہل قدمی) کے لئے اندرونی دیوار توڑ کر کچھ زیادہ جگہ فراہم کر دی گئی ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے بی کلاس کی سہولت والے قیدی جیل والوں کی طرف سے قیدیوں کو فراہم کئے جانے والے کھانے کی بجائے اپنے طور پر کھانا تیار کر سکتے ہیں۔ بعض حلقے عمران خان کو کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی پر معترض ہیں بی کلاس کا قیدی کھانے پینے کی کوئی بھی چیز اپنے پیسوں سے باہر سے منگوا سکتا ہے ۔ نواز شریف کے پاس تو ٹی وی کی سہولت میسر تھی معلوم نہیں عمران خان کو یہ سہولت میسر ہے یا نہیں۔ جیلوں میں قیدیوں کو اخبارات کی سہولت بھی میسر ہوتی ہے خواہ وہ سی کلاس کا قیدی کیوں نہ ہو۔ سنٹرل جیل راولپنڈی میں قیدیوں اور حوالاتیوں کو اخبارات کی سہولت میسر ہے۔ ایک قیدی جس کی قیدی میں چند ماہ باقی رہ گئے ہوتے ہیں بی کلاس والے قیدی کی دیکھ بھال اور اس کے معمولی نوعیت کے کام کرنے کے لئے مہیا کیا جاتا ہے جسے جیل کی زبان میں مشقتی کہا جاتا ہے۔ جیل مینوئل میں غالبا چھ قیدیوں کے لئے ایک مشقتی قیدی فراہم کیا جاتا ہے جہاں ایک قیدی ہو وہاں انفرادی طور مشقتی مہیا کیا دیا جاتا ہے۔ عام طور پر جیلوں میں کچھ نذرانہ دے کرسی کلاس والے قیدی مشقتی لے لیتے ہیں قیدی تو پھر قیدی ہوتا ہے جہاں بھی اسے جیل میں مشقت کے لئی بھیجا جائے انکار کی صورت میں سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں اور حوالاتیوں کو پی سی او سے فون کرنے کی اجازت ہے۔ اب تو خیر ویڈیو کال کی اجازت ملنے والی ہے۔ آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر نے جب سے دوبارہ جیلوں کی باگ دوڑ سنبھالی ہے برسوں سے ترقی کے منتظر ملازمین کو اگلے گریڈوں میں ترقی دے دی گئی ہے۔ اگرچہ یوٹیلیٹی سٹورز کی تجویز بہت پرانی تھی عمل درآمد نگران حکومت کے دور میں شروع ہو گیا ہے جو قیدیوں کی فلاح و بہبود کی طرف اچھا قدم ہے۔ جیل تو پھر جیل ہوتی ہے عمران خان کے ساتھ خصوصی برتائو کیا جا رہا ہے اس کی نگرانی پر نہ جانے کون کون سے لوگ مامور ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق وہ بہت مضبوط اعصاب کا مالک ہے۔ دوران قید قرآن پاک کا مطالعہ اس کا معمول بن چکا ہے اللہ سبحانہ تعالیٰ کی کتاب سے جس نے لو لگا لی قید و بند کی صعبوتیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ سابق وزیراعظم کے مقدمات عدالتوں میں ہیں۔ انصاف کا تقاضا تو یہی ہے جیسے میاں نواز شریف کے لئے سب دیدہ و فرش راہ ہیں کاش عمران خان کے لئے بھی ویسا ہوجائے۔ جیل مینوئل میں ماسوائے اہل خانہ کے کوئی اور قیدی اور حوالاتی سے ملاقات نہیں کر سکتا لیکن قیدیوں اور حوالاتیوں سے پنجاب کی جیلوں میں یومیہ ہزاروں دوست احباب ملاقاتیں کرتے ہیں البتہ عمران خان کے لئے جیل مینوئل پر شدومد سے عمل ہو رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button