Ali HassanColumn

پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ اور آئی ایم ایف

علی حسن
عام طور پر قرضہ دینے والا فریق ایک مرحلہ کے بعد اپنی شرائط منوانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ مرحلہ اس وقت آتا ہے جب قرضہ دینے والے فریق کو یقین ہو جاتا ہے کہ اس کے دئے گئے قرضہ کی وصولی اس کے طے شدہ پروگرام یا شرائط کے مطابق مشکل ہوتی جارہی ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان کے معاملے میں آئی ایم ایف ایسا ہی محسوس کر رہا ہے۔ اس وجہ سے آئی ایم ایف نے اب تک کا آخری دیا ہوا قرضہ دیتے وقت ایسی شرائط لگائی تھیں جن کو حکومت پاکستان پوری طرح سمجھ نہیں سکا۔ شہباز شریف حکومت موجود تھی جب قرضہ ناک رگڑنے کے بعد منظور کیا گیا تھا۔ اس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس قرضہ کی پہلی قسط موجودہ حکومت ( شہباز حکومت) کو ملے گی۔ دوسری قسط انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں قائم ہونے والی نگران حکومت کو حوالے کیا جائے گا اور تیسری اور آخری قسط انتخابات کے انعقاد کے بعد قائم ہونے والے حکومت کے حوالے کیا جائے گا۔ ابھی اس ادا کئے گئے قرض کی دوسری قسط بھی پوری طرح ادا نہیں کی گئی ہے لیکن آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے حکومت پاکستان کو ہدایات دینا شروع کر دی ہیں اور ان پر عمل در آمد بھی چاہتے ہیں۔ ورلڈ بنک نے حال ہی میں کہا تھا کہ زرعی آمدنی پر ٹیکس نافذ کیا جائے اور غیر منقولہ جائیداد پر ٹیکس عائد کیا جائے۔ حکومت نے ہدایات پر عمل در آمد کے سلسلے میں قابل ذکر کوئی قدم نہیں آ ٹھا یا ہے۔ یہ حکومت کا عمومی رویہ ہے ۔ جب اسے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے تو بلبلاتی ہے، گڑگڑاتی ہے۔ اب تک تو یہ ہی ہوتا آرہا تھا کہ کسی طہ کسی طرح قرض منظور ہو جاتا تھا اور ادا بھی کر دیا جاتا تھا۔ لیکن اب تک کا جو آخری قرضہ منظور کیا گیا اس دوران آئی ایم ایف کے تیور بدلے ہوئے تھے۔ اس نے حکومت پاکستان سے قدم قدم پر وضاحتیں حاصل کی۔ تب کہیں جا کر قرضہ منظور کیا گیا۔
اب کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے انتظامی اْمور بھی ورلڈ بینک طے کریگا ۔ اس کے خیال میں وفاق و صوبوں میں ہم آہنگی نہیں ہے اور ٹیکس وصولی کم ہے۔ ایف بی آر کا ٹیکسز کیلئی نظام پیچیدگیوں کا شکار ہے۔ ماہرین اس خیال کے حامی ہیں کہ پروفیسر ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق ’ آئی ایم ایف اب پاکستان میں سٹرکچرل ریفارمز کی طرف بڑھ رہا ہے اور پاکستان کو ٹیکس قوانین میں ترامیم بھی اس حوالے سے کرنا ہوں گی جس کے لیے حکومت پاکستان نے ڈرافٹ بھی تیار کر لیا ہے، جس کے تحت سرکاری افسران کے اثاثے پبلک کیے جائیں گے‘۔
پاکستان اور آئی ایم ایف حکام کے درمیان گزشتہ مہینوں میں ہونے والے مذاکرات میں آئی ایم ایف حکام نے مختلف شرائط حکومت پاکستان کے سامنے رکھی تھیں ، ان میں سے ایک شرط بیورو کریٹس کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنا بھی شامل تھی۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے آئی ایم ایف کی شرط پر عملدرآمد کرتے ہوئے سرکاری افسران کے لیے اپنے اثاثے ظاہر کرنے کو لازمی قرار دے دیا ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق گریڈ 17سے 22تک کے تمام سرکاری افسران اور اْن کے اہل خانہ کو اندرون و بیرون ملک میں موجود اثاثے ڈکلیئر کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ سابق مشیر خزانہ اور ماہر معاشیات ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے پہلی بار سول بیورو کریسی کے اثاثے ظاہر کرنے کا مطالبہ رکھا ہے، لیکن پاکستان پہلا ملک نہیں جس کے سامنے آئی ایم ایف نے یہ مطالبہ رکھا ہو۔ انہوں نے کہا کہ ’ ماضی میں بھی آئی ایم ایف مختلف ممالک کے سامنے اس طرح کے مطالبے رکھ چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے کنونشن کے مطابق آئی ایم ایف کرپشن کے خلاف اس طرح کے مطالبات رکھ سکتا ہے‘۔ اس مطالبے سے ظاہر کرتا ہے کہ اب آئی ایم ایف بھی پاکستان میں کرپشن کو ہائی لائٹ کر رہا ہے۔’ ماہر معاشیات پروفیسر ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف اب پاکستان سے سٹرکچرل ریفارمز کا مطالبہ کر رہا ہے اور آئی ایم ایف نے اپنے موجودہ پروگرام میں یہ شرط رکھی تھی‘۔ انہوں نے بتایا کہ ’ یہ مطالبہ آئی ایم ایف کی جانب سے نیا نہیں ہے، اس پر پہلے بھی بات ہوچکی ہے اور پاکستان نے اس مطالبے پر 2021میں آمادگی ظاہر کی تھی۔ چھٹے مذاکراتی دور میں حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ سرکاری عہدے رکھنے والے بشمول وفاقی کابینہ ارکان کے اثاثے جنوری 2022تک ظاہر کیے جائیں گے‘۔ آئی ایم ایف اثاثے ظاہر کرنے کا مطالبہ کیوں کر رہا ہے؟ سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں کہ ’ ہمارے ملک میں قانون بہت کمزور ہے جبکہ نیب کو بھی کمزور کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ منی لانڈرنگ کے تدارک لیے بھی کافی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، اس لیے یہ سارے عوامل بین الاقوامی سطح پر اب قابل قبول نہیں ہیں‘۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث ٹیکس وصولیاں کم ہو رہی ہیں۔ ٹیکس اصلاحات پر عمل درآمد کرنے سے معیشت میں ٹیکسز کا حصہ دو فیصد بڑھ سکتا ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف 80لاکھ افراد انکم ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں، ٹیکس محصولات میں بڑا حصہ بالواسطہ کٹ ٹیکسوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت 11کروڑ 40لاکھ افراد برسر روزگار ہیں، رئیل اسٹیٹ کیلئے ٹیکس کی شرح کم ہونے کی وجہ سے سرمایہ کاری زیادہ ہے، اس سے پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کا رجحان کم ہے۔ پاکستان میں 90فیصد کاشتکار ٹیکس نہیں دیتے، ایف بی آر کا ٹیکسز کیلئے نظام پیچیدگیوں کا شکار ہے، زرعی آمدن پر انکم ٹیکس کی وصولی بہتری سے ٹیکسوں کا حصہ ایک فیصد بڑھ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ عالمی بینک سے ایف بی آر کیلئے رائز ٹو پروگرام کے تحت 35کروڑ ڈالر ملیں گے لیکن اس سے پہلے عالمی بینک کی طرف سے دی گئی اصلاحات پر عمل درآمد کیا جائے۔
ورلڈ ببنک نے حال ہی میں ایک بار پھر پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ زراعت اور غیر منتقل شدہ جائیدادوں پر ٹیکس نافذ کرے اور ان کی صحیح طور پر نفاذ کا معقول بندوبست کرے۔ اگر پاکستان ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان ایک محتاط اندازے کے مطابق اپنے جی ڈی پی کی آمدنی کا تین فیصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا جو تین کھرب ہونے کی وجہ سے ایک بہت معقول حصہ ہوگا۔ اور اس کی آمدنی میں اضافہ کو سبب بنے گا۔ ورلڈ بنک کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت شدید معاشی دبائو کا شکار ہے اور یہ خسارہ زراعت اور جائدادوں پر ٹیکس لگا کر ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ورلڈ بنک ہو یا آئی ایم ایف، ایشین ڈیولپمنٹ بنک ہو یا قرضہ دینے والے دیگر ادارے، سب ہی کی یہ کہتے کہتے آوازیں بیٹھ گئی ہیں کہ ٹیکس کے صحیح نفاذ اور درست وصولی کا انتظام کیا جائے لیکن حکمران طبقہ کان دھرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے کہ قرضے لے لے کر وہ اپنی ضروریات پوری کر لیتا ہے۔ اس کے رویہ کی روشنی میں باقی سب جائے بھاڑ میں۔ دنیا بھر میں حکومتیں اپنے عوام سے ٹیکس کی وصولی میں کسی قسم کی رعایت نہیں برتتی ہیں۔ جن جن ممالک میں رعایت برتی جاتی ہے ان کا حشر پاکستان جیسا ہوتا ہے۔ اسی حشر سے محفوظ رہنے کے لئے آئی ایم ایف پاکستان میں انتظامی سٹرکچر پر توجہ دینا چاہتا ہے۔ ختم شد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button