Column

اللّٰہ تعالیٰ سے عدل نہیں فضل مانگیں

رفیع صحرائی
نیکی اور بدی انسان کے خمیر میں ہے۔ ہم انسان خطا کے پتلے ہیں۔ جانے اور انجانے میں خطائیں بھی کرتے ہیں اور ہم سے جرائم بھی سرزد ہو جاتے ہیں۔ کبھی اپنے عیبوں پر اکڑیں اور نہ ہی نیکیوں پر غرور نہ کریں۔ اللّٰہ تعالیٰ سے ہمیشہ معافی و مغفرت طلب کرتے رہیں۔ اس کا فضل مانگتے رہیں۔ نیک اعمال کے زعم میں کبھی عدل و انصاف کا تقاضہ نہ کر بیٹھیے گا کہ ہم خاکی انسان عدل کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
یہ حقیقت تھی کہ خیر دین بے گناہ تھا۔ اس پر ناحق قتل کا کیس بن گیا تھا۔ انسان تو کیا اس نے کبھی کسی چڑیا کے بچے کو بھی نہ مارا تھا مگر اس وقت وہ قتل کے ملزم کی حیثیت سے جیل میں قید تھا۔ اس کے پاس اپنی بے گناہی کا کوئی ثبوت بھی نہ تھا۔ جب پولیس لاش اٹھا رہی تھی تو خیر دین جائے وقوعہ کے قریب سے گزر رہا تھا۔ پولیس نے مشکوک سمجھ کر پوچھ گچھ کی تو وہ وہاں اپنی موجودگی کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکا اور پولیس کو اپنی ’’ ایفی شینسی‘‘ دکھانے کا موقع مل گیا۔ اب وہ جیل میں تھا۔ بیوی اور بیٹوں نے کافی بھاگ دوڑ کی، اچھا وکیل بھی کر لیا جو ہر تاریخ پر اسے تسلی دیتا تھا کہ ’’ فکر مت کرو، کیس میں کچھ بھی نہیں۔ تم رہا ہو جائو گے‘‘۔
مگر 302کے کیس کی اپنی ہی دہشت اور اثرات ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں اگر کسی درخت پر 302لکھ دیا جائے تو وہ بھی سوکھ جاتا ہے۔ خیر دین تو پھر بھی جیتا جاگتا، گوشت پوست کا بنا ہوا انسان تھا جو جذبات و احساسات رکھتا تھا۔ جب تک وہ جیل نہ آیا تھا بس کبھی کبھار ہی نماز پڑھا کرتا تھا مگر جیل میں آنے کے بعد وہ پانچ وقت پابندی سے فرض نماز پڑھنے کے علاوہ تہجد گزار بھی ہو گیا تھا۔ باقی وقت وہ ذکر اذکار میں گزار دیتا تھا۔ اٹھتے بیٹھتے ایک ہی دعا اس کے لبوں پر ہوتی تھی
’’ یا اللّٰہ! تیرے سامنے تو سب حقیقت عیاں ہے۔ تُو جانتا ہے قتل میں نے نہیں کیا۔ میرے ساتھ انصاف کر میرے مولا‘‘۔۔۔! فیصلے سے پہلے والی تاریخ پیشی پر جج صاحب کے سامنے بھی بار بار وہ یہی کہتا رہا کہ ’’ جج صاحب میں بے گناہ ہوں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو منصف بنایا ہے۔ میرے ساتھ انصاف کرنا‘‘۔
واپس جیل آ کر بھی وہ ہر وقت انصاف انصاف کی گردان کرتا رہتا تھا۔ ایک رات جانے کس طرح سفید چوغے میں میں ملبوس سفید داڑھی اور نورانی چہرے والے ایک بزرگ باہر سے چلتے ہوئے سلاخوں کے درمیان سے گزر کراس کی کوٹھڑی میں داخل ہو گئے۔ نہ تو انہیں کسی پہریدار نے روکا اور نہ ہی ان کی طرف توجہ دی، جیسے وہ خیر دین کے علاوہ کسی کو نظر ہی نہ آ رہے ہوں۔ وہ باریش بزرگ چلتے ہوئے خیر دین کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے اور اپنی گونج دار آواز میں بولے۔
’’ خیر دین! کل تمہاری فیصلے کی تاریخ ہے۔ کیا چاہتے ہو اور کیا کہتے ہو تم؟‘‘
خیر دین جو اس بزرگ کو سامنے دیکھ کر حیرت اور سکتے کی سی کیفیت میں مبتلا تھا یکدم چونک اٹھا اور بزرگ کے قدموں سے لپٹ گیا
’’ مجھے انصاف چاہیے بابا۔ آپ تو جانتے ہوں گے، میں بے گناہ ہوں۔ ناحق پھنس گیا ہوں۔ میں بس انصاف چاہتا ہوں بابا‘‘ خیر دین نے روتے ہوئے کہا۔
’’ تمہارے ساتھ انصاف ہو گا خیر دین‘‘ بزرگ نے یہ کہا اور جس طرح آئے تھے اسی طرح چلتے ہوئے سلاخوں میں سے گزر کر نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ اب بھی کسی پہرے دار نے ان کی طرف بالکل دھیان نہیں دیا۔
خیر دین کو قرار سا آ گیا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ کوئی اللّٰہ کا برگزیدہ بندہ تھا جسے صرف میرے لیے یہاں بھیجا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کوئی فرشتہ ہی ہو۔ اب خیر دین مطمئن تھا۔ اسے یقین تھا کہ ہر صورت انصاف ہو کر رہے گا اور کل وہ رہا ہو کر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہو گا۔ آخری رات اسے نیند نہیں آئی۔ اس نے تمام رات مصلّے پر گزار دی تھی۔
صبح ہوئی تو خیر دین اطمینان اور بے چینی کی ملی جلی کیفیت کا شکار تھا۔ آج فیصلے کی تاریخ تھی۔ اس کے چہرے پر مایوسی کے بادل چھا جاتے تو اگلے لمحے امید اور حوصلہ پیدا ہو جاتا۔ بے چینی پورے عروج پر تھی۔ آج اس کی زندگی اور موت کے فیصلے کا دن تھا۔ اسے کوٹھڑی سے نکالا گیا اور لے جا کر جج صاحب کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ دل کی دھڑکنیں تیز تھیں اور اس کی تمام حسیات کانوں میں سمٹ آئی تھیں۔ جج صاحب نے اس کے کیس کی فائل پر نظر ڈالی، ایک نظر خیر دین کی طرف دیکھا اور فیصلہ سنا دیا۔
اسے موت کی سزا سنا دی گئی تھی۔
یہ کیا ہو گیا تھا، خیر دین سکتے کے عالم میں ایک ٹک جج صاحب کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ آنکھوں سے آنسو دھاروں کی صورت میں بہہ رہے تھے۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ ’’ یہ کیا ہو گیا۔ یہ کیا ہو گیا۔‘‘
واپس کوٹھڑی میں آ کر وہ بالکل وحشی ہو گیا۔ مصلّے کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دیا۔ تسبیح توڑ ڈالی۔ اپنا گریبان چاک کر ڈالا۔ ساتھ ساتھ چلاتا جا رہا تھا۔
’’ یا اللّٰہ تو نے انصاف نہیں کیا۔ یا اللّٰہ تو نے انصاف نہیں کیا‘‘
بڑی دیر تک یونہی واہی تباہی بکتا رہا اور بالآخر تھک ہار کر زمین پر ڈھے گیا۔ آنسو اب بھی اس کی آنکھوں سے رواں تھے۔ اس نے دیکھا
گزشتہ رات والے بزرگ پہلے ہی کی طرح چلتے ہوئے پھر اس کے پاس آ کھڑے ہوئے۔
’’ کیوں روتا ہے خیر دین؟‘‘
بزرگ نے پوچھا۔
’’ بابا! مجھے سزائے موت ہو گئی۔ بابا میرے ساتھ انصاف نہیں ہوا‘‘ خیر دین اونچی آواز سے رونے لگا۔
’’ تیرے ساتھ انصاف ہوا ہے خیر دین‘‘ بزرگ بابا نے گونجتی آواز میں کہا۔
’’ نہیں بابا! انصاف نہیں ہوا۔ میں قسم کھاتا ہوں قتل میں نے نہیں کیا‘‘ خیر دین نے روتے ہوئے کہا۔
’’ میں جانتا ہوں خیر دین! یہ قتل تم نے نہیں کیا لیکن خدائی انصاف پر شک نہ کرو۔ وہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کرتا‘‘۔
’’ پر میرے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ میں چیخ چیخ کر کہوں گا انصاف نہیں ہوا‘‘ خیر دین چیخ ہی پڑا۔
’’ سنو خیر دین!‘‘ بابا ٹھہری ہوئی آواز میں بولے۔ ’’ آج سے بیس سال پیچھے جا کر یاد کرو، کھیتوں کے درمیان تم ایک بہتے ہوئے نالے کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں لمبی سی چھڑی لیے پانی کے بہائو کی طرف چلے جا رہے تھے۔ تمہاری نظر پانی میں بہتے ہوئے ایک مکوڑے پر پڑی جو اپنی جان بچانے کے لیے کوشش کر کے کنارے کے قریب آ رہا تھا۔ تم نے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی کی نوک سے اسے دوبارہ نالے کے درمیان میں دھکیل دیا۔ تمہارے ہاتھ گویا یہ ایک کھیل لگ گیا تھا ۔ وہ جب بھی کنارے کے قریب آتا تم اسے پانی میں دھکیل دیتے یہاں تک کہ وہ پانی کے اندر ہی مر گیا۔ تمہیں احساس تک نہ ہوا کہ تم نے ایک جان کو قتل کر دیا۔ بیس سال بعد ایک انسان کے قتل کے الزام میں تم بے گناہ پھنس گئے۔ تم نے اپنی ہر دعا میں اللّٰہ تعالیٰ سے انصاف کا مطالبہ کیا۔ ایک مرتبہ بھی اس سے اس کا فضل نہیں مانگا۔ رحم کی التجا نہیں کی۔ ہمیشہ انصاف ہی کا تقاضہ کیا۔ چنانچہ اس نے انصاف کر دیا کہ اس سے بڑا منصف کون ہو سکتا ہے‘‘ یہ کہہ کر بزرگ بابا چلتے ہوئے سلاخوں سے باہر نکل گئے۔
دوستو! ہم نے جانے انجانے میں لاتعداد گناہ کیے ہیں۔ پائوں کے نیچے دے کر جانے کون کون سی مخلوق کو کچلا ہے۔ بے دھیانی میں جانے کتنے لوگوں کی دل آزاری کی ہے۔ اگر اس نے انصاف کر دیا تو کیا بنے گا ہمارا؟ کبھی بھی اللّٰہ تعالیٰ سے انصاف نہ مانگو، گھاٹے میں رہو گے۔ ہمیشہ اس کا فضل اور رحم مانگو، وہ ستّر مائوں سے زیادہ پیار کرنے والا غفور الرّحیم ہے، خطائوں سے ضرور درگزر فرما دے گا۔
عدل کریں تے تھر تھر کنبن اُچیاں شاناں والے
فضل کریں تے بخشے جاون مَیں ورگے منہ کالے
( میاں محمد بخش)
ترجمہ: یا اللہ تیرے عدل کے سامنی بڑی شان والے ذی مرتبہ بھی نہیں ٹھہر سکتے، تیرا فضل مجھ جیسے رُوسیاہ کی بخشش بھی کر دیتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button