ColumnHabib Ullah Qamar

ہولناک زلزلے کے اٹھارہ سال اور متاثرین

حبیب اللہ قمر
اکتوبر 2005ء میں آنے والے ملکی تاریخ کے ہولناک زلزلہ کو اٹھارہ برس مکمل ہو گئے۔ یہ وہ دن تھا جب آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا میں آنے والے زلزلہ سے ایک لاکھ سے زائد افراد جاں بحق اور لاکھوں زخمی ہوئے۔ بلاشبہ یہ ایک عظیم قومی سانحہ تھا جس سے ناقابل تصور نقصانات ہوئے۔ ہر سال جب یہ دن آتا ہے تو ان دردناک واقعات کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جو اس سانحہ کے موقع پر پیش آئے۔ تباہ کن زلزلے سے چند لمحے قبل تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کچھ دیر بعد کیا قیامت برپا ہونے والی ہی۔ اچانک زمین نے ہلنا شرو ع کیا تو زمین میں گاڑے گئے پہاڑوں کے حصے ریزہ ریزہ ہو کر بکھرنا شروع ہو گئے۔ جگہ جگہ سے زمین پھٹ گئی، بلڈنگیں گر گئیں اور سکول، کالجز، قیمتی گھر، دوکانیں اور مارکیٹیں زندہ انسانوں کی قبروں میں تبدیل ہو گئے۔ ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ زلزلہ سے مائوں کی گودیں، بہنوں کے بھائی، باپوں کے سہارے اور عورتوں کے شوہر کھو چکے تھے مگر کوئی ان کی داستان غم سننے والا، ان کے دکھ بانٹنے والا اور زخموں پر مرہم رکھنے والا نہیں تھا۔ سکولوں کے ملبے تلے دبے بچوں کی دلدوز چیخیں بلند ہو رہی تھیں لیکن کوئی انہیں ملبے سے نکالنے والا نہیں تھا۔ ہر طرف لاشوں کے ڈھیر اور زخموں سے چور نڈھال لوگ تھے جو بے بسی کے عالم میں کسی غیبی مدد کے منتظر تھے۔ ان حالات میں سب سے پہلے اگر کسی نے مشکل کی اس گھڑی میں اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کا فریضہ سرانجام دیا تو وہ رفاہی و فلاحی تنظیموں کے رضاکار تھے۔ اگرچہ ان میں سے کئی رضاکار ایسے بھی تھے جن کے اپنے خاندان اور عزیزو اقارب کے لوگ منوں مٹی کے نیچے دفن ہو گئے لیکن انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور چند منٹ بعد ہی جو کوئی جہاں کہیں بھی تھا ، دکانوں اور مکانات کے ملبے تلے دبے لوگوں کو نکالنے میں اپنی پوری قوت صرف کرنے لگا۔ آٹھ اکتوبر کے زلزلہ کے بعد متاثرہ علاقوں میں سب سے بڑا مسئلہ ملبے تلے دبے زندہ بچ جانے والے افراد کو نکالنااور جاں بحق ہونے والے افراد کی لاشوں کی تدفین تھا۔سخت بے بسی کا عالم تھا۔ زخمی مدد کیلئے پکار رہے تھے لیکن انہیں ملبے سے نکالنے کیلئے بھاری مشنری موجود نہیں تھی۔ ان حالات میں مذہبی و رفاہی تنظیموں کے رضا کاروں نے بغیر کسی بھاری مشنری اور جدید آلات کے سینکڑوں افراد کو ملبے سے نکالا اور زخمیوں کو فی الفور طبی امداد دینا شروع کر دی۔ ڈاکٹرز عامر عزیز جیسے انسانیت کے مسیحائوں نے فلاح انسانیت فائونڈیشن کے میڈیکل کیمپوں پر پہنچ کر گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس کی روشنیوں میں مریضوں کے آپریشن کئے اور درختوں کی ٹہنیاں باندھ کر لوگوں کی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑنے کی کوشش کی۔ اس دوران زندہ بچ جانے والے افراد کیلئے تیار کھانے کا اہتمام شروع کر دیا گیا۔ مظفر آباد، باغ اور بالاکوٹ کے زلزلہ متاثرین اس بات کے گواہ ہیں کہ ان تک جو سب سے پہلی خوراک پہنچی وہ انہی جماعتوں کے رضا کاروں نے ہی پہنچائی تھی۔ زلزلے کے بعد لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے مظفر آباد میں پینے کے پانی کی شدید قلت پیدا ہوگئی۔ صرف چند مقامات پر چشمے اور نالے صاف تھے۔ باقی انسانی و حیوانی لاشوں کی وجہ سے پانی پینے کے قابل نہیں تھا۔ اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے مظفر آباد میں فوری طور پر صاف پانی کا بندوبست کیا گیا۔ زلزلے کے دوسرے دن ہی ایف آئی ایف کے مقامی رضا کاروں نے پہلے سے قائم ہسپتال کے ملبے سے ٹوٹا پھوٹا سامان نکال کر عارضی ہسپتال بناکر مریضوں کو علاج معالجہ کی باقاعدہ سہولیات فراہم کرنا شروع کر دیں۔ اسی طرح باغ، بالاکوٹ اور مانسہرہ میں قائم کئے گئے فیلڈ ہسپتال شب و روز متاثرین زلزلہ کی خدمت میں مصروف عمل رہے۔ ان فیلڈ ہسپتالوں کے علاوہ بڑے پیمانے پر میڈیکل کیمپوں اور موبائل ٹیموں کے ذریعے لاکھوں مریضوں کا علاج معالجہ کیا گیا، جن میں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے آپریشنز بھی شامل ہیں۔ یہ اعزاز بھی ایف آئی ایف، جماعت اسلامی اور دوسری رفاہی و فلاحی تنظیموں کو جاتا ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے متاثرین کے لئے خیمہ بستیاں قائم کیں۔ جہاں ہر خاندان الگ طورپر اطمینان کے ساتھ رہ سکتا تھا۔ ان خیمہ بستیوں کی انفرادیت یہ تھی کہ یہاں بچوں کے لئے سکولوں، دینی تعلیم، مساجد وغیرہ کا بھی اہتمام تھا جبکہ خواتین کو سلائی کڑھائی اور دیگر گھریلو کام بھی سکھائے جاتے تھے۔ رضاکاروں نے خاص طور پر دریائے نیلم کے سرکش اور برفیلے پانی کو کراس کرنے کیلئے ربڑ بوٹ اور بلند و بالا مقامات پر پہنچنے کیلئے خچر سروس کا آغاز کیا جسے پوری دنیا میں شہرت ملی اور بین الاقوامی میڈیا کی طرف سے رپورٹیں شائع کی گئیں کہ ان علاقوں میں پہنچ کر ریلیف و ریسکیو آپریشن کر رہی ہے جہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکا، یہی وہ امدادی سرگرمیاں تھیں جنہیں دیکھ کر اقوام متحدہ، یونیسف ، ڈبلو ایچ او اور دیگر عالمی ادارے بھی امدادی سامان کی تقسیم کیلئے رفاہی و فلاحی تنظیموں سے مدد و تعاون حاصل کرنے پر مجبور نظر آئے۔ رفاہی تنظیموں نے بلند پہاڑی دیہاتوں اور قصبوں میں متاثرین کے لیے گھر اور مساجد تعمیر کیں، بچوں کے لیے سکول بنائے اور کروڑوں روپے مالیت کا راشن وغیرہ تقسیم کیا گیا۔ مجھے اس موقع پر مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما راجہ ظفر الحق کی مسلم میڈیکل مشن کے اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں کیا گیا وہ خطاب یاد آرہاہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی ایف کی ریلیف سرگرمیوں سے بلوچستان اور سندھ میں علیحدگی کی تحریکیں دم توڑ رہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی یہ بات بالکل درست ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رفاہی تنظیموں کے رضاکاروں کی قربانیاں ہی ہیں کہ آج آواران اور مشکے جیسے علاقے جو علیحدگی پسندوں کا گڑھ سمجھے جاتے تھے وہاں پاکستان کے حق میں نعرے لکھے دکھائی دیتے ہیں۔ ان جماعتوں کا یہی وہ کردار ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی قوتوں کو ان کی رفاہی و فلاحی سرگرمیاں بھی برداشت نہیں ہیں۔ زلزلہ متاثرین کی مدد کے حوالے سے ایک طرف دینی ، رفاہی و فلاحی جماعتوں کا یہ کردار ہے تو دوسری جانب مظفر آباد، باغ ، بالا کوٹ اور دوسرے شہروں کی تعمیر نو کے لیے حکومت اپنی ذمہ داریاں بخوبی ادا نہیں کر پائی ہے۔ مظفر آباد جیسے شہروں میں حالیہ برسوں میں ترقی ضرور ہوئی ہے، لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوا ہے لیکن کرپشن کی وجہ سے بعض لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ معاوضے وصول کر لیے اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں ابھی تک کچھ نہیں مل سکا۔ شہر میں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی کئی منزلہ پلازے بنا لیے گئے ہیں جو کہ اس علاقہ میں واقعتا خطرناک ہیں اور خدانخواستہ کسی حادثہ کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ پلازے سرکاری سرپرستی کے بغیر تعمیر نہیں ہو سکتے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان معاملات پر سنجیدگی سے غور و فکر کرے اور ہر قسم کی سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر پالیسیاں ترتیب دی جائیں اور ان پر عمل درآمد کرایا جائے۔ زلزلہ کے دوران آزاد کشمیر اور خبیر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں جو سکول ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوئے، ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کی ابھی تک تعمیر نہیں ہو سکی۔ متاثرین کی بحالی کے ادارے ایرا نے کئی سکول بنائے ہیں لیکن مقامی لوگوں کے مطابق ان پر اربوں روپے کے سرکاری فنڈ سے بہت کم پیسے خرچ کیے گئے ، اس لیے کوئی مثالی سکول تیار نہ ہو سکے۔ زلزلے کے بعد نیوبالا کوٹ سٹی بسانے کا منصوبہ بھی بنایا گیا مگر اس پر بھی کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے اعلان کردہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنائے اور متاثرہ علاقوں میں سکولوں کی تعمیر جلد سے جلد کی جائے تاکہ تعلیمی حوالے سے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہو سکیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وطن عزیز پاکستان کو زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات سے محفوظ رکھے اور مصائب و مشکلات میں مبتلا بھائیوں کی ہر ممکن مدد کی توفیق عطا فرمائے ( آمین )۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button