Ali HassanColumn

سندھ میں ایک اور سیاسی کوشش

علی حسن
سندھ میں پیپلز پارٹی اس کے مخالفین کے لئے سومناتھ کا مندر ( اب تک) ثابت ہو رہی ہے۔ کئی کوششیں کامیاب ثابت نہیں ہو رہی ہیں۔ ایک اور کوشش کے طور پر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ( جی ڈی اے)، جمعیت علمائے اسلام ( ف) اور ایم کیو ایم نے سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف اتحاد کا اعلان کیا ہے۔ ان جماعتوں نے عندیہ دیا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں مشترکہ امیدوار کھڑے کریں گے جو پیپلز پارٹی کے امیدواروں سے مقابلہ کر سکیں۔ اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنمائوں کو پیپلز پارٹی کے دور حکومت پر شدید اعتراضات ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ میں 2008سے باقاعدہ حکمرانی کر رہی ہے۔ اس کے مخالفین اسے شکست سے دوچار کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں لیکن اب تک تو انہیں کامیابی نہیں ہو سکی ہے۔ تینوں جماعتوں نے نگراں وزیراعلیٰ جسٹس ( ر) مقبول باقر پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ نگراں وزیراعلیٰ ہائوس پیپلز سیکرٹریٹ بنا ہوا ہے، تینوں نے شفاف انتخابات کیلئے سندھ میں سسٹم توڑنے، صوبائی الیکشن کمشنر کو ہٹانے اور افسران کے بین الصوبائی تبادلے کا مطالبہ بھی کر دیا ہی ۔ کراچی میں بدھ کے روز ایک مشترکہ پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں جی ڈی اے کے رہنما ڈاکٹر صفدر عباسی، فنکشنل لیگ کے رہنما سردار عبدالرحیم، ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اور جے یو آئی کے لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے بااثر سیاسی رہنما علامہ راشد محمود سومرو سمیت کئی سیاسی رہنمائوں نے خطاب کیا۔اس موقع پر رعنا انصار نقوی، خواجہ اظہار الحسن، عرفان اللہ مروت، حسنین مرزا، عبدالرزاق راہموں ، شبیر احمد قائم خانی، علامہ عبدالکریم عابد،جاوید حنیف ، جگدیش اہوجا، خواجہ نوید امین، سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ رہنمائوں کا کہنا تھا کہ وسیع تر اتحاد کے لئے نواز لیگ اور قوم پرست جماعتوں سے بات کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ بعض قوم پرست جماعتیں تو پہلے سے ان کے ساتھ ہیں۔ رہنمائوں کا دعوی ہے کہ وہ لوگ سندھ میں پیپلز پارٹی کا متبادل ہیں۔ انہوں نے پر زور مطالبہ کیا کہ شفاف الیکشن کو یقینی بنانے کے لئے سندھ بھر میں بلدیاتی کونسلز معطل کی جائیں، تینوں جماعتوں نے اکتوبر میں امن مارچ کی حمایت کا بھی اعلان کیا۔ وزیراعلیٰ ہائوس میں بھی سابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے دست راست افسران موجود ہیں، ان افسران کو فوری ہٹایا جائے ورنہ ان کے نام لینے پر مجبور ہوں گے، ان افسران میں میں ایسے بھی افسر ہیں جو سابق چیف منسٹر کے ہمراہ کرپشن کیس میں شریک ملزم اور پری بارگیننگ کر چکے ہیں، ان افسران کے بین الصوبائی تبادلے کئے جائیں۔ جی ڈی اے کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صفدر عباسی نے کہا کہ 15سال میں لوٹ مار میں حصہ لینے والے ابھی بھی وہیں بیٹھے ہیں۔ صفدر مرحومہ بے نظیر بھٹو کی سیکریٹری ناہید خان کے شوہر ہیں۔ صفدر کے بھتیجے معظم عباسی 2018ء کے انتخابات میں لاڑکانہ سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے تھے۔ صفدر کے مطابق پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ میں مدت پوری کی تو سندھ کے عوام نے سکھ کا سانس لیا، عوام کو امید تھی کہ نگراں حکومت آئینی تقاضے پورے کرتے ہوئے غیر جانبدار رہے گی لیکن افسوس عبوری حکومت بشمول نگراں وزیر اعلی کے پیپلز پارٹی کی بی ٹیم کی حیثیت میں کام کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ممکن ہے کہ اس الزام میں وزن ہو لیکن اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ( ر) سید مقبول باقر کی نامزدگی اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور اس وقت کی قائد حزب اختلاف نے مشترکہ طور پر کی تھی۔ نئے اتحاد کو خدشہ ہے کہ صاف و شفاف الیکشن کو یقینی بنانے کے لئے ایسے محرکات اور عمل کو جو دھاندلی اور بدعنوانی کے ذریعے الیکشن پر اثر انداز ہوں، کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔’’ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان نکات کو درست نہ کیا گیا تو یہ الیکشن پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور آئندہ الیکشن متنازعہ ہو جائینگے‘‘۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ تین سیاسی فریقین ایک جگہ ساتھ بیٹھے ہیں۔ تاثر دیا کہ سندھ کارڈ کو استعمال کرینگے۔ سندھ پر بدترین کرپٹ ترین حکومت قائم رہی ہے۔ عوام کھڑے ہونگے، پیپلز پارٹی کے پندرہ سالہ اقتدار کا آڈٹ کرینگے۔ انہوںنے کہا کہ موجودہ وزیراعلیٰ ہائوس پیپلز سیکرٹریٹ بنا ہوا ہے۔ سندھ میں حکمرانی کرنے والی پیپلز پارٹی خراب ترین حکمرانی اور بدعنوانی کی داستانوں کے الزامات کا شکار ہے۔
جی ڈی اے کا قیام 23اکتوبر 2107مء یں عمل میں آیا تھا۔ اس انتخابی اتحاد قائم کرنے کا مقصد حکومت سندھ میں 2008 سے حکمرانی کرنے والی پیپلز پارٹی سے انتخابات میں مقابلہ کرنا تھا۔ اتحاد میں پیر صبغت اللہ شاہ راشدی کی سیاسی جماعت مسلم لیگ فنکشنل، ایاز پلیجو کی قومی عوامی تحریک، سندھ یونائیٹد پارٹی، ممتاز بھٹو کی سندھ نیشنل فرنٹ، ناہید خان اور صفدر عباسی کی پیپلز پارٹی ورکرز، غنویٰ بھٹو کی پیپلز پارٹی شہید بھٹو، مرحوم غلام مصطفیٰ جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی شامل ہیں۔ گو کہ جی ڈی اے پیپلز پارٹی کی جاگیردانہ پالیسیوں اور بڑے زمینداروں کو ٹکٹ دے کر منتخب کرنے کی مخالف ہے لیکن خود جی ڈی اے میں شامل بعض جماعتیں اسی رجحان کا شکار ہیں، جس کی شکایت اسے پیپلز پارٹی سے ہے۔ جی ڈی اے نے 2018ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ناکامی سے دوچار کرنے کی غرض سے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولا پر عمل بھی کیا تھا لیکن جی ڈی اے قومی اسمبلی کی تین اور صوبائی اسمبلی کی 14نشستیں حاصل کر سکی تھی۔ اس دفعہ ایک کیو ایم کو بھی ساتھ ملا لیا گیا ہے۔ لیکن کیا نئی صف بندی عام انتخابات میں موثر ثابت ہو سکے گی۔ پیپلز پارٹی نے بلدیاتی انتخابات میں ایک ایک بلدیاتی ادارے پر اپنے مئیر، چیئرمین وغیرہ منتخب کرا لئے ہیں۔ ان میں بھاری اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جس کے رشتہ دار قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں منتخب ہوتی رہی ہے۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے سیاست کو دوبارہ ڈرائنگ روم میں بند کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی مخالفین میں ایک کمزوری ہے جو ان کی ناکامی کا سبب بن جاتی ہے وہ یہ کہ انتخابات کے موقع پر ایک سے زائد امیدوار ٹکٹ کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ٹکٹ جاری ہونے کے بعد امیدوار تنہا میدان میں رہ جاتاہے باقی تمام لوگ اپنی مصروفیات میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ دلجمعی کے ساتھ انتخابی مہم نہیں چلاتے ہیں۔ ناکامی پر دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
مسلم لیگ ن سے دیرینہ سیاسی وابستگی رکھنے والے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ نئی پارٹی کی ضرورت بھی ہے اور بنے گی بھی۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی خفیہ نہیں بنتی جب بھی بنے گی تو سامنے آجائے گی۔ ان سے یہ خیال وابستہ ہے کہ ملک میں آئندہ انتخابات سے قبل ایک اور سیاسی جماعت بھی قائم کی جا سکتی ہے۔ شاہد خاقان کے ہمنوا ن لیگ کے مفتاح اسماعیل اور پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے وال سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر بھی ہیں۔ حالانکہ عام انتخابات قریب ہو کر بھی دور ہیں لیکن ایک طلاطم موجود ہے۔ پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن اور لطیف کھو سہ کے بارے میں بھی قیاس کیا جارہا ہے کہ یہ لوگ بھی اپنی سیاسی جماعت تبدیل کر سکتے ہیں۔ اگر 9مئی 22ء کا حادثہ پیش نہ آتا تو پاکستانی سیاست میں بہت ساری حیران کن تبدیلیاں ظہور پذیر ہو چکی ہوتیں۔ بعض عناصر نے وہ کچھ کر دکھایا جس کی دور دور تک توقع نہیں تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button