Ahmad NaveedColumn

صادقین کے رنگ کبھی ختم نہیں ہو نگے!

احمد نوید
جو نقش تھے پامال بنائے میں نے
پھر الجھے ہوئے بال بنائے میں نے
تخلیق کے کرب کی جو کھینچی تصویر
پھر اپنے خد و خال بنائے میں نے
صادقین کو خدا نے آرٹ کے لیے پیدا کیا تھا اور آرٹ کو صادقین کے لیے۔ صادقین گھنٹوں خاموشی سے کام کرتے رہتے، ان کا کام بولتا رہتا، رنگ خوشبو اڑاتے رہتے۔ کبھی 12گھنٹے، کبھی 36گھنٹے۔ صادقین کو صرف ایک چیز کی فکر کھائے جاتی تھی کہ میرے رنگ ختم ہو گئے ہیں۔
آج دنیا تسلیم کر چکی ہے کہ صادقین کے رنگ کبھی ختم نہیں ہو نگے!
خود اپنے طریقے میں قلندر میں ہوں
خود اپنے سلیقے میں ہنر ور میں ہوں
خود اپنے بنائے ہوئے آئینوں میں
خود گیر ہوں خود نگر ہوں خود گر میں ہوں
صادقین نے خطاطی کی گود میں جنم لیا۔ ان کے والد سیّد سبطین احمد نقوی کا گھرانہ خطاطی کے حوالے سے مشہور تھا۔ صادقین ہندوستان کے ممتاز علمی شہر امروہہ ( اترپردیش) میں پیدا ہوئے۔ معروف فلم ہدایت کار اور مینا کماری کے شوہر کمال امروہی بھی شہر امروہہ میں پیدا ہوئے تھے، جو جان ایلیا کے چچاذا د بھائی تھے۔ صادقین نے ابتدائی تعلیم آبائی شہر امروہہ ہی میں حاصل کی، بعد ازاں آگرہ یونیورسٹی سے بی اے پاس کیا۔ تقسیم ہند کے بعد صادقین اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آ گئے۔
صادقین کی شخصیت میں پوشیدہ فنکارانہ صلاحیتوں کو سب سے پہلے پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی نے پیہچانا۔1940ء کی دہائی میں وہ ادب کی ترقی پسند تحریک میں شامل ہوچکے تھے۔
صادقین کے فن پاروں کی پہلی نمائش 1954ء میں کوئٹہ میں ہوئی تھی جس کے بعد فرانس، امریکا، مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی ایسی نمائشیں منعقد ہوئیں۔ صادقین کو سب سے پہلے کلام غالب کو تصویری قالب میں ڈھالنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ صادقین کی خطاطی و مصوری کے نمونے فیصل مسجد اسلام آباد، فریئر ہال کراچی، نیشنل میوزیم کراچی، صادقین آرٹ گیلری اور دنیا کے ممتاز ترین عجائب گھروں میں موجود ہیں۔
صادقین کی خطاطی اور مصوری ااتنی منفرد اور اچھوتی تھی کہ ان کے دور ہی میں ان کے شہ پاروں کی نقل ہونے لگی اور بہت سے مصوروں نے جعلی پینٹنگز بنا کر اور ان پر صادقین کا نام لکھ کر خوب مال کمایا جبکہ خود صادقین نے شاہی خاندانوں اور غیر ملکی و ملکی صاحبِ ثروت افراد کی جانب سے بھاری مالی پیشکشوں کے باوجود اپنے فن پاروں کا بہت کم پیسوں میں فروخت کیا۔
ان کی دیوار گیر مصوری کے نمونوں ( میورلز) کی تعداد کم وبیش 35ہے، جو آج بھی سٹیٹ بینک آف پاکستان، فریئر ہال کراچی، لاہور میوزیم، پنجاب یونیورسٹی، منگلا ڈیم، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف جیولوجیکل سائینسز، اسلامک انسٹی ٹیوٹ دہلی اور ابو ظہبی پاور ہائوس کی دیواروں پر سجے شائقینِ فن کو مبہوت کر رہے ہیں۔ صادقین نے جناح اسپتال اور پی آئی اے ہیڈ کوارٹرز کے لیے بھی میورلز تخلیق کیے تھے جو پُر اسرار طور پر غائب ہوچکے ہیں۔
صادقین نے قرآنِ کریم کی آیات کی جس موثر، دل نشیں اور قابلِ فہم انداز میں خطاطی کی وہ صرف انہی کا خاصہ ہے۔ بالخصوص سورہ رحمن کی آیات کی خطاطی پاکستانی قوم کے لئے سرمایہ افتخار ہے۔ غالب اور فیض کے منتخب اشعار کی منفرد انداز میں خطاطی اور تشریحی مصوری اصادقین کے فن کا عروج ہے۔صادقین کو ان کی مصوری کے حوالے سے پاکستان، فرانس، آسٹریلیا اور دیگر ملکوں کی حکومتوں کی جانب بھی سے بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔صادقین کو فن خطاطی اور مصور ی کے ساتھ ساتھ شاعری سے بہت لگائو تھا۔ شاعری کے فن پاروں میں ان کی کتاب رباعیات صادقین یادگار کتاب ہے۔ صادقین نے ایک جگہ کیا خوب لکھا ہے۔
ہیں قاف سے خطاطی میں پیدا اوصاف
ابجد کا جمال جس کا کرتا ہے طواف
بن مقلہ ہو یاقوت ہو یا ہو یہ فقیر
ہم تینوں کے درمیان اسما میں ہے قاف
صادقین کو خدانے صرف آرٹ کے لیے ہی پیدا کیا تھا۔ وہ ایک ایسا درویش صفت انسان تھا، جسے اپنے کام کے سوا کسی چیز سے لگائو نہ تھا۔ کئی لوگوں نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ جب صادقین سے ملاقات ہوئی تو دو گھنٹے کی خاموشی کے بعد واپس لوٹ آئے۔ صادقین 12گھنٹے کام کرتے، کبھی 36گھنٹے ۔ انہیں صرف ایک چیز کی فکر ہوتی تھی کہ میرے رنگ ختم ہو گئے ہیں۔ صادقین کو زیادہ کام کی وجہ سے متعدد بیماریاں لاحق تھیں جن میں بڑا مسئلہ ان کی جگر کی خرابی تھی۔ جب ان کا انتقال ہوا وہ اس وقت بھی کراچی کے فرئیر ہال کی دیوار پر کام کر رہے تھے۔ واہ کیا حسین موت تھی!
یہ 10فروری کا سرد دن تھا۔ صادقین کام کرتے ہوئے اچانک زمین پر گر پڑے ۔ صادقین کو طبی امداد کے لیے لے جایا گیا مگر ڈاکٹروں نے بتایا کہ دنیا کے سب سے بڑے صاحب دل کا دل دھوکہ دے گیا ۔
ر نگ آ ٓج بھی اس کی تلاش میں ہیں۔ کینو س اب بھی اس کی کھوج میں ہیں۔ مگر وہ کسی اور دنیا کی روح تھی۔ وہ کسی اور دنیا کا بندہ تھا۔ جو بھولے بھٹکے سے زمین پر اتر آیا تھا۔ آج وہ یقینا دنیا کے سب سے بڑے آرٹسٹ کے تخت کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا ہو گا اور سوچتا ہوگا کہ اب کس زمین پر اتروں۔
صادقین کو صرف ایک چیز کی فکر کھائے جاتی تھی کہ میرے رنگ ختم ہو گئے ہیں۔
دنیا ختم ہو جائے گی۔ صادقین کے رنگ کبھی ختم نہیں ہو نگے!
تحسین کے تحفے مجھے صائب دیتا
شاباش مجھے عرفی یا طالب دیتا
خط کی مرے داد آج جو زندہ ہوتے
یا شاہجہاں دیتا یا غالب دیتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button