ColumnImtiaz Aasi

بلوچستان میں شورش کیوں؟

امتیاز عاصی
ایک وقفے کے بعد ہم بلوچستان کی بات کریں گے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال اور رقبے کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ شورش اور دہشت گردی کا شکار کیوں ہے ۔ شورش کے پس پردہ محرکات کیا ہیںاوروہاں کے عوام میں احساس محرومی کیوں پایا جاتا ہے جسے ختم کرنے کے لئے کون سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ قارئین قیام پاکستان کے وقت بلوچستان میں قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ چار آزاد ریاستیں تھیں، جن کا کنٹرول برطانوی حکومت کے پاس تھا۔ ان آزاد ریاستوں کے سردار اپنی اپنی ریاست کے مختار کل تھے۔ قلات کی ریاست کے سردار نواب احمد یار خان، لسبیلہ کے جام غلام قادر خان، خاران کے نواب حبیب اللہ نوشیروانی اور مکران کے نواب بھائی خان تھے۔ گویا اس اعتبار سے متحدہ ہندوستان سے براہ راست ان ریاستوں کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ ملک کے وجود آنے کے بعد بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقاء نے محسوس کیا آزاد ریاستوں کو بھی نوزائیدہ مملکت کا حصہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ قائد اعظم بذات خود ریاست قلات کے سردار خان آف قلات میر احمد یار خان کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں اپنی ریاست کا الحاق پاکستان سے کرنے کی درخواست کی۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان طے پایا کرنسی، خارجہ امور اور دفاع وفاق کے کنٹرول میں ہوگا اور باقی تمام امور صوبے کے کنٹرول میں ہوں گے۔ یہ تحریری معاہدہ آج بھی سرکاری ریکارڈ میں موجود ہے جس پر وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن، نواب زدہ لیاقت علی خان اور قائد اعظمؒ کے دستخط ہیں۔ قائد اور خان آف قلات کے مابین ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کے پیش نظر معاملات خراب ہونا شروع ہو گئے۔ ایوبی دور میں خان آف قلات میر احمد یار خان کو گرفتار کرکے کلرکہار کے ریسٹ ہائوس لا کر قید کر دیا گیا جہاں وہ تیرہ برس تک پابند سلاسل رہے۔ اس دوران کچھ لوگ پہاڑوں پر چڑھ گئے جن میں خان آف قلات کے دو بیٹوں اور خضدار کے قریب زاہری کے رہنے والے نوروز خان اور ان کے بیٹوں کو پھانسی دینے سے حالات مزید خراب ہو نا شروع ہو گئے۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں بلوچستان میں دوسرا آپریشن ہوا۔ بھٹو دور میں یہی عمل دوہرایا گیا جس کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دور میں چوتھا آپریشن ہوا۔ جنرل مشرف کے دور میں نواب اکبر خان بگٹی کی موت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ریاست قلات کے سردار نواب احمد یار خان کے پوتے اور خان آف قلات میر دائود جان کے بیٹے سلیمان جان اب بھی برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء میں بلوچستان کو فوجی آپریشن کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنے پیش رو کی تقلید کرتے ہوئے فوجی آپریشن کیا۔ بلوچستان کے عوام نواب نوروز خان کا غم نہیں بھولے تھے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کر دیا گیا۔ بلوچستان کے حالات کشیدہ کرنے میں ان تمام عوامل کا بڑ ا عمل دخل ہے۔ بلوچستان میں سب سے زیادہ مکران میں شورش ہے لاپتہ ہونے والے لوگوں کی سب سے زیادہ تعداد کا تعلق مکران سے ہے۔ جہاں کے رہنے والے زیادہ تر نظریاتی ہیں اور نیشنل ازم پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ قدرتی امر ہے آج کی نوجوان نسل اپنے صوبے کے تمام حالات سے اچھی طرح واقف ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار ہیں۔ پینے کا پانی ناپید ہے سڑکوں کے ساتھ تعلیمی اداروں کا فقدان ہے۔ تعلیمی سہولتوں کی عدم دستیابی اور بے روزگار نہ ہونے کی وجوہات کا فائدہ بھارت جیسے ملک نے خوب اٹھایا۔ بلوچستان سے بھارتی جاسوس کلبوشن کی گرفتاری اس امر کی غماز ہے صوبے کے حالات کی خرابی میں بھارت کا اہم کردار ہے۔ جیسا کہ اخبارات میں رپورٹ ہوا ہے حالیہ دہشت گردی کے تانے بانی بھارتی خفیہ ایجنسی را سے ملتے ہیں۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں سیاسی حکومتوں میں سے کسی نے اس پسماندہ صوبے کی ترقی کی طرف توجہ نہیں دی البتہ پرویز مشرف کے دور میں گوادر کے ساتھ کوسٹل ہائی وے کی تعمیر اور دیگر ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے۔ جب آئین میں لکھا ہے قدرتی وسائل صوبوں کی ملکیت ہوں گے اور سمندر کے تیرہ کلومیٹر ایریا پر کنٹرول صوبے کا ہوگا تو آئین میں لکھی گئی باتوں سے انحراف کی وجوہات سمجھ سے بالاتر ہیں۔ ریکوڈک اور سینڈک دیکھ لیں دونوں منصوبوں پر معاہدے وفاق نے کئے۔ سینڈک چین کو دے کر اس کے عوض ہم نے گوادر بنا لی جبکہ ریکوڈک جیسا عظیم الشان منصوبہ برسوں سے کھٹائی میں پڑا ہے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق ریکوڈک کے کچھ شیئر سعودی عرب کو فروخت کئے جائیں گے اسی ہزار ایکٹر رقبہ سعودی عرب لیز پر دیئے جانے کی شنید ہے۔ ریکوڈک جس پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع ہے وہاں کے رہنے والوں کے لئے ریل گاڑی کے ذریعے پینے کا پانی نوشکی کے قریب احمد وال سے لایا جاتا ہے۔ یہاں زراعت کو ترقی دینی مقصود تھی تو وہاں کے رہنے والوں کو اس طرح راغب کیا جا سکتا تھا جس سے انہیں روزگار مل سکتا تھا۔ ریکوڈک جو قریبا چار ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے صوبائی حکومت کو وفاق سے مل کر وہاں زراعت کو ترقی دی جانی چاہیے تھی۔ ریکوڈک کا کنٹریکٹ بیرک گولڈ کو دینے کے بعد اور سعودی عرب کو شیئر بھیجنے کی بجائے اس علاقے کی ترقی کے لئے اقدامات ضروری تھے نہ کہ دوسرے ملکوں کو اراضی دے کر ترقی کا ہدف پورا ہو سکے گا۔ بلوچستان کا اصل مقدمہ یہ ہے آئین کے مطابق قدرتی وسائل صوبوں کی ملکیت ہیں اسی طرح سمندر کا تیرہ کلو میٹر ایریا صوبے کی ملکیت ہے تو ریکوڈک اور دیگر قدرتی وسائل کے معاملات طے کرنے کا اختیار صوبے کو ہونا چاہیے نہ کہ وفاقی حکومت صوبوں کے قدرتی وسائل اور سمندر کے تیرہ کلو میٹر پانی پر اپنا کنٹرول سنبھالے۔ بلوچستان وفاق کی اہم اکائی ہے جس سے کسی صورت نظر انداز کرنا ملکی مفاد میں نہیں۔ وفاقی حکومت کو صوبے میں بے روزگاری اور تعلیمی سہولتوں کا انتظام کرنا چاہیے تاکہ وہاں کی نوجوان نسل بے راہ روی کی بجائے ملک کے اچھے ثابت ہو سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button