ColumnNasir Naqvi

طوفان میں کشتیاں، گھمنڈ میں ہستیاں

ناصر نقوی

میرے آج کے مکالمے کا عنوان روزمرہ سے الگ ضرور ہے لیکن میری دھرتی پاکستان کے مسائل ایسے ہیں کہ بات جہاں سے بھی شروع کریں جیسے بھی کریں ’’ ختم‘‘ معاشی، سیاسی اور آئینی بحران پر ہی ختم ہو گی، اس لیے کہ جس ریاست میں ’’ روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے گرد زندگی چکر لگاتے لگاتے ایک روز خاک میں مل جائے وہاں اسے ہی مقدر سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی اٹل ہے کہ مقدر سے زیادہ اور وقت سے پہلے وہ کچھ نہیں ملتا جس کی آدم زادے خواہش رکھتے ہیں پھر محنت اور جدوجہد کیوں کی جائے؟ لیکن مالک کائنات جو ’’ جان اور جہان‘‘ کا حقیقی وارث ہے اس کا حکم ہے رزق میرا وعدہ سب کو ملے گا لیکن اس کی خواہش میں کوشش کرو، تم تمنائی بنو، میں عطا کروں گا، تم شکرگزاری بجا لائو، میں اور زیادہ انعام دوں گا، یعنی دینے والا وہی ہے جو زمین و مکاں ہی نہیں، پتھروں کے نیچے بھی رزق دے رہا ہے اس لیے کہ وہ سب سے اچھا انصاف کرنے والا ہے پھر بھی ہم جانتے بوجھتے صرف امیدوں اور معجزوں پر زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ترقی پذیر ہیں ابھی ہمیں ترقی یافتہ بنتے بنتے نہیں معلوم کتنی نسلوں کی قربانیاں دینی ہوں گی لیکن اس بات سے شناسائی کے باوجود راتوں رات ترقی چاہتے ہیں بس یہی وہ خواہش ہے جس نے ہمیں دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے ’’ شارٹ کٹ‘‘ کی تلاش پر گامزن کر دیا ہے اب یہ ہماری مرضی کہ ہم جائز کو ہی جائز سمجھیں یا ناجائز کو بھی حق ، ترقی جان کر گلے لگا لیں۔ دنیا فانی ہے اور انسان اس میں ایک انتہائی نازک بندھن ’’ سانس‘‘ کے تابع ہے سانس سے آس اور آس میں امیدیں، خواہشیں اور ترقی اس لیے کہ ’’ سامان سو برس، پل کی خبر نہیں‘‘ لہٰذا پل پل پر جان نچھاور کرتے ہوئے مستقبل کی فکر کرتے ہیں کیونکہ ہر شخص ’’ لمحہ موجود‘‘ سے آگے بڑھنا چاہتا ہے کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے؟ زندگی چل رہی ہے ، امتحانات اور کٹھن حالات ہوں یا آسانیاں ، وقت گزر رہا ہے غریب، امیر، عام آدمی، خاص آدمی اور اشرافیہ اپنے اپنے انداز میں گزر بسر کر رہے ہیں۔ 76سال آزادی کے بھی گزر گئے۔ ملک دولخت بھی ہو گیا، پھر بھی حقیقی آزادی کا نعرہ موجود ہے۔ 1947ء کی بے سروسامانی سے اب تک کتنے نشیب و فراز آئے، کبھی آمریت، کبھی جمہوریت، صدارتی نظام بھی مقدر بنا اور پارلیمانی نظام بھی چل رہا ہے لیکن معاشی، سیاسی اور آئینی بحران بھی موجود ہے کچھ کہتے ہیں کہ اس ملک نے انہیں کیا دیا؟ میں پوچھتا ہوں کیا نہیں دیا؟ شناخت، پہچان، دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کے لیے ’’ ایٹمی طاقت‘‘ بنا دیا۔ جن کے باپ دادا ایک کلو گوشت لینے کے لیے ہفتہ ہفتہ منصوبہ بندی کرتے تھے۔ ان کے فریزر صرف عیدالاضحیٰ پر نہیں پورے پورے سال بھرے رہتے ہیں، سائیکل سوار آج کروڑوں کی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں ان کی نسلیں امریکہ، برطانیہ ، کینیڈا اور دنیا کے کونے کونے میں موجیں مار رہی ہیں پھر بھی پوچھتے ہیں کہ ہمیں پاکستان نے کیا دیا؟ پاکستانی پاسپورٹ کی دنیا میں قدر نہیں، اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں کہ ان کے رویوں اور جائز ناجائز خواہشات سے ’’ گرین پاسپورٹ‘‘ کو کتنا نقصان پہنچا، سب کے سب صاحب حیثیت اپنے اپنے مفادات میں غلام گردشوں کے بھنور میں پھنسے ہیں اور عام آدمی کو حقیقی آزادی کا بھاشن دے رہے ہیں جبکہ ’’ معاشی، سیاسی اور آئینی بحران‘‘ جیسے مسائل میں کسی عام آدمی، ان پڑھ اور غریب کا کوئی ہاتھ نہیں، لیکن متاثرین میں یہ لوگ شامل ہیں وقت گزر گیا۔ اب بھی وقت ہے کہ مراعات یافتہ طبقہ اپنا احتساب خود کرے کہ اس نے پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے کیا کیا؟ جو ریاست معاشی طور پر مضبوط نہیں ہوتی، اس کے اشرافیہ کے پاس اربوں، کھربوں ہونے کے باوجود’’ ریاست اور پاسپورٹ‘‘ کو عزت نہیں ملتی، لیکن جو ملک معیشت کے اعتبار سے مستحکم ہوں وہاں کے عام آدمی کی عزت بھی ہماری اشرافیہ سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جن ممالک میں سیاسی معاملات آئین اور قانون کے مطابق چلائے جاتے ہیں انہیں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اسی طرح آئین اور قانون کی بالا دستی ہو اور انصاف ہوتا نظر آئے دنیا اس کی مثال دیتی ہے، افسوسناک بات یہی ہے کہ جنرل محمد ایوب خان کے مارشل لاء اور آمریت نے ایسی روایت ڈالی کہ ہماری عزت و توقیر خاک میں مل گئی اور ہمیں ایک نہیں تین مارشل لاء سہنے پڑے بلکہ معاشی معاملات کو مصنوعی طریقے سے بہتر کر کے آنکھوں میں ایسے دھول جھونکی گئی کہ ہمارے سیاسی اور آئینی ادارے ہی نہیں ان کے ذمہ دار انہیں کے راگ الاپنے میں اپنی بقاء سمجھتے رہے لہٰذا میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ان کی اپنی بقاء اور ترقی کے راستے تو انہیں مل گئے لیکن ملک و ملت کی ترقی اور خوشحالی کی راہوں میں رکاوٹیں کھڑی کر گئے ، بھگت سب رہے ہیں۔ وہ کچھ نہیں ہو سکا جس سے اجتماعی فائدہ ہوتا، میں مورد الزام کسی کو نہیں ٹھہرا رہا لیکن یہ کہتے ہوئے بھی تصویر صاف دکھائی دے رہی ہے کہ معاشی، سیاسی اور آئینی بحران کے حقیقی مجرم کون ہیں؟
پاکستان اور پاکستانی قوم نے زیرو سے ہیرو بننے کے لیے بیش بہا قربانیاں دیں اور آج بھی دے رہے ہیں ، ملک کو امن کا گہوارا بنانے کیلئے فورسز کے ساتھ ساتھ عوامی مالی و جانی نقصان بھی کسی سے پوشیدہ نہیں، نئے پاکستان کا خواب، حقیقی آزادی اور انقلاب کا راگ بھی سنا لیکن ’’ مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کی‘‘۔ قوم نے اچھے بُرے دن اور بحران ’’ الحمد للہ‘‘ کہہ کر گزار دئیے۔ موجودہ اتحادی حکومت نے ریاست بچانے اور ملک کے ڈیفالٹ ہونے کی خبر سنا کر سخت فیصلے کر کے عوام کے لیے نئی مصیبتوں کا نزول کر دیا۔
پھر بھی عوام نے وہ احتجاجی رویہ نہیں اپنایا جو ہماری ماضی کی روایات ہیں لیکن معاشی ، سیاسی اور آئینی بحران اسی طرح رقصاں ہیں’’ جیسے تھے جہاں تھے‘‘ کی بنیاد پر وزیراعظم شہباز شریف نے شہباز ’’ سپیڈ‘‘ سے آئینی ترامیم کے ڈھیر لگا دئیی۔ کچھ باعث تعریف اور کچھ باعث تنقید ہیں، پھر بھی نہ عام آدمی کو ریلیف ملا اور نہ ہی بحرانوں کے خاتمے کی کوئی راہ نکلتی دکھائی دے رہی ہے وجہ صرف ایک ہے کہ قاسم کے ابو جو کچھ کر کے ’’ نیا پاکستان‘‘ بنانے کے خواہشمند تھے اس کے نتائج اور پس پردہ حقائق پریشان کن نکلے۔ مان لیا ایسا تھا پھر سوال یہ ہے کہ مریم کے چاچو نے جو کچھ کیا اور جو کچھ نہیں کیا وہ ’’ مصلحت پسندی‘‘ نہیں، اگر عوامی سطح کے سخت فیصلے کئے جا سکتے تھے تو ایسے انتظامی فیصلے اور ترامیم کیوں نہیں ہوئیں جن سے ’’ آئین و قانون‘‘ کی بالا دستی قائم ہوتی؟ ان سوالوں پر پٹواریوں اور کھلاڑیوں کا نقطہ نظر مختلف ہے، ہونا بھی چاہیے کیونکہ یہ دو مختلف پارٹیوں اور سیاسی قیادت کا معاملہ ہے۔ سابق وزیراعظم خان اعظم بات مَیں سے شروع کر کے مَیں پر ختم کرتے تھے ان کا دعویٰ تھا میں انٹی اسٹیبلشمنٹ ہوں، پاکستان میں یکساں انصاف کے مواقع نہیں اور جہاں انصاف نہ ہو وہاں کچھ اچھا نہیں ہو سکتا۔ ان کا فرمان تھا کہ میں چوروں اور لٹیروں کے خلاف ایسی احتسابی کارروائی کروں گا کہ چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا، پکڑ دھکڑ اور جکڑ کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن نتیجہ صفر رہا اور خود آج تک چار بکریوں کا ددھ پی رہے ہیں۔ ان کا اعلان تھا میں کسی کو نہیں چھوڑوں کا، حالات ایسے بدلے کہ اب ایسا لگ رہا ہے انہیں کوئی نہیں چھوڑے گا، پہلے ہر کامیابی پر ’’ مَیں‘‘ نے کا دعویٰ تھا پھر سب کچھ جنرل باجوہ کے سر ڈال دیا۔ اب اپنے حساب کتاب کی باری آئی تو کوئی جواب دینے کو تیار نہیں، گھمنڈ یہی ہے کہ وزیراعظم سے ہر بات نہیں پوچھی جا سکتی۔ جس وقت کی بات کی جا رہی ہے اس وقت میں پاکستان کا وزیراعظم لگا ہوا تھا، ’’ توشہ خانہ‘‘ کے تحائف کا پوچھنا ہے تو اس وقت کے میرے ملٹری سیکرٹری وسیم سے پوچھیں، عدت کا مسئلہ درپیش ہے تو بشریٰ بی بی اور مفتی سعید سے دریافت کریں۔ گھڑی بیچی گئی تو بشریٰ بی بی اور زلفی بخاری جواب دیں، ’’ القادر ٹرسٹ‘‘ کے 190ملین کا مسئلہ ہے تو ریاض ملک اور شہزاد اکبر جواب دیں ، سائفر سازش امریکہ نے کی بھی اس لیے جواب بھی اسی سے مانگا جائے۔ 9مئی کا سانحہ جب ہوا تو میں ’’ نیب‘‘ کی حراست میں تھا جنہوں نے حملہ کیا یا جو شرپسند شریک حملہ تھے، جواب بھی دیں اور اپنے کئے کی سزا بھی بھگتیں۔ فارن فنڈنگ کو کیوں چھپایا؟ یہی بات عارف نقوی بتائیں، بھارتی اور اسرائیلی سہولت کیسے اور کیوں لی؟ یہ بھارت اسرائیل جواب دیں، الیکشن کمیشن کی توہین پر فواد چودھری جواب دہ ہیں، میں تو سپریم کورٹ آف پاکستان کا سند یافتہ صادق و امین ہوں، مجھے جان بوجھ کر شہباز شریف اور ان کے حواری مختلف مقدمات میں پھنسا کر الیکشن سے باہر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ مقدمات کے بعد میں اور میری پارٹی تحریک انصاف پہلے سے بھی زیادہ مقبول ہو چکی ہے یہ لوگ مجھے نااہل کریں یا جیل میں ڈال دیں میں منتخب ہو کر پھر بھاری اکثریت سے آئوں گا اور ایک ایک کو دیکھ لوں گا میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا، سب کو رلائوں گا ۔ لیکن اب حالات بالکل برعکس ہیں سیاسی اور ملکی ماحول میں جو ’’ تانے بانے‘‘ دکھائی دے رہے ہیں ان میں خان کا مستقبل دھندلا ہی نہیں ، نظر ہی نہیں آ رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی ’’ میں‘‘ اور سپر مین ہونے کی گھمنڈ توشہ خانہ، سائفر اور سانحہ 9مئی کی قبروں میں سپرد خاک ہو جائے گی۔ جب مریم کے چاچو مفاہمت اور مصلحت پسندی میں اس حد تک چلے گئے کہ اسٹیبلشمنٹ سے اچھا اور راہ و رسم کوئی جرم نہیں، جبکہ اگر یہی بات خان اعظم سے پوچھی جائے تو ان کا تجربہ بہت کچھ بتائے گا بلکہ وہ صاف کہہ دیں گے پولیس تو صرف بدنام ہے حقیقت میں اسٹیبلشمنٹ ایسا ادارہ ہے کہ جس سے نہ دوستی اچھی نہ دشمنی۔۔۔ کاش یہ باتیں ہمارے سیاستدانوں کو اقتدار سے پہلے یاد آئیں اقتدار سے نکلنے کے بعد نہیں۔ ہم نے ہی نہیں زمانے نے طوفان میں کشتیاں اور گھمنڈ میں ہستیاں ڈوبتی دیکھی ہیں پھر بھی حضرت انسان اپنی گھمنڈ چھوڑنے کو تیار نہیں اور حقیقت اس کی ایک پانی کے بلبلے سے زیادہ نہیں، آج ہے کل نہیں۔۔ اقتدار آنی جانی شے کا نام ہے پھر بھی ’’ اقتدار‘‘ کے ایک نہیں سب بھوکے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button