ColumnJabaar Ch

رنگ سازی

جبار چودھری

پینٹ ( رنگ) کسی برتن کو کیا جائے یا کسی شخصیت کو چڑھایا جائے اس کا مقصد حقیقت کو چھپانا اور اس چیز کو بہتر دکھانے کی کوشش ہوتی ہے۔ پیتل پر اگر سونے کا پانی چڑھا دیا جائے تو وہ سونا نہیں بن جاتا۔ ایک بات اور ہر پینٹ کی ایک شیلف لائف ہوتی ہے ۔وقت گزرنے اور شیلف لائف پوری ہونے پر رنگ اترتا ہے اور اندر سے کھنڈرات برآمد ہوتے ہیں۔ عمران خان صاحب کی شخصیت کے ’’ ٹوئے ٹبے‘‘ ( اونچ نیچ) چھپانے کے لیے بھی طرح طرح کے پینٹ کئے گئے۔ ہمارے ڈی این اے میں ایک چیز یہ بھی شامل ہے کہ ہم جس کو بھی ٹی وی سکرین پر دیکھتے ہیں اسے ہیرو کا درجہ دے دیتے ہیں اور پھر اس کی پوجا شروع ہوجاتی ہے۔ عمران خان صاحب چونکہ کرکٹ کھیلتے تھے توہم لوگوں نے ان کو اس وقت سے زیادہ تر ٹی وی پر ہی دیکھا تو ایک کرکٹ اور دوسرا ٹی وی وہ ڈبل سیلیبریٹی بن گئے۔ ہیرو جب تک پردہ اسکرین پر رہتے ہیں تو ان کو بہت سے گناہ ویسے ہی معاف رہتے ہیں لیکن جب یہ ہیرو سکرین سے نیچے اتر کر سیاسی میدان میں آتے ہیں تو پھر ان کی زندگی اور شخصیت کی جانچ پڑتال شروع ہوجاتی ہے۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں سیاست ویسے ہی ایک کٹھن کام ہے۔عمران خان صاحب سیاست میں آئے تو سب جانتے ہیں کہ انہیں کس طرح کی پذیرائی ملی۔ ان کی پارٹی ٹانگہ پارٹی کہلائی اور بقول اکبر ایس بابر ایک وقت تھا جب ساری پارٹی ان کی سیڈان ( کار) میں پوری آجایا کرتی تھی۔ خان صاحب کی شخصیت پر رنگ روغن اس وقت شروع ہوا جب ان کو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے متبادل اور ملک میں تیسری قوت کے طورپر لانچ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ دو ہزار گیارہ میں خان صاحب کی شخصیت سازی ایک نئے رخ پر شروع کی گئی۔ ان کی شخصیت پر ملمع سازی کی گئی۔ جو جو اچھے پہلو بطور کرکٹ ہیرو لوگوں کے ذہنوں میں تھے ان کا استعمال کرنے کا پلان بنایا گیا۔ انہیں ہینڈ سم کے طورپر پینٹ کیا گیا۔ پرانی عمر کی خواتین تک کی طرف سے جلسوں کے دوران ویڈیوز بناکر سوشل میڈیا کی منڈی میں پھینکی گئیں تاکہ لوگوں کی ذہن سازی کی جاسکے۔ اس طرح لوگوں نے اپنی نظر کے زاویے کو ایک ہینڈ سم پر سیٹ کرلیا۔ پھر ’’ کرش‘‘ جیسی اصطلاحات کو بڑھاوا دیا گیا۔ یہ تاثر دلوایا گیا کہ خان صاحب ملک کی خواتین اور خاص طور پر نوجوان نسل کا کرش ہیں۔ ان کی شخصیت پر نجات دہندہ کا پینٹ چڑھایا گیا۔ سب کو یہ باور کروایا گیا کہ ملک پر حکومت کرنے والی دونوں جماعتیں اس ملک کو کھا رہی ہیں وہ کرپٹ اور چور ہیں جبکہ عمران خان نجات دہندہ ہیں ۔ عمران خان کے ہاتھ میں ’’ تبدیلی‘‘ کی مشعل پکڑائی گئی۔ صاف چلی شفاف چلی اور تبدیلی آئی رے جیسے نغمے بنا کر دئیے گئے۔ ان کی پارٹی کی میڈیا حکمت عملی اور بیانیے بنانے والی ٹیم بہت مضبوط تھی۔ اور وہ پاکستان سے باہر تھی۔ امیج بلڈنگ اور برانڈ سازی کے لیے خاص طورپر ایڈورٹائزنگ کے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ تاکہ کوئی کمی کجی باہر نہ آسکے۔ خان صاحب کی شخصیت کے گرد ایک پینٹ یہ بھی چڑھایا گیا کہ وہ بہت بہادر ہیں۔ وہ بہت بڑے فائٹر ہیں وہ ہر کھیل جیتنا جانتے ہیں۔ یہ اصطلاحات اس لیے لوگوں نے قبول کر لیں کہ وہ ورلڈ کپ جیت چکے تھے۔ خان صاحب نے سیاست کو بھی کرکٹ کے تناظر میں ہی دیکھا۔ لیکن سیاست کا میدان ایک بہت ہی مختلف میدان ہوتا ہے۔ یہاں ہیرو بن کر آنے والے مسائل سے ایسی پھینٹی کھاتے ہیں کہ وضاحتوں میں مدت گزر جاتی ہے۔ نہیں یقین تو عمران خان صاحب کی بطور وزیراعظم تقریریں سن لیں سب سمجھ آجائے گی۔ خان صاحب کی شخصیت کے تمام رنگ چونکہ اوریجنل تھے ہی نہیں اس لیے جب بھی انہیں حالات کی ذرا سی دھوپ لگی وہ اترنا شروع ہوگئے۔ ان کے دور میں سانحہ ساہیوال ہوا تو لوگوں کے لیے ان کی ہمدردی۔ اصول پرستی۔ ظالم کے خلاف مظلوم کے ساتھ والے رنگوں کی تہہ پگھل گئی۔ نقطہ عروج وہ تھا جب بطور حکمران عمران خان نے مقتولوں کے لواحقین سے تعزیت اور پرسہ کے لیے ان کے گھر جانے کی بجائے لواحقین کو گورنر ہائوس لاہور بلاکر سامنے بٹھا کر تعزیت نما کوئی چیز کی۔ اس قوم نے مشکل وقت میں حکمرانوں کو اپنے در پر آکر شفقت کا ہاتھ رکھتے دیکھا تھا لیکن خان صاحب کی شخصیت کا یہ اصل رنگ دیکھ کر دل ہی کھٹے ہوگئے۔ اوپر سے ان کی سرکار مقتول لواحقین کے بجائے قاتل پولیس والوں کے ساتھ کھڑی ہوگئی ۔ پھر کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے قتل عام کے بعد دھرنے نے خان صاحب کی شخصیت کے اس انسانی پہلو کی دھجیاں اڑا دیں۔ ملک کے وزیراعظم نے کوئٹہ جانے کے پہلے جنازے اٹھانے کی شرط رکھ چھوڑی ۔ خان صاحب کی شخصیت پر ایک پینٹ یہ چڑھایا گیا کہ وہ بہت ایماندار ہیں۔ ان کی حکومت میں ان کی کردار سازی ایسے کی گئی کہ اوپر ایماندار ہوتو نیچے کرپشن ہو ہی نہیں سکتی۔ جب وہ حکومت میں آگئے تو کرپشن کا وہ بازار گرم ہوا کہ ایمانداری والا رنگ پھیکا پڑنے لگا۔ جنہوں نے پینٹ کیا ہوا تھا وہ فکرمند ہونے لگے تو اس کو ٹوسٹ کیا گیا کہ ’’ اکیلا خان وچارا کی کرے‘‘ وہ فرشتے کہاں سے لائے۔ اسی ملک سے ہی لوگ لگانے ہیں لیکن وہ خود تو کرپٹ نہیں ہے نا۔ جب یہ ایمانداری والی نعرے بازی چل رہی تھی تو اس وقت توشہ خانہ کے قیمتی تحائف دیکھ کر خان صاحب کی نیت خراب ہوچکی تھی ۔ ان کو تو اللہ نے سب کچھ دے ہی رکھا تھا اس لیے ممکن ہے ان کی نیت خراب نہ ہوئی ہو کسی اور کی ہوگئی ہو گھر میں سے لیکن حکمران تو وہ تھے اس لیے کسی نے بھی کچھ کیا ہوا جواب تو ان کو دینا تھا سو دینا پڑا۔ ایمانداری والا رنگ بے ایمانی میں بدلتا گیا۔ القادرٹرسٹ کے لیے زمین کے لالچ نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اور اب توشہ خانہ نے ان کو جیل کا خانہ دکھا ہی دیا ہے۔ میں مکافات عمل کی بات بھی چھوڑ دیتا ہوں اور توشہ خانہ کے میرٹ پر بھی بات نہیں کر سکتا کہ خان صاحب نے از خود یہ کیس میرٹ پر نہیں لڑا۔ سارا فوکس ٹیکنیکل انصاف پر رکھا۔ تاخیر کرنے کے لیے ملک کا سب سے مہنگا وکیل کرلیا لیکن ہونی ہوکر رہتی ہے۔ میں کیس کے میرٹ پر اس لیے بھی بات نہیں کر رہا کیونکہ اگر کسی کو حکمران کے احتساب کا معیار چیک کرنا ہے تو میری گزارش ہے کہ وہ عمران خان صاحب کی دو ہزار چودہ سے لے کر اٹھارہ تک کی تقریریں سن لے کہ حکمران کے احتساب کا پیمانہ کیا ہونا چاہئے ۔میں نے تو کم از کم انہی سے یہ پیمانے سیکھے ہیں ۔ وہ اپنے جلسوں میں حضرت عمرؓ کی چادروں کا حساب دینے کے واقعات درجنوں بار دہرا چکے ۔ ریاست مدینہ میں حضرت فاطمہ ؓ کے ہاتھ کاٹنے کی مثالیں قوم کو ازبر کروا چکے اس لیے توشہ خانہ سے تحائف لے کر ان کو بیچنا اور پھر ڈکلیءرنہ کرنا تو بہت ہی گھنائونا کام ہے عمران خان جیسے ریاست مدینہ کے دعویدار کو تو تحائف کی طرف دیکھنا بھی اپنے لیے جرم قرار دینا چاہئے تھا۔ کہ میرے نبی اکرمؐ کی بارگاہ میں کھجوروں کے ڈھیر پیش کئے جاتے اور میرے آقاؐ اس وقت تک گھر تشریف نہ لے جاتے، جب تک اس ڈھیر کو روزانہ لوگو ں میں تقسیم نہ کر دیتے ۔ ان کا اسوہ تو یہ سکھاتا ہے لیکن صرف ’’ اسلامی ٹچ‘‘ سے کام چلانے کی کوشش اس طرح انسان کی شخصیت سے پینٹ اتار کر اسے ننگا کر دیتی ہے۔ عمران خان صاحب کی بہادری کا پینٹ ان کی گرفتاری کے وقت اتر گیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا۔ لوگ ان کو بہادر مان لیتے اگر خان صاحب اس کیس میں روز عدالت میں کھڑے ہوکر تاریخ بنواتے۔ فیصلہ سننے کے لیے وقار کے ساتھ جج کے سامنے جاتے ۔ فیصلہ جرات کے ساتھ خود سنتے۔ درجنوں کیمروں کے سامنے اپنا بازو ہتھکڑی کے لیے پیش کرتے۔ عدالت سے کیمروں کی آنکھوں کے سامنے باہر نکلتے۔ وکٹری کا نشان بناتے۔ مسکرا کر جیل جاتے تو لوگ ان کو بہادر کہتے۔ دلیر کہتے۔ حوصلہ مند کہتے ۔ ان کے لیے سیاسی ہمدردی کی نئی لہر پیدا ہوتی ۔یہ تصاویر اور مناظر حکمرانوں کا سالوں پیچھا کرتیں۔ ن لیگ پانچ سال اس ایک جملے کو بیچتی رہی کہ نوازشریف بیمار بیوی کو چھوڑ کر جیل جانے کے لیے واپس آیا۔ خان صاحب کے کارکن کیا بیچیں گے کہ عمران خان اتنا بہادر تھا کہ ایک فیصلہ سننے کے لیے عدالت نہیں گیا؟ وہ اپنے گھر سے گرفتار ہو گیا؟اس کی گرفتاری کی نہ کوئی تصویر نہ ویڈیو ؟ پتہ نہیں وہ میڈیا حکمت عملی بنانے والی فرمیں کہاں چلی گئی ہیں جو خان صاحب کو اس اہم ترین موقع کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے پر ہی قائل نہ کر سکیں؟ کیا حکمت عملیاں بنانے والے کہیں چلے گئے ہیں یا عمران خان صاحب کی بہادری والا پینٹ بھی ایک گرفتاری کی دھوپ سے اتر چکاہے۔۔۔!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button