ColumnTajamul Hussain Hashmi

اٹک جیل تک کا سفر

تجمل حسین ہاشمی

ستمبر 2018ء میں میاں نواز شریف اور حنیف عباسی کی بھی اسی جیل میں قید ہونے سے متعلق تصویر منظر عام پر آئی تھی ۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کو بھی اس جیل میں بند کیا گیا ہے۔ صوبہ پنجاب جیل خانہ جات کی ویب سائٹ کے مطابق 1905ء کو قائم ہوئی۔ ویب سائٹ کے مطابق ڈسٹرکٹ جیل اٹک 67ایکڑ،6کنال اور 12مرلے پر محیط ہے۔ اس میں17ایکڑ پر عمارت اور 26ایکڑ پر لائنز اور جیل کالونی موجود ہیں، باقی 22ایکٹر، 2کنال رقبہ کھیتی باڑی کے لئے مختص ہے۔ اٹک کی ضلعی جیل میں 539افراد کو قیدیوں کے طور رکھنے کی گنجائش موجود ہے۔ ویب سائٹ کے مطابق کھیلوں کی مہیا سہولتوں میں لڈو اور کیرم بورڈ ہیں، تعلیم درس گاہ بھی موجود ہے، حفظ قرآن، کمپیوٹر کے مختصر کورسز، الیکٹریکل کلاسز اور ٹیلرنگ کلاسز کی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ اٹک جیل میں طبی عملے کے ساتھ ساتھ انسداد منشیات کا مرکز بھی موجود ہے، ہمارے ہاں سیاسی لیڈروں پر مقدمات کا سامنا اور حوالات جیسے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، آج تک قوم کو یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ ان پر قائم مقدمات سچے یا پھر جھوٹے ثابت کیوں نہیں ہوتے، سالوں چلتے ہیں اور پھر ختم ہو جاتے ہیں، ویسے اگر FIRسے لے کر عدالتی کارروائی اور پھر جیل تک کی خبروں کو دیکھیں، جس طرح غریبوں یا جو اس نظام کے شکنجے میں آ جائے وہ کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ ایک وقت تھا جو جیل جاتا لوگ اس کو اپنا رشتہ دار ماننے سے انکاری ہو جاتے تھے، کوئی اس سے رشتہ داری نہیں کرتا تھا۔ لیکن حالات کیسے بدل گے پتہ ہی نہیں چلا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کے حوالے سے لوگ کافی جذباتی ہو جاتے ہیں لیکن جب ان سے کئے گے وعدوں سے بارے سوال کریں جو 2018ء کے جلسوں کے دوران کئے گئے، حکومت ملنے کے بعد کیا ان وعدوں کی تکمیل ہوئی، خان نے حکومت میں رہ کر بھی اپوزیشن والا رویہ نہیں چھوڑا۔ قعطا یہ نہیں کہوں گا کہ 40سال سے قرضوں میں جکڑی معیشت اور دو پارٹیوں کی تین، تین دفعہ حکمرانی کے بعد سابق وزیر اعظم بہتری نہیں لا سکتے تھے ، لیکن سچ یہی ہے کہ خان نے بھی وہی طرز حکمرانی رکھا جو خود کو پسند تھا، قانون کی بالا دستی کی باتیں کی گئی لیکن رانا ثنا اللہ پر درج ایف آئی ار ظلم ثابت ہوئی، اس کے با وجود قوم میں ایسا جنوں بھر دیا گیا جیسا ملک میں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی، لیکن حکمرانی کے ساڑھے تین سال ماضی کی حکومتوں کی طرز پر چلے گئے، سابق وزیر اعظم بھی وہی کچھ کرتے رہے جو ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کے خلاف کرتے اور حکمرانی کے مزے لیتے رہے۔ توشہ خانہ پر سیاسی جماعتوں کے ساتھ معاشرہ کے طاقتور حلقوں نے ہاتھ صاف کئے اور سابق وزیر اعظم نے بھی وہی کام کیا جو دوسرے لوگوں کرتے رہے اور جناب آج اس کیس میں اٹک جیل میں قید ہیں، وکلا برادری ضمانت کے لیے پر امید ہیں، بات سزا یا ضمانت کی نہیں ہے، جو ٹولہ نواز شریف اور آصف زرداری کے ساتھ چمٹا رہا وہی لوگ چیئرمین تحریک انصاف کے ساتھ تھے، آئندہ وہ نگران حکومت کے ساتھ نظر آئیں گے، سابق دور میں بھی چینی، گندم، آٹے پر سبسڈی پر موجیں کی گئیں، کروڑوں کمائے گئے تھے، ادویات کی قیمتوں میں اضافہ پر اربوں کمائے گئے اور آج بھی کچھ چل رہا ہے۔ یہی لوگ کسی دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ اپنا رومانس بڑھا رہے ہیں، لیڈروں کے جیل تک کے سفر میں وہی لوگوں ہیں جو سیاسی جماعتوں پر اربوں خرچ کرتے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف کے سب وعدے ماضی کے حکمرانوں کی طرح خالی نکلے، لیکن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مفاہمت کی سیاست پروان چڑھانا چاہتی ہے، حقیقت میں وہ مفاہمت لوگوں کو کسی صورت قبول نہیں ہے، نظام سے عوام اتنے خفا کیوں ہیں؟ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کرنا ملکی مفاد میں تھا تو پھر آزمائے ہوئے لوگوں کو دوبارہ کیوں آزمایا گیا، 16ماہ میں ملک کو تو ڈیفالٹ سے بچا لیا گیا لیکن ہزاروں سوالات کو جنم دے گیا ہے، عوام مہنگائی سے پریشان ہیں اور حکومت کی شاہ خرچیاں اپنے عروج پر ہیں، کیسز ختم کروا لئے، اپنے کام سیدھے کر لئے گئے ہیں اور لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے۔ فلاحی تنظیموں کے دستر خوان پر قطاروں میں کھڑے ہیں۔ دو وقت روٹی مشکل بن گئی ہے ۔ ایسی کارکردگی سے ملک میں بہتری ممکن ہو جائے گئی، جہاں حکومت کے ختم ہونے میں چند روز باقی ہوں اور 53 کے قریب قانون پاس کروا لئے جائیں، ایسی قانون سازی پر حکمران جماعت اور اتحادیوں کے اپنے لوگ ناراض ہوں ، ایسے میں نظام کیسے چلے گا، کیا لکھیں، کیا ہو گا، لیکن کچھ اچھا ہوتا ہوا نظر بھی نہیں آ رہا ، ویژن 2035کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے ترامیم سے زیادہ ملکی مفاد میں فیصلے کئے جائیں، یقینا بہتری ممکن ہو گی، پاکستان کے پاس زراعت اور معدنیات کے خزانے ہیں، بس فیصلوں میں محب وطنی کی ضرورت ہے۔ درجن بھر کمیٹیاں، کئی کمیشن بنانے گئے لیکن ان کے نتائج ، فیصلوں پر کارروائی ہوتی ہوئی نظر نہیں آئی، حکومتی کارکردگی کے حوالے سے جب بھی سوالات یا کچھ لکھا گیا تو سیاسی جماعتوں کی طرح پابندیوں کا سامنا رہا اور ان کے ورکر کی طرف سے بد زبانی انتہا تک پہنچ جاتی ہے، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے حکومت میں رہ کر وہ کچھ کیا جو ماضی کی دونوں حکومتیں کرتی رہیں۔ بہتر تھا کہ سابق وزیر اعظم کو وقت پورا کرنے دیا جاتا۔ جمہوریت کے لئے تو اچھا تھا لیکن کسی بھی وزیر اعظم کو حکومتی وقت پورا نہیں ملا۔ لیاقت علی خان نے چار سال 62دن تک حکمرانی کی، نواز شریف نے چار سال 53دن اور یوسف رضا گیلانی نے چار سال 30دن۔ ان کے علاوہ باقی سب کا دورانیہ کم ہے، کوئی تین سال، کوئی ایک سال تو کسی کی حکومت دنوں پر محیط تھی، آگے کیا ہو گیا، حکومت ختم ہونے جا رہی ہے، نگران حکومت پر الیکشن کروانے کی ذمہ داری ہو گی، سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی کی حکومت میں نہ آ سکے تو آگے بھی مشکل نظر آتا ہے کہ وہ پاکستان آ کر الیکشن کو لیڈ کریں گے، کیا ہو گا لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں، ہر کوئی اس سوچ میں مبتلا ہے۔ 35افراد ٹرین حادثہ میں اپنی جان کی بازی ہار گئے، معاشرہ پر طاقتور کا قبضہ ہو چکا، حکومتی رٹ بہت کمزور ہو چکی، مارکیٹ میں تاجر اپنی مرضی سے قیمتوں کا تعین کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button