Columnمحمد مبشر انوار

عقیدہ توحید اور دشمنوں کی مکروہ کوششیں

محمد مبشر انوار( ریاض)

خالق کائنات نے بنی آدم کو عقل سلیم سے نواز کر، اسے خیر و شر کے درمیان امتیاز کا اختیار دے کر، کرہ ارض پر ابنی بندگی کے لئے بھیجا اور اس عارضی دنیا میں زندگی گزارنے کے واضح اصول بیان فرما دئیے۔ مخلوق خدا کے وہ بندے جو احکامات الٰہی کی پابندی عین اللہ رب العزت کی منشا کے مطابق کرتے ہیں، انہیں اللہ رب العزت ’’مومنین‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے جبکہ دیگر مخلوق کو مختلف انداز اور الفاظ میں سیاق و سباق کے مطابق مخاطب کرتا ہے۔ بنی آدم کا خمیر بنیادی طور پر خطا پر رکھا گیا ہے اور ہزاروں سال سے قائم اس کرہ ارض پر مختلف اوقات میں اللہ رب العزت نے بنی آدم کی رہنمائی و اصلاح کے لئے اپنے پیغمبرٌ اور رسولٌ بھی مبعوث کئے کہ جن کا واحد مقصد بنی نوع انسان کو اللہ کی وحدانیت کے متعلق تبلیغ کرنا رہا، ماسوائے محبوبؐ خدا، سرکار دو عالمؐ، رحمت اللعالمین ؐ کہ جن کو اللہ رب العزت وحدانیت کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کا حکم بھی دیا گیا، البتہ جہاد فی سبیل اللہ سے قبل اسلام قبول کرنے کی دعوت لازم قرار دی گئی ہے، بصورت دیگر فیصلہ تلوار کے ذریعہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بذریعہ تلوار فتح حاصل کرنے کے بعد، محکومین کے سامنے پھر دعوت اسلام پیش کرنے کا حکم اور حلقہ بگوش اسلام ہونے پر مساوی حقوق کا حکم، بصورت دیگر بطور ذمی جزیہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جس کے عوض غیر مسلموں کے حقوق کی لازمی حفاظت مسلم حکمران کا فرض ہو گی۔ جزیہ وصول کرنے کے بعد اگر مسلم حکمران ذمیوں کے حقوق کی حفاظت کرنے سے قاصر ہوں تو جزیہ کی رقم مسلم حکمرانوں کے لئے ناجائز و ناحق تصور ہو گی، اس کا واپس کیا جانا مسلم حکمران پر لازم ہے، جو اوائل اسلام میں تاریخ سے ثابت ہے۔ بہرکیف امت مسلمہ/امت محمدیؐ سے قبل تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبران و رسل کے متعلق اللہ کی الہامی کتاب قرآن میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور بطور مسلمان /کلمہ گو، تمام مسلمانوں کے لئے ان پیغمبران و رسل و تین دوسری الہامی کتب پر ایمان رکھنا، انہیں اللہ کے پیغمبر و رسل تسلیم کرنا، ان کی تکریم کرنا، الہامی کتب کی تقدیس کرنا، ایمان کا بنیادی جزو قرار دیا گیا ہے، جس کی عدم موجودگی میں امت محمدیؐ کا کوئی شخص دائرہ اسلام میں نہیں رہ سکتا۔ بطور مسلمان ، ہمارے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم ان پیغمبران و رسل و الہامی کتب پر ایمان لائے بغیر دائرہ اسلام میں داخل ہو سکیں لہذا کسی بھی مسلمان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ ان کی شان میں کوئی گستاخی کرسکے، اس کی ایک مثال حالیہ دنوں میں سویڈن میں دیکھنے کو ملی کہ جہاں ایک بدبخت کی بدکرداری کے باوجود، سویڈش حکومت کی اجازت کے باوجود الہامی کتاب کی بے حرمتی سے گریز کیا گیا اور غیر مسلموں کو دکھایا گیا کہ ہم مسلمان جہاں قرآن کی بے حرمتی کو تسلیم نہیں کر سکتے، وہی کسی بھی حکومت کی اجازت کے باوجود کسی بھی الہامی کتاب کی بے حرمتی کرنا بھی ہمیں گوارا نہیں ہے۔
صد افسوس ! کہ اتنی واضح مثال کے باوجود، غیر مسلموں کی طرف سے نہ صرف آقائے دو جہاںؐ، سرکار دو عالمؐ حبیبؐ خدا کی شان میں دانستہ گستاخی کی جاتی ہے بلکہ مسلمانوں کی دل آزاری کے لئے مقدس کتاب قرآن حکیم کی بے حرمتی بھی کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد فقط بغض و عناد تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کے پیچھے درحقیقت وہ سوچ کارفرما ہے کہ جس کے تحت غیر مسلم مسلسل اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح امت مسلمہ کے دل سے نہ صرف آقائے دو جہاںؐ کی محبت میں کمی کا معیار چیک کیا جائے بلکہ ان کی قرآن سے محبت کو بھی وقتا فوقتا چیک کیا جاتا رہے کہ امت کے خاکستر میں دبی سلگتی چنگاریاں ہنوز موجود ہیں یا وہ بھی راکھ بن چکی ہیں؟ الحمد للہ، ثم الحمد للہ، غیر مسلموں کی تمام تر شرانگیزیوں کے باوجود تن امت مسلمہ اتنی بے حمیت نہیں ہوئی کہ ان شرانگیزیوں کا جواب نہ دے سکے گو کہ اس تن میں وہ جان، وہ گرج، وہ دھاڑ فی الوقت موجود نہیں کہ ایسی شرانگیزیوں کا جواب ماضی کی طرح اپنی تلوار کی تیز ترین دھار سے دے سکے تاہم انفرادی طور پر آج بھی نبی اکرمؐ کی شان میں گستاخان کے سر قلم کرنے کی جرات اس کے نوجوانوں میں موجود ہے، جس کا مظاہرہ یہ قوم کبھی غازی علم الدین شہید کی صورت تو کبھی عامر کی شکل میں سامنے آتی رہتی ہے۔ تسلیم کہ امت مسلمہ اس وقت ٹکڑوں میں بٹی، اغیار کے ہاتھوں میں کھلونا بنی نظر آتی ہے کہ جدید علوم سے بے بہرہ، قیادت سے محروم اس امت کے لئے بے شمار مسائل ذاتی مفادات کی اسیر قیادتوں نے کھڑے کر رکھے ہیں، جن کے باعث امت مسلمہ کی تمام ریاستیں اپنی حفاظت و معیشت کے لئے اپنے دشمنوں پر انحصار کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ جو مسلم ریاست بھی اپنے وسائل کے بل بوتے پر، ان کے بھروسے پر اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتی ہے، اسے حیلے بہانوں سے، درون خانہ میر جعفروں اور میرصادقوں کی مدد سے منہ کے بل گرانے میں دیر نہیں لگاتے، یوں ہوس اقتدار میں دشمنوں کی چالوں کا شکار ہوئے جاتے ہیں۔
قرآن میں تحریف کی کوششیں بہت پرانی ہیں اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ صلاح الدین ایوبیؒ کے دور جہاد میں بھی یہودی و نصرانی جس چیز سے خائف رہے اور اس میں تحریف کی کوششوں میں مشغول رہے، وہ قرآن کریم کی تفسیر و تشریح کے ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ تھا۔ اس دور میں یہودیوں اور نصرانیوں نے ایسے علماء تیار کئے کہ جن کا واحد مقصد مسلم ریاست کے ان علاقوں میں نو مسلموں کو اسلامی تعلیمات کو بذریعہ غلط قرآنی ترجمہ و تفسیر و تشریح کرکے ،اسلامی عقائد سے دور ہٹانا تھا۔اس میں بالخصوص جہاد سے متعلق آیات پر نو مسلموں کو ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کرکے لشکر اسلام کو زک پہنچانا رہا ہے، جو آج تک جاری و ساری ہے۔ حتی کہ اٹھارویں صدی میں بھی ،جب برطانیہ کا اقوام عالم میں طوطی بول رہا تھا، انگلینڈ کے دور دراز علاقوں میں ایسی خانقاہیں موجود رہی ہیں کہ جہاں نصرانیوں کو اس قبیح فعل کے لئے تیار کیا جاتا تھا کہ نہ صرف ان کی ظاہری شکل و صورت مسلم زعماء و علماء سے ملتی تھی بلکہ ان کو اسلام کے متعلق باقاعدہ ایسی تعلیم دی جاتی کہ وہ انتہائی اعتماد کے ساتھ مسلم معاشرے میں داخل ہو کر، اسلامی عقائد کو بگاڑنے کا کام سرانجام دیتے۔ یہ نقب زنی آج بھی کسی نہ کسی صورت بہرطور جاری ہے اور اسلامی معاشرے کو کھوکھلا کرنے کے لئے مسلسل اس پر عملدرآمد ہو رہا ہے، یہاں اس امر کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کا ایک عام آدمی بھی اس میں قصوروار ہے کہ وہ ازخود دین کی تعلیم حاصل کرنے سے گریزاں نظر آتا ہے اور دین کا ٹھیکہ بہرطور ملا کو دے کر خود کو بری الذمہ سمجھتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت کی وحدانیت سے دانستہ، نادانستہ یا لاعلمی میں روگردانی کرتا نظر آتا ہے۔ گلی محلوں میں بیٹھے، عاملوں کے سامنے دوزانو آج کا مسلمان ، انہیں ہی اپنا مشکل کشا سمجھتا ہے، نعوذ باللہ، اللہ کریم ہمارے کردار کو بدلنے پر قادر ہے لیکن اس کے لئے ہمیں طالب ہدایت ہونا پڑے گا، دوسری طرف ایک اسلامی معاشرے میں حکومت وقت کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے عاملوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرتے ہوئے، ان کی دکان داریوں کو بند کروائے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمران خود ان عاملوں کے در پر اقتدار کی بھیک مانگنے جاتے ہیں، وہ کیسے اس کاروبار کو بند کروا سکتے ہیں کہ وہ خود ضعیف الاعتقاد نظر آتے ہیں۔
ایک گروپ میں مثلث توحید کی ایسی ہی قبیح واردات کا علم ہوا ہے کہ امریکہ میں بین المذاہب، مشترک خصوصیات کی بنیاد پر ایک نیا مذہب تشکیل دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور الہامی کتب میں سے مشترک اصول اکٹھے کرتے ہوئے بنی آدم کو اس میں سمونے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ ساڑھے14سو سال سے قرآن کا چیلنج آج بھی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا ہے کہ جس میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ ’’ اس جیسی ایک سورہ ہی بنا لائو اگر تم سچے ہو‘‘، لیکن اس کے جواب میں کائنات کا ایک شخص بھی پورا نہیں اتر سکا اور میرا ایمان ہے کہ نا قیامت کوئی بھی شخص اس پر قطعی پورا نہیں اتر سکتا کہ یہ میرے رب کریم کا چیلنج ہے۔ رب کریم کے اس دعوے پر میرا کامل ایمان ہے اور مجھے یقین ہے کہ عقیدہ توحید کے خلاف جاری دشمنوں کی مکروہ کوششیں تا قیامت پوری نہیں ہو سکتی، چاہے وہ کتنا ہی زور کیوں نہ لگا لیں اور نہ ہی امت محمدیؐ کے دلوں سے اس محبت کو ختم کر سکتی ہیں، ان شاء اللہ۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button