ColumnImtiaz Ahmad Shad

نازک دور

امتیاز احمد شاد

جب نیت بد ہو جائے، غلطیاں تسلیم کرنے کے بجائے بار بار غلطیاں دہرانے کی لت پڑ جائے تو سمجھ لو نصیحت بے معنی ہے۔ حرف آخر اور عقل کل سمجھے جانے والے خود ساختہ ماہرین جب امور ریاست پر حاوی ہو جاتے ہیں تو یقینا مشاورت کا عمل رک جاتا ہے اور ریاست، سیاست اور معیشت چند لوگوں کی لونڈیاں بن جایا کرتی ہیں۔ ایک مرتبہ پھر ماحول بنایا جا رہا ہے، عوام کی ذہن سازی کی جاری ہے کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ قوم کو یہ نوید پھر سنائی جارہی ہے کہ اگلے دو سال مشکل کے ہیں اس کے بعد آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ شاید اس کی وجہ وہ ایجنڈا ہے جس کے مطابق دو سال کے لئے عبوری سیٹ اپ قائم ہونے جا رہا ہے۔ بہت سے لوگ قبروں میں چلے گئے، بڑھاپے کی حدوں تک پہنچ جانے والے پاکستانی اپنی پیدائش سے یہی سنتے چلے آ رہے ہیں کہ ملک ’ نازک دور‘ سے گزر رہا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے والے پاکستان میں یہ نازک دور ایسا ہے کہ کبھی ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ پاکستان کو درپیش بحرانی اقتصادی اور مالیاتی حالات سے لے کر اس جنوبی ایشیائی ملک میں بے روزگاری، عدم مساوات اور آبادی میں اضافے کی دھماکہ خیز رفتار تک جملہ مسائل میں سے کوئی بھی آج تک اس لیے مستقل طور پر حل نہیں ہوا کہ اس ملک کے حکمرانوں نے اپنی سیاست اور ترجیحات کی بنیاد ہمیشہ صرف ’ اگلے الیکشن ‘ کو ہی بنایا ہے۔ یہ بات آج تک کتنے حکمرانوں نے سوچی ہے کہ آزادی کے وقت اس ملک کی جتنی آبادی تھی وہ اب کہاں پہنچ چکی ہے؟ حالانکہ اپنے آزاد اور خود مختار ریاستی وجود کی اب تک کی عمر کے پہلے آدھے حصے میں ہی یہ ملک آدھا رہ گیا تھا۔ گزشتہ نصف صدی سے بھی زائد عرصے میں موجودہ پاکستان نے سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے بارے میں سوچتے ہوئے خود سے کبھی یہ سوال بھی نہیں پوچھا کہ بنگلہ دیش مسلسل آگے کیسے جاتا جا رہا ہے اور پاکستان مسلسل پیچھے کیوں؟ستم ظریفی یہ کہ ایسے سوالات اٹھانے والوں کو ہی اٹھا لیا جاتا ہے۔ ایسے بہت سے سوالوں کا جواب شاید یہ ہے کہ پاکستانی پالیسی سازوں نے یا تو صدق دل سی ملکی ترقی کے لیے کوئی طویل المدتی پالیسیاں بنائی ہی نہیں اور اگر کبھی بنائی بھی تھیں تو ان پر عمل نہیں کیا گیا۔ اس طرز عمل کا ذمے دار ہمیشہ ’ ناگزیر حالات‘ کو ٹھہرایا گیا۔ پاکستان کے چوبیس کروڑ سے زائد شہریوں میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو اپنے ملک کو ’ اسلام کا قلعہ‘ قرار دے کر اس پر فخر کرتے ہیں۔ انہیں ایسا کرنا بھی چاہیے۔ لیکن یہ بات کیا کسی غیر پاکستانی کو سوچنا ہو گی کہ پاکستان، جو ایٹمی طاقت کا حامل دنیا کا واحد مسلم اکثریتی ملک ہے، گزشتہ کئی برسوں سے اپنے ذمے ادائیگیوں کے قابل نہ رہ جانے کے مسلسل خطرے کا شکار کیوں ہے؟ کیا یہ خطرہ ممکنہ ریاستی دیوالیہ پن ہی کا دوسرا نام نہیںہے؟، کرنسی کی شرح تبادلہ اور اس کی قدر میں مسلسل گراوٹ کو دیکھا جائے تو پاکستانی روپے کا شمار دنیا کی انتہائی کمزور اور عدم استحکام کا شکار کرنسیوں میں ہوتا ہے۔ یورو، پائونڈ اور ڈالر کو تو چھوڑیں پاکستانی روپیہ حریف ہمسایہ ملک بھارت کے روپے کے مقابلے میں بھی بے وقت ہے۔ جب کہ ماضی میں بھارت کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ مضبوط رہ چکا ہے۔ اب ایسا کیوں نہیں؟ پاکستان کی گزشتہ کئی حکومتوں کے اقتدار کے پورے کے پورے عرصے انہی کوششوں میں گزرے کہ زر مبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر کو سنبھالا دینے اور اپنے ذمے ادائیگیوں کو ممکن بنانے کے لیے عالمی بینک یا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرضوں کی اگلی قسط کب ملے گی؟ سن دو ہزار سترہ کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی تقریبا 220ملین کی آبادی میں مردوں کا تناسب 51فیصد اور عورتوں کا تناسب 49فیصد بنتا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند گنے چنے ممالک میں سے ایک بھی ہے جہاں ملکی آبادی میں تیس سال سے کم عمر کے شہریوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کی آبادی میں جتنی زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے اتنی ہی ان میں بے روزگاری بھی زیادہ ہے۔ رہی سہی کسر یہ سماجی رویے پوری کر دیتے ہیں کہ عورت کو چادر اور چار دیواری میں رہنا چاہیے۔ خواتین کو کام نہیں کرنا چاہیے۔ مگر اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ایسے واقعات بھی خواتین کو باہر نکلنے، تعلیم حاصل کرنے اور روزگار کمانے سے روکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستانی خواتین اپنی انفرادی، سماجی اور اقتصادی ذمے داریاں پوری کرتے ہوئے ملکی ترقی کے لیے کوشاں نہیں۔ دیہی علاقوں کی عورتوں سے لے کر شہری علاقوں کی خواتین تک، وہ سب اپنی پوری کوشش کرتی ہیں۔ لیکن انہیں ملکی معیشت اور روزگار کی قومی منڈی میں وہ باقاعدہ مقام یا تحفظ حاصل نہیں جو مردوں کو حاصل ہے۔ پاکستانی معیشت میں خواتین کے کردار کے ناقابل تردید اثرات کو حکومتی اور قومی سطح پر تسلیم کرتے ہوئے خواتین کو بھی مردوں جتنی ہی اقتصادی پیداواری کارکن بننے کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا؟ پاکستان آج بھی زیادہ تر ایک زرعی معیشت ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ آج بھی ناخواندہ ہے اور کئی ملین بچے آج بھی حصول تعلیم سے محروم ہیں۔ شہری علاقوں کی جو لڑکیاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں ان میں سی بہت سی لڑکیوں کے والدین کا ہدف ان کے لیے اچھے رشتوں کی تلاش ہوتا ہے۔ اگر کوئی تعلیم یافتہ لڑکی کوئی ملازمت شروع کرتی ہے تو شادی کے بعد اکثر وہ بھی چھڑا دی جاتی ہے۔ بہر حال اس نصف آبادی کے حصے کو زنگ آلود کرنے کے پیچھے حکومتی پالیسیوں سے زیادہ معاشرتی رویی ہیں۔ معاشرتی اخلاقی بگاڑ کا صد باب نکالے بغیر حکومتی پالیسیز بھی بے معنی ثابت ہوں گی۔ دوسری جانب پاکستانی حکمران ہر چند ہفتے بعد چند گنے چنے دوست ممالک کے جو دورے کرتے اور ان سے ہر بار چند ارب ڈالر کی جو امداد، قرضے یا مستعار لیا ہوا زر مبادلہ مانگنے جاتی ہیں، اس سوچ ، عادت اور رویے نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ سمت کا تعین کرنے کی دیر ہے ان سب سے بھی ملک کی جان چھوٹ سکتی ہے۔ یہ سب کچھ صرف پلک جھپکنے میں ظاہر ہے نہیں ہو گا، سفر اگر بہت طویل بھی ہو گا تو بھی کوئی تو پہلا قدم اٹھائے۔ پاکستان اگر صرف اپنی افرادی قوت کو ہی مناسب روزگار مہیا کرتے ہوئے ملکی خواتین کی صورت میں اپنے پاس موجود انسانی وسائل کو بھی پوری طرح استعمال کرنا شروع کر دے تو مستقبل میں اس واحد مسلم اکثریتی ایٹمی طاقت کو اپنے دیوالیہ پن کا کوئی خطرہ نہیں ہو گا، چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بے روزگاری کا جن بھی پوری طرح بوتل میں بند ہو جائے گا۔ یوں ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ قومی کرنسی بھی مضبوط ہو گی اور چند ہی برسوں میں ملک کی مجموعی اقتصادی پیداوار بھی دو گنا ہو سکتی ہے۔ جب تک عوامی امنگوں کے مطابق پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کو مرتب نہیں کیا جاتا اور صاف شفاف الیکشن کے ذریعے حکومت قائم نہیں ہوتی اس وقت تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کو درپیش ’ نازک دور‘ بھی ختم نہیں ہوگا، اور نہ ہی ملک میں استحکام آئے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button