ColumnImtiaz Ahmad Shad

پاکستان میں سچ کا قحط

امتیاز احمد شاد

قائد اعظمؒ نے سچ بول کر پاکستان حاصل کرلیا تھا اور ہم جھوٹ بول کر اسے برباد کرنے کے درپے ہیں۔ قیام پاکستان کے چند ماہ بعد جب قومی خزانے میں تنخواہیں ادا کرنے کیلئے پیسے نہ تھے تو بیوروکریسی نے مشورہ دیا کہ عوام کو یہ سچ نہ بتایا جائے۔ قائد اعظمؒ نے فرمایا عوام پاکستان کے مالک ہیں ان سے سچ نہ چھپائیں اور اعتماد میں لیں۔ محسن انسانیت ؐ نے سچ کے اصول پر ریاست مدینہ کو چلایا اور عالم عرب کو فتح کرلیا۔ ہمارے ہاں سچ چونکہ حکمران اشرافیہ کی موت ہے اس لیے پاکستان میں سچ کا قحط ہے۔ جھوٹی شہرت، عزت اور جھوٹ کی بنیاد پر قلعے تعمیر کرتے ہوئے بطور قوم آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں، اس کی تفصیلات، اسباب اور وجوہات سے شاید ہر ذی شعور بخوبی واقف ہے۔ مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا، وہ بنیادی ستون ہیں جن پر کسی مملکت کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ یہ بنیادی ستون ریاست کو بادِ مخالف کے تھپیڑوں سے بچانے میں ہمہ وقت و ہمہ تن مصروفِ کار رہتے ہیں۔ اگر کسی ایک ستون میں بھی ضعف پیدا ہوجائے تو یہ عمارت متزلزل ہو جاتی ہے۔ جہاں چاروں ستون ہی ضعف کی انتہائوں کو چھو رہے ہوں وہاں مملکت کا قائم رہنا کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔ پاکستان کی تشکیل اگر کسی معجزے سے کم نہیں تو اِس کا قائم رہنا بھی معجزہ ہی ہے کیونکہ حالت یہ کہ اِس کے کسی بھی ستون کی کارکردگی لائقِ تحسین نہیں۔ یہ وہ مملکتِ خُداداد ہے جہاں مایوسیوں کے گھٹا توپ اندھیروں میں قوم کی حالت اِس نہج تک آن پہنچی کہ کوئی کسی پر اعتبار کر رہا ہے اور نہ ہی بھروسہ۔ جھوٹ کی ایسی منڈی لگی ہے کہ سچ پورے معاشرے سے ہجرت کر گیا۔ جہاں مقننہ مافیاز کا تحفظ کرے ، عدلیہ طاقتور کی جیب کی گھڑی بن جائے، انتظامیہ ظالم کے ہاتھ کی چھڑی ہو اور میڈیا بھی دولت مندوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہو، وہاں ملک کے نامور تعلیمی اداروں سے سیکس اور منشیات سکینڈلز کا نکلنا اور اساتذہ کے روپ میں بھیڑیوں کا پایا جانا کسی اچنبھے کی بات نہیں۔ فارسی کی مشہور ضرب المثل ہے کہ ’’ ہر عروج کو زوال اور ہر زوال کو عروج ہے‘‘۔ اسی فلسفے کے تحت قوموں اور تہذیبوں کا عروج و زوال بھی ایک فطری عمل ہے جس میں ہر دور کے اعتبار سے کئی اسباب و عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ قوموں کے عروج و زوال کی ان گنت مثالوں سے بھری پڑی ہے، مثلاً بنی اسرائیل دنیا کی معزز و معتبر قوم تھی جس پر انعامات ِ خداوندی کی کثرت سے فراوانی تھی لیکن جب وہ نفس پرستی اور دینی و اخلاقی طور پر دیوالیہ پن اور قوانین و حدود ِالٰہی سے بغاوت کی مرتکب ٹھہری تو مغلوب ہو گئی۔ قرآن کریم نے بنی اسرائیل کی سرگزشت اور دیگر اقوام کے عروج و زوال کے واقعات بڑی صراحت سے بیان فرمائے ہیں جو آج بھی اقوامِ عالم کیلئے عبرت ہیں۔ اسی طرح روما سلطنت تقریباً ایک ہزار سال قائم رہنے کے باوجود بالآخر زوال پذیر ہوئی جس کی کئی سماجی اور معاشی و اقتصادی وجوہات تھیں۔ علاوہ ازیں ایسی اقوام کی طویل فہرست ہے جنہوں نے عروج کے بعد اپنی بد اعمالیوں اور کمزوریوں کے سبب زوال کا مزہ چکھا۔ جب کسی قوم میں بدعملی، بدخلقی اور نا انصافی اجتماعی طور پر آ جائے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ جب ہم حیات انسانی کے ارتقاء پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس کا رخ اجتماعیت کی طرف ہی نظر آتا ہے اور جب وہ فطرت کے خلاف چلیں، قانون قدرت کو بھلا دیں، نافرمانی و گستاخی کریں، اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ اصولوں سے روگردانی اور انحراف کریں تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آ جاتے ہیں۔ قومیں اجتماعی طور پر بدعمل ہو جائیں تو اس کی سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔ اس ضمن میں قرآن کریم میں مختلف قوموں کی تباہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، ’’ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے ہم نے کتنی ہی قومیں ہلاک کر دیں، مزید یہ کہ اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوموں کو پروان چڑھایا‘‘ (سورۃ الانعام: 7)۔ ’’ اور یقیناً ہم نے تم سے پہلے کتنے ہی زمانوں کے لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا جب انہوں نے ظلم کئے حالانکہ ان کے پاس ان کے رسول کھلے کھلے نشانات لے کر آئے اور وہ ایسے تھے ہی نہیں کہ ایمان لے آتے۔ اسی طرح ہم مجرم قوم کو جزا دیا کرتے ہیں‘‘ (سورۃ یونس: 14)۔ جھوٹ، ظلم اور ناانصافی کی لت میں پڑا ہر معاشرہ برباد ہو جاتا ہے خواہ وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی۔ دینِ اسلام نے ہر معاملے میں عدل و انصاف کا حکم دیا ہے۔ کوئی بھی
ملک یا معاشرہ انصاف اور قانون کی حکمرانی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ قانون کی حکمرانی سے معاشرے میں امن و استحکام اور عدل و انصاف رواج پکڑتا ہے اور ہر ایک کو یکساں حقوق میسر آتے ہیں جبکہ ناانصافی اور قانون کی حکمرانی کے بغیر معاشرے میں عدم استحکام کی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے جو اسے جلد یا بدیر زوال کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ پاکستان کی بطور ریاست پون صدی عمر ہے اور یہ اپنی زوال پذیری کے سازو سامان کے ساتھ صد سال کے سفر کی جانب رواں دواں ہے۔ یہ ایسے مسافر کی مانند ہے جس کے پاس نا تو زاد راہ ہے اور نا ہی منزل کا تعین، بلکہ یہ ناانصافی، ظلم اور جھوٹ کے شتر بے مہار گھوڑے پر سوار ہے۔ افسوس بطور قوم ہمارے معدے اس حد تک خراب ہو چکے کہ سچ نام کا وائرس ہمارے پاس سے بھی گزر جائے تو جسم سے بدبودار مادے کا اخراج شروع ہو جاتا ہے، اور اس تعفن زدہ ماحول میں پروان چڑھنے والے سچائی کی خوشبو کو محسوس کرنے سے بھی عاری دکھائی دیتے ہیں۔ ابھی وقت ہے اس حقیقت کو مان لیا جائے کہ پاکستان مافیاز کی آماجگاہ ہے اور ان مافیاز کے سامنے مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا بے بس ہیں۔ پھر بھی اگر پاکستان کی بربادی کے اسباب سمجھ نہیں آرہے تو سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے فرمودات فریم کروا کر گلے میں تعویز کے طورپر ڈال لیں شاید کوئی شرم آجائے ۔ شبر زیدی کہتے ہیں کہ ہائوسنگ سوسائٹیز پر ہاتھ ڈالا تو سابق آرمی چیف متحرک ہو گئے، جنوبی پنجاب کے بڑے زمینداروں کو نوٹس بھیجے تو شاہ محمود قریشی کی قیادت میں 40ارکان اسمبلی آگئے۔ تمباکو مافیا کو ٹیکس نیٹ میں لانے لگے تو اسد قیصر کے ساتھ ایم این ایز آگئے، قبائلی علاقوں میں سٹیل ری رولنگ ملز پر ہاتھ ڈالا تو فاٹا کے 20سینیٹرز چیئرمین تحریک انصاف کے پاس پہنچ گئے۔ اور تو اور جیولرز پر ٹیکس کی بات کی تو اندرونی بیرونی سمگلرز مافیا نے میرا جینا تک محال کر دیا۔ شبر زیدی کا کہنا تھا کہ ایک ایم این اے نصر اللّٰہ دریشک نے کہا کہ تم ابھی بچے ہو، یہ تمہارے بس کا کام نہیں اس کو چھوڑ دو۔ میرے پیارے ہم وطنو! یہ دیگ میں سے ایک چاول ہے جو پوری دیگ کے رنگ و بو اور ذائقے کی خبر دے رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button