Ali HassanColumn

ٹیکس وصولی کیسے ہو

علی حسن

پاکستان کو قرضہ دینے والا بین الاقوامی ادارہ آئی ایم ایف بار بار ٹیکس کی وصولی پر توجہ دینے اور نظام بہتر بنانے پر ر زور دیتا رہا ہے اور حکومت پاکستان خواہ کسی کی بھی ہو، اپنی ضروریات پوری کرنے کے نتیجے میں گردن اور زبان پہلے کر وعدہ کرتی آئی ہیں لیکن ہوتا کچھ بھی نہیں ہے۔ ایف بی آر کی ایک سابق سربراہ شبر زیدی کی ایک چینل پر انٹرویو کے دوران لگی لپٹی کھر کھری اور صاف صاف گفتگو سن کر ایسا لگتا ہے کہ ٹیکس کی وصولی کا نظام پاکستان میں کبھی بہتر نہیں ہونا اور کوئی بھی پاکستانی حکومت کشکول توڑ سکے گی نہ ہی پھینک سکے گی۔ گاڑی کیسے چلے گی، وسائل سے محروم عوام بھیک مانگتی رہے گی اور بھر پور وسائل سے لدے ہوئے خواص لوگ عیش کرتے رہیں گے۔ شبر زیدی کی گفتگو کے خاص خاص نکات آپ بھی پڑھیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ اس ملک میں سیاسی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کیا سوچتی ہیں اور کیا کرتی ہیں۔ اسی سے صاف صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک کا نظام رویوں کو درست کئے بغیر نہیں چلے گا۔ سیاسی حکومتیں ہوں یا غیر سیاسی حکومتیں ، وہ تمام کی تمام سمجھوتوں، در گزر کرنے اور نظر انداز کرنے ( ملک کی قیمت پر) کے سہارے چلتی ہیں کیوں کہ انہیں حکومت کرنے کے علاوہ آئندہ انتخابات میں ووٹ چاہئے ہوتے ہیں۔ ان خواہشات اور مفاد پرستی کی وجہ سے پاکستان معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑا ہو گیا ہے۔
شبر زیدی کہتے ہیں۔ ’’ میں اس بات پر قائل ہو چکا ہوں کہ مافیاز حکومتوں کو چلاتے ہیں۔ رٹیلرز بھی مافیا ہیں، ہاتھ ڈالو تو شٹرز بندکر دیتے ہیں، ہماری کوئی حکومت اتنی طاقتور نہیں ہوتی کہ شٹرز پاور سے لڑ سکے، بعض دفعہ تو میں وزیراعظم کی بے چارگی دیکھا کرتا تھا، کوئی سیاسی حکومت زرعی انکم ٹیکس میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ دسمبر تک تو پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہوگا، آگے بہت پریشان کن نظر آرہا ہے، آئی ایم ایف نے آپ کو کارنر میں کھڑا کر دیا ہے کہ مارچ میں سخت پروگرام میں آنا ہے،2023 ء میں جو بھی الیکشن جیتے گا معاشی لحاظ سے بہت بدقسمت ہوگا۔ ابھی آئی ایم ایف والے کھل کر سامنے نہیں آئے، آئی ایم ایف والوں نے جو کاغذ بنا کر دیا ہے وہ آپ کی فیور کی ہے، جب مارچ 2024ء آئے گا تب آئی ایم ایف بات کرے گا کہ ان کا کیا ارادہ ہے، پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مارکیٹ سے پیسے اٹھانے پڑیں گے، آئی ایم ایف کے پروگرام ڈیفالٹ سے تو بچا لیتے ہیں مگر عوام کیلئے سخت ہوتے ہیں، میرا خیال ہے کہ مارچ 2024ء میں آئی ایم ایف سختی سے پیش آئے گا، مارچ 2024ء میں پاکستان کا یس اور نو ہے۔
ملتان میں ایک بڑے زمیندار کوا نوٹس ایشو کیا گیا۔ میرے دفتر میں چالیس ایم این اے آئے، شاہ محمودقریشی کی سربراہی میں اور اس میں پیپلزپارٹی کے ایم این اے بھی تھے پی ایم ایل این کے بھی ایم این اے تھے اور پی ٹی آئی کے بھی ایم این اے تھے اور سارے ایم این اے تھے اس میں ایک بہت بزرگ ایم این اے تھے سردار نصر اللہ دریشک ، سردار نصر اللہ دریشک کوئی نوے سال 85سال کے آدمی ہیں انہوں نے مجھے مختصر کیا اور کہا کہ بیٹا تو بڑے چھوٹے عمر کا آدمی ہے تیرے بس کا کام نہیں ہے اس کو چھوڑ دے اس کو رہنے دے۔ انہوں نے بڑی دلچسپ بات کی انہوں نے کہا ہم سائوتھ پنجاب کے ایم این اے ہیں ہمارے بغیر گورنمنٹ نہیں چل سکتی یعنی بیٹا تو جوان ہے، بچہ ہے ابھی میرے سامنے، میں نے بڑی حکومتیں دیکھی ہیں تو اس کو چھوڑ دے تیرے بس کا کام نہیں ہے۔ جنوبی پنجاب کے ایم این ایز سے لڑ کر کوئی حکومت رہ نہیں سکتی، تمباکو مافیا کو ٹیکس نیٹ میں لانے لگے تو اسد قیصر ( سپیکر تحریک انصاف حکومت ) کے ساتھ ایم این ایز آگئے اور کہا وہ ٹیکس نہیں دے سکتے، قبائلی علاقوں میں سٹیل ری رولنگ ملز پر ہاتھ ڈالا تو20فاٹا سینیٹرز چیئرمین تحریک انصاف کے پاس پہنچ گئے کہ شبر زیدی کو روکیں۔ یہ بھی ایک چیز تھی جس پر میرا وزیراعظم سے اختلاف ہوا۔ ٹریڈرز جب ٹیکس میں جائیں گے تو پورا کاروبار عوام کے ساتھ کھل جائے گا، لاہور اور پنڈی کے دو چار بڑے ٹریڈرز تھے، انہوںنے کہا کہ کسی بھی حال میں ٹیکس نہیں دیں گے ۔ شبر زیدی نے مزید بتایا کہ ڈی جی سی کے ساتھ میٹنگ میں ٹریڈرز کے نمائندے موجود تھے، ٹریڈرز کا نمائندہ کھڑا ہوا اور کہا کہ میں 100روپے سیل پر50 پیسے ٹیکس دیتا ہوں، مجھ سے 100روپے سیل پر15 روپے ٹیکس مانگا جارہا ہے میں نہیں دونگا جو مرضی کر لیں، ڈی جی سی صاحب نے ٹریڈرز کو کہا کہ ابھی ہڑتال نہ کریں بیٹھ کر بات کرینگے۔
سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ اگر آپ شٹرز پاور سے لڑنے پر تیار نہیں تو ٹیکس نظام ٹھیک نہیں ہوسکتا، ہماری کوئی حکومت اتنی طاقتور نہیں ہوتی کہ شٹرز پاور سے لڑ سکے، ریٹیلرز ایک بازار مافیا ہے ان کو ہاتھ ڈالتے ہیں تو شٹرز بند کر دیتے ہیں، ریٹیلرز کے ساتھ ڈیڈ لاک ہوا تھا، ان کا اور آڑھتی کا ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے، کراچی کے ٹریڈرز کہہ رہے تھے کہ کوئی بازار والا آپ کو ٹیکس نہیں دے گا، بعض دفعہ تو میں وزیراعظم کی بے چارگی دیکھا کرتا تھا، کوئی سیاسی حکومت زرعی انکم ٹیکس میں دلچسپی نہیں رکھتی ۔ آٹے کی قلت اس وقت ہوتی ہے جب آٹا افغانستان جاتاہے۔ کراچی گورنر ہائوس میں جب میں آیا تھا اس وقت عمران خان کے ساتھ تو کراچی کے ٹریڈرز نے میرے ساتھ فزیکل بدتمیزی کی تھی اگر آپ کو یاد ہو تو انہوں نے مطلب تقریباً اور وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں ٹیکس نہیں دینا ہم بازار والا کوئی ٹیکس نہیں دے گا۔ بازار کراچی کا لیاقت آباد کا بازار ہے اس کا ٹیکس پورے لاہور کے ٹیکس سے زیادہ ہے یہاں بھی بڑا فرق ہے اگر پشاور دیتا ہے دس روپے تو لاہور دیتا ہے بیس روپے اور کراچی دیتا ہے پچاس روپے مطلب یہ ریشو اس طرح ہے ۔ مطلب یہاں پر یہ بھی آپ کو جتنا آپ نارتھ میں جاتے جائیں گے ٹیکس کلیکشن دکانداروں کی کم ہوتی جائے گی۔ اس میں سب سے بڑی بات جو ہے کہ جو انجمن تاجران یا ریٹیلرز ا ن کی ایسوسی ایشنز ہیں دیکھئے اس میں دو تین بڑے مسائل ہیں ایک چیز آپ اس کو اور سمجھیں یہ جب ٹیکس میں جائیں گے نا تو ان کا پورا کاروبار پبلک کے سامنے کھل جائے گا یہ سمگلنگ گڈز میں ڈیل کر رہے ہیں یہ انڈر ان وائسنگ گڈ زمیں ڈیل کر رہے ہیں یہ ان ٹیکس گڈز میں ڈیل کر رہے ہیں یہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی گڈز میں ڈیل کر رہے ہیں کراچی میں کتنی ساری چیزیں ہیں جو اسمگل گڈز ملتی ہے تو یہ کسی قسم کا ریکارڈ رکھنے پر تیار ہی نہیں ہیں دیکھئے ان کے دو ایشو ہیں ایک تو ایشو یہ ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دینا چاہتے دوسرا ان کا یہ ہے کہ کراچی میں آپ چلے جائیں بازاروں میں پورے کے پورے پلازہ کھلے ہوئے ہیں۔ میں مثال دیتا ہوں ایک کراچی میں کپڑے کی بہت بڑی مارکیٹ ہے ڈیفنس میں کلفٹن میں جس میں سندھ کا کپڑا ملتا ہے ٹھیک ہے سندھ کا سار ا کپڑا پاکستان میں سمگلڈ ہے وہ بچارا ٹیکس کہاں سے دے گا اس کی جو گڈز ہیں وہی سمگلڈ ہیں۔ یہ جو مرض ہے یہ بہت شدید ہے یہ ہم اس کو بہت ہلکا لے رہے ہیں اور اگر آپ نے اس کو صحیح نہیں کیا تو یہ ملک تباہ ہوجائے گا مطلب یہ بالکل تباہی کی طرف جارہا ہے مطلب یہ آپ اس کو سمجھیں تو کہ آپ مجھے بتائیں کہ کوئی مٹھائی والا کوئی ریسٹورنٹ والا کوئی گوشت والا کوئی دودھ والا ٹیکس دیتا ہے۔ آپ نے کبھی دیکھا ہے کسی مٹھائی والے کو ٹیکس دیتے ہوئے یا کسی دودھ والے کو کسی گوشت والے کو کسی کو ٹیکس دیتے ہوئے دیکھا ہے تو یہ تو پورا ایک سسٹم ہے ۔
اس تماش گاہ میں ٹیکس کی ادائیگی میں رکاوٹ اور عدم دلچسپی کی جو صورت حال ہے اس کی ایک سرسری سے جھلک آپ نے دیکھی۔ جب صورت حال یہ ہو تو پاکستان کو نظام کیسے چلے گا، ہے کوئی ارسطو، سقراط اور افلاطون جو آئی ایم ایف کو سمجھا سکے کہ پاکستان میں ٹیکس وصول کرنا دنیا کا ایک عجوبہ ہو گا، ، پہلے اس میں ہمارے مدد کریں پھر ہمیں قرضہ دیں۔ ختم شد

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button