Editorial

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ

قوم کے لیے ہر نیا دن کسی نہ کسی آزمائش کے ساتھ آتا ہے اور عوام پر بدترین بار کا باعث بن کر رُخصت ہوجاتا ہے۔ پچھلے پانچ برسوں سے یہ مشق ستم جاری ہے۔ اس حوالے سے ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات بد سے بدترین ہوتے چلے گئے ہیں۔ معیشت کی بہتری، ملکی ترقی اور عوامی خوش حالی کے محض دعوے ہی نظر آتے ہیں جب کہ غریب عوام کی زندگی دن بہ دن مزید ابتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ پچھلے پانچ سال کے دوران مہنگائی نے عوام کا بھرکس نکال ڈالا ہے۔ حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے دعوے تواتر کے ساتھ کرتی چلی آرہی ہے، تاہم اس کے اقدامات مہنگائی کو دعوت دینے کے مترادف قرار پاتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے سے دی جاسکتی ہے۔ ایک بار پھر غریبوں پر پٹرول بم گرادیا گیا، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 20روپے اضافے پر عوام بلبلا اُٹھے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ویڈیو پیغام کے ذریعے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اعلان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پٹرول کی قیمت میں اضافے کے بعد فی لیٹر پٹرول کی قیمت 272.95روپے ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 19روپے 90پیسے کا اضافہ کیا گیا، جس کے بعد ہائی اسپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 273روپے 40پیسے ہوگی۔ قیمتوں کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔ اسحاق ڈار نے بتایا کہ گزشتہ رات پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کرنا تھا، عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، جس کے مطابق وزیراعظم سے مشاورت کی گئی اور یہ فیصلہ ہوا کہ قیمتوں میں کم سے کم ردوبدل کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں ہیں، اس لیے ایسے فیصلے نہیں کرسکتے، جس سے ملک مشکل میں گھرے، ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 20روپے کے قریب اضافہ عوام پر ظلم کے مترادف ہے۔ اس فیصلے کو فی الفور واپس لیا جائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ایسے فیصلے عوام کی مشکلات کو دوچند کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ پہلے ہی غریب مہنگائی کی چکی میں بُری طرح پس رہے ہیں۔ اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا دُشوار ہے۔ غریب محنت کشوں کو اپنا گھروں کا نظام چلانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے نہیں پڑتے۔ لمبی لمبی ڈیوٹیاں کرتے ہیں۔ اوور ٹائم لگاتے ہیں۔ کڑی محنت و ریاضت کرتے ہیں، پھر بھی خوش حالی اُن سے کوسوں دُور دِکھائی دیتی ہے اور اتنی محنتوں کے باوجود اُن کا گھروں کا معاشی نظام انتہائی مشکل سے چل پاتا ہے، کیونکہ مہنگائی پچھلے پانچ برسوں میں اتنی تیزی سے بڑھی ہے کہ پچھلے 70برسوں میں اس کی نظیر ڈھونڈے سے بھی دِکھائی نہیں دیتی۔ آٹا 160روپے فی کلو سے اوپر پر دستیاب ہے۔ اسی طرح چینی کی قیمت سرعت سے بڑھ کر 150روپے تک جا پہنچی ہے۔ تیل اور گھی کے نرخ تو اتنے زیادہ بڑھا دئیے گئے ہیں کہ الامان والحفیظ۔ اسی طرح چاول کے نرخ بھی تین چار گنا بڑھ چکے ہیں۔ آمدن وہی ہے۔ ایسے میں لوگ کیونکر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکتے ہیں۔ کیسے بھاری بھر کم بجلی اور گیس کے بل ادا کر سکتے ہیں، جب کہ یہ سہولتیں انہیں تسلسل کے ساتھ دستیاب بھی نہیں ہوتیں۔ ان کے لیے یہ پورے سال رُلتے رہتے ہیں۔ عوام دوست حکمراں لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کا بندوبست کرتے ہیں۔ اُن کی مشکلات میں اضافہ نہیں کرتے۔ لیکن یہاں دعوے عوامی فلاح و بہبود اور اُن کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں اور تمام تر بوجھ اُن کے ناتواں کاندھوں پر لاد دیا جاتا ہے اور ایسا کرنے میں ذرا بھی تامل کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں ہوش رُبا اضافے سے بدترین مہنگائی کا طوفان آءے گا، جس میں پہلے کی شدّت بھی کچھ کم نہیں قرار دی جاسکتی۔ یہاں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جیسے ہی اضافہ ہوتا ہے، ویسے ہی اشیاء خورونوش سمیت تمام چیزوں کے دام بڑھادیے جاتے ہیں۔ تمام اشیاء کے دام پٹرولیم قیمتوں سے نتھی کرلیے جاتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اتنی زیادہ بڑھنے سے اب مہنگائی مافیا اپنی کمر کسیں گے اور قوم پر گرانی کے بدترین نشتر برسائیں گے۔ ان کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ حکومت اور متعلقہ سرکاری ادارے محض نمائشی کارروائیوں میں مصروف رہیں گے۔ دِکھاوے کے لیے چند ایک مقامات پر کارروائیاں کرلی جائیں گی جب کہ باقی مہنگائی مافیا (ذخیرہ اندوزوں، گراں فروشوں، منافع خوروں) کو عوام کی جیب پر بھرپور نقب لگانے کی اجازت ہوگی۔ وہ جیسے چاہیں گے غریبوں کا استحصال جاری رکھیں گے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے۔ یہاں غریب عوام کی فکر کس کو ہے۔ محض عوامی فلاح و بہبود کے اعلانات تک محدود رہا جاتا ہے۔ اُن کے لیے حقیقی معنوں میں قدم اُٹھانے سے گریز کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔ غریب عوام کا امتحان آخر کب ختم ہوگا۔ وہ کب تک مہنگائی کے عذاب کو بھگتیں گے۔ کب تک اُن کی زندگی سسک سسک کر گزرے گی۔ یہ تمام سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بہت ہوچکا، پچھلے پانچ برسوں میں قوم نے بہت قربانیاں دے ڈالیں، اب اُن کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے حقیقی معنوں میں اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کیا جائے۔ تمام اشیاء ضروریہ کے نرخ مناسب سطح پر واپس لائے جائیں۔ مہنگائی مافیا کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے اور ان کا قلع قمع ہر صورت ممکن بنایا جائے۔ ان کو عوام کا مزید استحصال کرنے کی چنداں اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ عوام اب ریلیف اور اپنی زندگیوں میں آسانیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب اُن میں مزید قربانیاں دینے کی سکت نہیں۔ حکومت کو غریبوں کی مشکلات میں کمی کی خاطر سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں۔

قرآن کی بے حرمتی کے مذموم واقعات
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ دُنیا میں دوسرے مذاہب کے احترام کا فقدان پایا جاتا ہے۔ پچھلے کچھ سال سے خصوصاً اسلاموفوبیا کے رجحان میں ہولناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور نبی محترمؐ کی شان میں گستاخی اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات تواتر کے ساتھ رونما ہوتے رہے ہیں۔ دُنیا کے تمام ممالک کی جانب سے ان واقعات کی بھرپور مذمت کی جاتی ہے، لیکن ان کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات کا فقدان نظر آتا ہے۔ عیدالاضحیٰ کے روز سے سویڈن میں شروع ہونے والا قرآن پاک کی بے حرمتی کا سلسلہ اب تک ختم ہونے میں نہیں آرہا اور وہ بدبخت اور ملعون مزید بے حرمتی تسلسل کے ساتھ کرتا چلا آرہا ہے۔ آزادی اظہار رائے کے نام پر اُس کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کی جاسکی ہے بلکہ اُسے مسلسل قرآن پاک کی بے حرمتی کی اجازت دے کر مسلمانوں کے جذبات کو بُری طرح مجروح کیا جارہا ہے۔ گزشتہ روز بھی سویڈن اور ڈنمارک میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات پیش آئے، جس پر مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اس پر وہ اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرارہے ہیں۔ اطلاع کے مطابق سویڈن اور ڈنمارک کی حکومتوں نے مذہبی کتابوں کی بے حرمتی کے واقعات روکنے پر غور کا فیصلہ کیا ہے جب کہ حکومتی فیصلے کے بعد بھی سویڈن اور ڈنمارک میں گزشتہ روز پھر قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات رونما ہوئے، اسلام مخالف انتہا پسندوں نے سویڈن میں پارلیمنٹ کے باہر اور ڈنمارک میں سعودی سفارت خانے کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کی۔ اسٹاک ہوم میں پولیس کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد دو افراد نے قرآن پاک کو آگ لگادی۔ خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اسٹاک ہوم میں قرآن کی بے حرمتی کرنے والے دو افراد میں سے ایک پچھلے واقعہ میں ملوث شہری سے ملتا جلتا تھا، جس کی وجہ سے سویڈن اور مسلمان ممالک خصوصاً مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق سلوان مومیکا اور سلوان نجیم نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی اور اوراق جلادیے، اسی طرح انہوں نے جون کے آخر میں بھی اسی طرح کی حرکت کی تھی اور مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی تھی۔ قبل ازیں سویڈن کی پولیس نے پارلیمنٹ کے باہر ایک احتجاج کی اجازت دی تھی، جس میں منتظمین نے قرآن پاک کی بے حرمتی کا منصوبہ بنایا تھا۔ اے ایف پی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مظاہرین نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ وہ سویڈن میں مقدس کتاب پر پابندی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملعون سلوان نجیم نے میڈیا کو بتایا کہ میں متعدد بار اس کے نسخے کو نذرآتش کروں گا، جب تک آپ اس پر پابندی نہیں لگا دیتے۔ دوسری طرف ڈنمارک سیکیورٹی اور سفارتی خدشات کے پیش نظر مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک یا دیگر مذہبی کتب کو نذرآتش کرنی سے متعلق مظاہروں پر پابندی عائد کرنے پر غور کر رہا ہے۔ ڈنمارک کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ آزادی اظہار کا تحفظ بہت ضروری ہے، لیکن اس طرح کے مظاہروں سے انتہا پسندوں کو فائدہ ہوتا ہے اور ان سے سلامتی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ مذکورہ واقعات ہر لحاظ سے قابل مذمت ہیں۔ آخر سوا ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو کب تک مجروح کیا جاتا رہے گا۔ اس سلسلے کو اب رُک جانا چاہیے۔ مسلمان تمام مذاہب اور اُن کی مقدس ہستیوں و دیگر کا بھرپور احترام کرتے ہیں۔ اُن کی جانب سے کبھی بھی کسی کی بے توقیری یا بے حرمتی نہیں کی گئی ہے۔ اُن کی ساتھ ایسا سلوک یقیناً افسوس ناک اور قابل مذمت ہے۔ دُنیا کو ایسی مکروہ جسارتوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم بھی اس ضمن میں لائحہ عمل ترتیب دے اور ایسے واقعات کی روک تھام میں موثر کردار ادا کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button