CM RizwanColumn

دہشت گردی اور دو کروڑ ان پڑھ

سی ایم رضوان

دہشت گردی جہالت اور غیر مہذب روایات سے جنم لیتی ہے اور انسانی خون سے کھلواڑ کرنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی ملک کی ہر شائستہ روایت، ہر شہری سہولت اور اخلاقیات و معیشت کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دہشت گردی کی بنیادی گود یا جھولی جہالت ہی ہے جس میں پیدا ہو کر یہ جلد پروان چڑھتی ہے اور معاشرے کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ جہالت نہ صرف دہشت گردی بلکہ انسانی تہذیب و تمدن کے خلاف ہر قبیح ترین اور قابل صد نفرین جرم کا ارتکاب کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہذب قومیں اور ان کے مخلص قائد اور حکمران اپنے ملک و معاشرے کو ترقی، وقار، استحکام اور اقوام عالم میں عزت دلوانے کے لئے سب سے پہلے تعلیم کو ترجیحی بنیادوں پر اپنی نوزائیدہ نسلوں کو بہم پہنچانے کا بندوبست کرتے ہیں مگر جو قائد اور حکمران اپنی ملت کے دشمن اور لٹیرے ہوتے ہیں ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ قوم جاہل ہی رہے تاکہ ان کے جرائم کو بے نقاب کرنے والے پڑھے لکھے طبقات پیدا ہی نہ ہو سکیں اور وہ جی بھر کر لوٹتے اور کھاتے کھلاتے رہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی پچھلی کئی دہائیوں سے ایسے ہی مفاد پرست قائدین اور چور اچکے حاکموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں نہ صرف دہشت گردوں نے اپنے مستقبل ٹھکانے بنا لئے ہیں بلکہ سیاست دانوں اور دیگر بااختیار طبقوں میں اپنے ہمدرد، ہم خیال، ہم نوالہ اور سہولت کار پیدا کر لئے ہیں جس بنا پر ملک سے دہشت گردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور تعلیم کی کمی کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے مسائل بھی دن بدن گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔ وزیر تعلیم رانا تنویر حسین کے ایک اعتراف کے مطابق اس وقت ملک کے دو کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ اعتراف کے ساتھ ساتھ رانا تنویر حسین نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ان کا یہ مشن ہے کہ وہ ان دو کروڑ آئوٹ آف سکول بچوں کو ایجوکیشنل نیٹ ورک میں لائیں گے لیکن سنجیدہ اور باشعور شہریوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ فقط نعرے بازی ہے کیونکہ اس وقت ملک میں ہزاروں ایسے سکول ہیں، جن کی نہ چار دیواری ہے، نہ چھت اور نہ ہی بیت الخلا کی سہولت۔ کئی سکولوں میں تو پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں۔ وطن عزیز میں اگر سکولوں کی ابتری اور تعلیم کی دربدری کی بات کی جائے تو جھٹ سے صوبہ سندھ کا حوالہ دے دیا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں سے سندھ کے سکولوں کی انتظامی اور تعلیمی بدحالی سے متعلق کثیر تعداد میں میڈیا رپورٹس اور انکشافات سامنے آ رہے ہیں اس کے برعکس پنجاب کے محکمہ تعلیم کی بے ضابطگیوں اور حرام کاریوں سے پردہ نہیں اٹھایا جاتا جبکہ حقائق یہ ہیں کہ پنجاب سمیت پاکستان کے چاروں صوبوں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی سندھ جیسی ہی صورت حال ہے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کی توجہ اصل تعلیمی مسائل پر نہیں ہے اور وہ دوسرے معاملات پر پیسے خرچ کرتی ہے، جس سے وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور پیسہ بھی۔ ایک اور حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں یکساں تعلیمی مواقع کی شدید کمی ہے اور المیہ یہ ہے کہ غریب بچوں کا تو کوئی تعلیمی مستقبل ہی نہیں ہوتا۔ نتیجتاً وہ معاشرے کے نظرانداز کئے گئے طبقات میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں اور یہ نظرانداز کئے گئے طبقات ہی ہر قسم کے خطرناک جرائم میں ملوث ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ملک بھر میں جہاں پرانے قائم شدہ سکولوں کی غیر فعالیت اور زیرو کارکردگی تعلیم کا بیڑا غرق کر رہی ہے وہاں نئے تعلیمی اداروں اور سکولوں کی عدم تعمیر بھی جہالت کے بڑے اسباب ہیں۔ پھر یہ بھی المیہ کم نہیں کہ جو تعلیمی ادارے چل رہے ہیں ان میں معیاری تعلیم کی کمی اور ارباب اختیار کی جانب سے کم تعلیمی بجٹ کی فراہمی ان چند وجوہات میں سے ہیں جن کی وجہ سے بہت سارے بچے سکولوں سے باہر نہ ہونے کے باوجود ناقص تعلیم حاصل کرنے پر مجبور اور اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ان وجوہات کے سبب انرولمنٹ کی شرح بہت کم ہے۔ یہ شرح میٹرک کی سطح پر 27 سے 30فیصد، مڈل لیول پر 40فیصد اور پرائمری سطح پر 65فیصد ہے۔ انتہائی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ سندھ میں آٹھ ہزار کے قریب ایسے سکول ہیں جنہیں شیلٹر لیس کہا جا سکتا ہے، یہ سکول ایک ٹیچر اور برائے نام فرنیچر کے ساتھ کسی بھی جگہ قائم کر دیئے گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے کچھ سکولوں کے لئے چوکیدار بھی متعین کیے گئے ہیں۔ جو عملاً کہیں بھی تعلیم کا فریضہ ادا نہیں کر رہے مگر کاغذوں میں ان کی تنخواہیں اور مراعات باقاعدہ طور پر جاری اور ادا ہو رہی ہیں۔ اس سارے عمل میں تمام متعلقہ حکام مکمل فائدے حاصل کر رہے ہیں اور اگر فائدہ نہیں ہو رہا تو اس بچے کو نہیں ہو رہا جو سکول جانے کی عمر میں یا تو آوارگی کر رہا ہے یا پھر چائلڈ لیبر کا شکار ہے۔ پرائمری تعلیم اگرچہ ملک میں لازمی قرار دی گئی ہے لیکن یہ بھی صرف کاغذی کارروائی ہے کیونکہ اس امر کی نہ تو کہیں پابندی کی جاتی ہے نہ نگرانی اور نہ ہی اس حوالے سے ملک بھر میں کہیں ریکارڈ مرتب اور محفوظ کیا جاتا ہے کہ کوئی چیک اینڈ بیلنس ممکن ہو۔ ارباب حل و عقد کو یہ جانتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی کہ دنیا کے کئی ممالک میں پرائمری تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور کئی جمہوری ملکوں میں دس یا بارہ گریڈ تک تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں خاص طور پر پرویز مشرف کے دور سے اعلیٰ تعلیم پر زیادہ توجہ دینا شروع کی گئی ہے جبکہ پرائمری اور ثانوی تعلیم کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ محض مال کمانے کی ملک بھر میں یونیورسٹیوں کی تعمیر پر تو بہت زیادہ توجہ دی جا رہی ہے مگر پرائمری، مڈل یا ہائی سکولوں پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ 1994ء میں پاکستان میں صرف 20یونیورسٹیز تھیں لیکن اب ملک میں 200سے زیادہ یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں۔ ایک طرف تو حکومت کی طرف سے پرائمری تا ہائی سکولوں کی ترجیحی تعمیر پر توجہ نہیں دی جاتی جبکہ دوسری طرف ملک کے طول و عرض میں آنے والی قدرتی آفات نے بھی سکولوں کے نظام کو بہت متاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے ڈراپ آٹ کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ صرف سندھ میں حالیہ سیلابوں کی وجہ سے 19ہزار کے قریب سکول متاثر ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی مختلف سیلابوں یا قدرتی آفات میں سکول متاثر ہوئے۔ اس پر ستم یہ کہ ان کی بحالی کے لئے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا۔
وطن عزیز کے نظام تعلیم میں بہت سارے سٹرکچرل مسائل بھی ہیں، جن کو بلاتاخیر حل کرنا بہت ضروری ہے۔ بلوچستان میں نظام تعلیم کی ابتری کا یہ عالم ہے کہ اس صوبہ کے 22ہزار دیہات میں سے صرف 12ہزار دیہات میں سکول قائم ہیں اور ان 12ہزار دیہات میں بھی سات ہزار سکول ایک کمرے والے ہیں۔ اب ان میں سے نصف بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ بالکل اسی طرح سندھ میں پرائمری سکولوں کی ایک بڑی تعداد صرف دو کمروں پر مشتمل ہے اور بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے سندھ کے بھی نصف سے تھوڑا کم سکولوں کا انجام بھی بلوچستان جیسا ہوا ہے۔ ان دونوں صوبوں میں تباہ شدہ سکولوں کی بحالی اور مرمت کا کام شاید کسی مزید بیرونی مدد کے انتظار میں فی الحال معطل ہے۔ کوئی عقل کا اندھا بھی یہ تسلیم کرے گا کہ پرائمری سکول کے لئے کم از کم پانچ کمرے ہونے چاہئیں لیکن جب سکول ہی اتنے چھوٹے ہوں تو بہت سارے بچوں کو سکول میں داخلہ نہیں ملے گا اور بچے آئوٹ آف سکول ہی رہیں گے۔ جس طرح کہ وزیر تعلیم نے نشاندہی کی ہے۔ اب حکومت کو چاہئے کہ ہر پرائمری سکول کم از کم پانچ کمروں والا ہو اور اس میں تمام ضروری سہولیات میسر ہوں ورنہ جن بچوں کو سکول لانے کا دعویٰ وزیر موصوف نے کیا ہے وہ آئوٹ آف سکول ہی رہیں گے اور ان کا دعویٰ پی ٹی آئی چیئرمین کے پچاس لاکھ گھروں اور دس کروڑ نوکریوں کے مشہور عالم وعدہ کی طرح کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔
موجودہ نظام تعلیم کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں اعلیٰ حکام کی جانب سے اساتذہ سے تعلیم کے علاوہ بھی کئی اور کام لئے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے بھی نظام تعلیم خراب ہوتا ہے۔ یعنی جب اساتذہ مردم شماری، انتخابات، وزراء اور حکومتی زعماء کے جلسوں میں حاضری لگانے اور دوسرے سیاسی کاموں میں مصروف ہوں گے تو وہ کلاسز نہیں لے سکیں گے، ایسے میں سکولوں میں بچوں کے آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ انہی وجوہات کی بنا پر وطن عزیز میں تعلیم کے گرتے ہوئے معیار سے بہت سارے لوگ نا امید ہو چکے ہیں لیکن بعض ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ اس کو ابھی بھی بہتر کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ ملک میں بہت سارے بچے محنت مزدوری کرتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کے گھر والے فاقوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے بچوں کو سکولوں کی طرف راغب کرنے کے لئے ان کے والدین کو ماہانہ وظائف دیئے جائیں اور جو بچے کام کاج کی وجہ سے سکول چھوڑ دیتے ہیں، ان کو واپس لانے کے لئے بھی مالی ترغیب دی جائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ سکولوں کی کم تعداد اور بچوں کی اکثریت کے پیش نظر تعلیمی اداروں میں دو یا تین شفٹیں روزانہ شروع کی جائیں۔ برازیل بھی آبادی میں بے تحاشا اضافے کے باعث ہمارے جیسے تعلیمی مسائل کا شکار ہے لیکن ان کی حکومت نے تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر سکولوں میں تین تین شفٹیں شروع کی ہوئی ہیں، یہاں تک کہ نیپال، یہ بھی ایک غریب ملک ہے، وہاں پر بھی تعلیم کی انرولمنٹ 97فیصد ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ ہولناک طریقے سے کم ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے انتہائی تشویشناک امر یہ ہے کہ دہشت گردی میں معاونت جاری ہے اور دہشت گردی کروانے والے جہاں بھی بیٹھے ہوں انہیں سہولت کار حتیٰ کہ خود کش بمبار مقامی مل جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button