ColumnJabaar Ch

مافیاز

 

جبار چودھری
پاکستان کی ہمت ہے کہ چل رہاہے۔لیکن ایسے چلنے کا بھی کیا کرنا کہ بس چل ہی رہا ہے۔یہاں ہر طاقتورکا بس چلتا ہے اگر کسی کا بس نہیں چلتا تو وہ خودیہ ملک ہے جس پرسترہزارارب روپے کا قرضہ ہے۔اتنا مقروض کوئی گھر نہیں چلتا۔کوئی کمپنی نہیں چلتی لیکن پاکستان چل رہا ہے۔ہرکوئی اس ملک کو نوچ رہا ہے ۔صرف وہ مجبورہوکردیکھتے ہیں جن کا بس نہیں چلتا۔جن کا بس نہیں چلتا وہ اس ملک کے عام لوگ ہیں۔جن ممالک نے ترقی کی یا وہاں جمہوریت میں شفافیت ہے کچھ اخلاقی اقدارباقی ہیں ان ممالک میں لوگ اقتدار سے دوربھاگتے ہیں کیونکہ وہاں اقتدارٹھاٹھ باٹھ نہیںایک اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔لوگ ذمہ داریاں اداکرتے کرتے اپنی مدت پوری کردیتے ہیں ۔ان کے سامنے چیلنج ہوتا ہے کہ ملک یہاں کھڑا ہے اس سے نیچے نہ جائے۔وزیراعظم یا صدرکو ایک بہترین حکمران کے طورپریاد رکھا جائے ۔جو جس وقت محسوس کرتا ہے کہ ذمہ داری اس سے بڑی ہورہی ہے اوراس کو مشکلات کا سامنا ہوگا وہ اسی وقت اقتدار چھوڑکر گھر چلاجاتا ہے۔ہم نے اس کی مثالیں برطانیہ میں دیکھی ہیں۔یہاں بورس جانسن کے استعفے کے بعد لزٹرس وزیراعظم بنیں لیکن ایک ماہ میںہی برطانیہ جیسے ملک کی وزارت عظمیٰ کو چھوڑدیا اور اس کے بعد رشی سوناک نے یہ ذمہ داری لی ۔دوسری طرف ہم ہیں یہاں اتنے مقروض ملک پرحکمرانی کے لیے بھی سازشیں کی جاتی ہیں کیونکہ یہاں آنے والا ہر کوئی جانتا ہے کہ اقتدار کوئی ذمہ داری نہیں بلکہ پروٹوکول ہے اورملک چلانے کے لیے قرض ہی لینا ہے وہ لیتے رہیں گے ۔
اس مقروض ملک کے وسائل اڑانا اس قدر آسان بنادیا گیا ہے کہ اسی ہفتے دبئی کے حکمران کے بھائی کے انتقال پر تعزیت کے لیے جانا تھا تو جمعہ کے دن ملک کے وزیراعظم نے اپنا جہازنکالا اورساتھیوں کو ساتھ لے کر دبئی پہنچ گئے ۔یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن کمال یہ ہوا کہ اگلے ہی دن وزیرخارجہ بلاول بھٹونے بھی یہی عمل دہرادیا۔ انہوں نے بھی اس ’’ امیر‘‘ ملک کا جہازنکالا ساتھیوں کو ساتھ لیا اوردبئی پہنچ گئے۔ٹھیک ہے تعزیت منع نہیں ہے وہ ہمارے دوست بھی ہیں لیکن کیا دونوں ایک ہی دن ایک جہازپردبئی نہیں جاسکتے تھے؟ جاسکتے تھے اگر ان میں اس ملک کے وسائل کا احساس ہوتا۔جاسکتے تھے اگر اس ملک کی دولت لٹانے میں ان لوگوں کو استثنیٰ نہ ہوتا۔جاسکتے تھے اگر اس طرح جہازوں کے سفرپرکوئی قانونی روک ٹوک ہوتی ۔کوئی آڈٹ ہوتا ۔کوئی اخلاقی قدغن ہوتی ۔بلاول بھٹو تو ویسے بھی یہ سوا سال ملک سے باہر ہی رہے ہیں ۔انہوں نے تو یہ سوا سا ل ہی ہوامیں گزاراہے۔وہ اپنے ساتھ اپنی بہن کو بھی غیرملکی دورے کرواتے رہے ۔وہ آصفہ کو اپنے ساتھ جاپان لے گئے ۔سوچیں کیا کبھی جاپان کا وزیرخارجہ پاکستان میں اپنے کسی اہلخانہ کو ساتھ لاسکتا ہے؟ کیا ان پر کوئی پابندی ہے ؟ جی ان پر پابندی بھی ہے لیکن سیاسی اور حکومتی اخلاقیات کی دیوار وہاں اتنی بلند ہے کہ کوئی چاہے بھی تو اس کو پھلانگ نہیں سکتا۔
یہاں بہت کچھ ٹھیک ہونے والا ہے۔پاکستان کی گاڑی کا انجن سیز ہورہا ہے اس کی اوورہالنگ کیے بغیریہ گاڑی نہیں چلے گی ۔اس انجن میں کچرا کہاں کہاں ہے یہ جاننا ہوتو سابق چیئرمین ایف بی آرشبر زیدی صاحب کی گفتگو سن لیجئے۔شبر زیدی نے جو کہا وہ حقیقت ہے۔اس میں سے ایک بات کہ عمران خان دورمیں ملک ڈیفالٹ کرنے والا تھایہ ماننے والی نہیں ہے باقی سب کچھ ایسے ہی ہے اور یہ شبر زیدی تو بے چارے بات کرگئے تو سب نے سن لیا یہ مافیازتو ایسے ہی ہیں ۔ہر حکومت کے ساتھ بلکہ حکومتیں ان کی مرہون منت ۔
ہم لوگ ان حقائق کو پہلے سے جانتے تھے لیکن عمران خان صاحب سے امید تھی کہ وہ ان مافیازکے دباؤ میں نہیں آئیں گے کیونکہ وہ اقتدار ملنے سے پہلے اور اس کے آغازمیں بھی ان مافیازکا بار بار ذکرکرتے تھے۔لیکن وزارت عظمیٰ کی کرسی ہی ایسی ہے شاید کہ جو بیٹھتا ہے وہ کمپرومائززکی دکان بن جاتا ہے۔وزیراعظم ہاؤس میں جاکر حکمران کو دو راستے نظر آتے ہیں ایک راستہ وہ ہوتا ہے جو اقتدار کی کرسی پربیٹھے رہنے کا ہوتا ہے اور دوسرا راستہ وزیراعظم بننے والے شخص کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ اس کی پالیسیاں یا پاکستان کی بہتری کے لیے خواب ہوتے ہیں ۔پہلے والاراستہ اپنی سوچ کو دروازے پر چھوڑ کرسسٹم کی مٹی میں مٹی ہوجانے کا ہوتا ہے ۔اس میں جو آپ کو بتایاجاتا ہے وہ آپ کرتے ہیں ۔جوراستہ دکھایاجا تا ہے آپ اسی پر چلتے ہیں ۔یہاں پہنچنے والے سبھی پہلے والا راستہ چنتے ہیں ۔اس لیے وہ اقتدار انجوائے کرکے باہر نکل آتے ہیں لیکن ملک وہیں کھڑا رہتا ہے ۔شبر زیدی نے جو بیان کیا وہ صرف عمران خان کی ہی نہیں بلکہ ہر وزیراعظم کی بے بسی کی کہانی ہے۔اگر پاکستان کو ترقی دینی ہے تو اس کہانی کو بدلنا پڑے گا ۔مسلم لیگ ن شبر زیدی کے انٹرویوپر اچھل رہی ہے ۔اچھل اس لیے رہی ہے کہ عمران خان ناکام ہوا۔کمپرومائز کرگیا ۔ان اچھلتے کودتے لوگوں سے پوچھا جائے کہ کیا وہ کچھ آپ نے کیا یا کروگے جوشبر زیدی نہ کرسکا؟ اس سوال پرسانپ سونگھ جائے گا۔ نہیں یقین تو کسی بھی حکومت میں شامل رکن سے کرکے دیکھ لیجئے گا۔ان کا اپنا حال یہ ہے یہ کہ آئی ایم ایف کی شرائط میں سے پراپرٹی سیکٹر پر ٹیکس کی بات سامنے آئی تو اگلے دن وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے وضاحتی بیان جاری کیا ہے کہ اس سیکٹر پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگے گا۔
ہماری حالت یہ ہے کہ شہبازرانا صاحب کی ایک خبر ہے کہ سیلری پیشہ افراد نے تاجروں سے زیادہ انکم ٹیکس دیا ہے۔ مفتاح اسماعیل نے چھوٹی دکانوں پر فکس ٹیکس لگانے کی کوشش کی تو مریم نوازکا ٹویٹ آگیا کہ مفتاح بھائی تاجر پریشان ہیں اس ٹویٹ کے بعد آج تک وہ ٹیکس نہیں لگ پایا ۔حالت یہ ہے کہ اس ملک میں بائیس لاکھ دکانیں ہیں اور صرف تیس ہزارٹیکس دیتی ہیں۔ یہی شبر زیدی تھے انہوں نے کوئی ٹیکس نہیں لگایا تھا بلکہ صرف یہ شرط لگانے کی کوشش کی تھی کہ اگر کوئی پچاس ہزارسے زیادہ کی خریدوفروخت کرتا ہے تو اس کو شناختی کارڈ ساتھ دینا ہوگا۔اس کا مقصد صرف معیشت کودستاویزی بناناتھا۔تاجروں کی تعدادمعلوم کرنا تھا اوریہ جاننا تھا کہ روزانہ چھوٹے تاجر کتنے کا لین دین کرتے ہیں ۔لیکن ہم سب نے دیکھا کہ تاجروں نے ہڑتالیں کیں۔احتجاج کیے اورعمران خان کی حکومت پیچھے ہٹ گئی۔یہ ایک مثال ہے جو پورے پاکستان نے دیکھی ۔باقی تمباکو مافیا کیسے کام کرتا ہے یہ شبر زیدی بتاچکے۔ پراپرٹی سیکٹر پر کون ٹیکس نہیں لگانے دیتا یہ شبر زیدی بتاچکے اور عمران خان کے دورمیں تین سال تک پراپرٹی سیکٹر کو ایمنسٹی دی گئی تاکہ وہ اپنا کالا دھن زمینوں کی خریدوفروخت میں لگاسکیں ۔اس ایک ایمنسٹی نے پراپرٹی سیکٹر میں اتنا پیسا ڈال دیا کہ مڈل کلا س کے لیے اپنا گھر بنانا ناممکن ہوگیا۔عمران خان کا دورپراپرٹی ڈیلروں کی جنت بنارہا۔عمران خان صاحب نے سیاست کرتے ہوئے پراپرٹی سے وابستہ ڈیلروں کا اپنا ووٹر سپورٹرتو بنالیا لیکن اس ملک کے ساتھ جو حشرہوا اس پر کوئی جوابدہ بنے گا؟راوی کے کنارے سے بے دخل کیے کسانوں کو کوئی انصاف دے گا؟ لاہور جیسے شہر کے نواح میں جو گھر پانچ سال پہلے ساٹھ ستر لاکھ کا تھا آج ڈیڑھ کروڑ کا ہوگیا اس پرخوش ہونا ہے یا ماتم کرنا ہے؟خان صاحب نے لوگوں کو پچاس لاکھ سستے گھر دینے تھے لیکن اس ایک پالیسی نے سستا تو چھوڑیں گھر ہی لوگوں کی پہنچ سے دور چلے گیا۔
زراعت سے وابستہ بڑے زمیندار سب حکومت میں ہیں۔ اور ہر حکومت میں ہیں ہر پارٹی میں ہیں اس لیے اس سیکٹر پر ٹیکس نہیں لگتا۔ایم این ایز اور وزرا کے ٹیکس ریٹرنز کا جائزہ لیں تو آپ کو اسی انکم پر ٹیکس ملے گا جو یہ پارلیمنٹ سے تنخواہ وصول کرتے ہیں اس کے علاوہ ان کی سب آمدن زرعی ہوتی ہے جس پر کوئی ٹیکس نہیں ۔جب تک یہ ملک ایسے مافیازکے زیراثر رہے گا ۔اس وقت تک تمام مافیاز اپنے اپنے سیکٹرزکے لیے مراعات لیتے رہیں گے اور ملک چلانے کے لیے ٹیکس عام تنخواہ داردیتا رہے گا اگرکوئی اس ملک کے ساتھ مخلص ہے تو مافیاراج کے خلاف کام کرنا پڑے گا۔ بیورو کریسی کے لیے گاڑیوں پر پابندی لگانی ہوگی۔ واپڈا ملازمین کو دی جانے والی فری بجلی کاٹنی پڑے گی۔ وزراکے لیے مراعات ختم کرنی پڑیں گی۔ ہے کوئی جو شبرزیدی کے بیان کیے گءے مافیاز کے خلاف جاکر وہ کام کرے جس کی کسی سیاسی جماعت یا حکومت کو نہیں بلکہ اس ملک اور ریاست کو ضرورت ہے؟ ہے کوئی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button