ColumnNasir Naqvi

انسان بچائو

 

ناصر نقوی
کلمہ حق کے متوالوں اور اللہ و رسولؐ کے پروانوں کے لیے نسخہ کیمیا کے ساتھ اقوال آقائے دو جہاں کی روشنی میں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج بیت اللہ اور توحید سے بھی زیادہ خلق خدا کی نگہبانی کا حکم ہے حالانکہ یہ سب جانتے ہیں کہ ارکان دین کے بغیر مسلمان ہونا ناممکن ہے۔ تاہم مالک کائنات نے یہ پیغام دے کر انسان اور انسانیت کو اہمیت دے دی کہ حقوق اللہ کی کوتاہی میں توبہ کے لیے دروازے کھلے ہونے کی رعایت موجود ہے لیکن حقوق بندہ میں معافی سوائے بندے کے دوسرا نہیں دے سکتا۔ مطلب سیدھا سادہ ہے کہ اللہ معاف کرنے والا ہے۔ غلطی، کوتاہی، فرائض کی ادائیگی میں غفلت پر معافی مانگ لو، توبہ کے لیے اس کے دروازے کھلے ہیں لیکن عزیز و اقارب، دوست رشتے دار، ساتھی سنگی اور آل اولاد کا حق مارا تو پھر اس کی معافی زمین و آسمان کا مالک بھی نہیں دے سکے گا لہٰذا لمحہ فکریہ یہ ہے کہ بندہ بندے سے ناانصافی نہ کرے۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر زندگی گزارے، اسی سے مانگے جس سے سب مانگتے ہیں کیونکہ بہترین رزق دینے والا اللہ ہے اس کا شکر بجا لائے اور حسن سلوک سے بندۂ خدا کے لیے آسانیاں پیدا کرے تاکہ وہ تمہاری اس کوشش کے اجر میں تمہارے لیے مزید آسانیاں اور نعمتیں دے، اسی لیے دین حق یہ بھی تاکید کرتا ہے کہ فتنہ و فساد معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتا ہے لہٰذا ’’ تفرقہ نہ پھیلائو‘‘ جس نے ایک شخص کا قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی یہ بھی واضح ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا لیکن ان پیغامات کے باوجود ہم اور آپ سب کے سب دنیا کی رنگینیوں میں مست ہیں نہ کسی کو حقوق اللہ کی فکر ہے نہ ہی حقوقِ بندہ کی، اسی لیے مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں معاشرہ ابتری کا شکار ہے۔ اگر کوئی اللہ رسولؐ کی بات کرے تو ہر ایک کے پاس جواب ہے کہ کہاں وہ کہاں ہم؟ ہمارا اس سے کیا مقابلہ؟ بات بھی درست ہے کہ بھلا مالک اور بندے کی کیا برابری، پھر پوچھو، حکم عدولی پر پکڑے نہیں جائو گے ۔ ہمارا تمہاراایمان ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے؟ فوراً جواب ملے گا واہ ہمیں پتہ ہے کہ اس کا ہمارا کوئی مقابلہ نہیں، اسے نہیں پتہ؟ آپ کہیں، اسے ہی تو سب پتہ ہے اس کے ’’ منشی‘‘ فرشتوں کے روپ میں تمہارے کندھوں پر سوار ہیں سب دیکھ رہے ہیں، شرمائے اور پریشان ہوئے بنا جواب ملے گا’’ وہ معاف کرنے والا ہے، بندہ تو غلطیوں کا پتلا ہے، وہ رحمان و رحیم ہے‘‘ حضرت انسان کے پاس ہر بات کی تاویل موجود ہے اس لیے اسے صرف اپنے مفادات کی غلامی پسند، دوسرے جائیں ’’ بھاڑ ‘‘ میں، اس کا دعویٰ ہے کہ ہم اس کے محبوبؐ کی امت ہیں، شافی محشر خود ہماری سفارش کریں گے اسے فخر ہے اپنے آقاؐ پر، اسے یہ اندازہ بالکل نہیں وہ تو دنیا میں آیا تو دنیا کا ہو کر رہ گیا اس کا کوئی کام ایسا نہیں کہ آقائے دو جہاںؐ اس پر فخر کر سکیں، بس اسے مان ہے امت محمدی سے تعلق ہونے پر لہٰذا جو چاہے کرے اس کے لیے ہر صورت معافی ہی ہے، اسی غلط فہمی میں سب جی رہے ہیں، جیے جا رہے ہیں کسی کو کسی کی فکر نہیں ، یہاں تک اکثریت ’’ حقوق العباد‘‘ بھی پورے نہیں کر رہی۔ خلق خدا سے محبت و پیار اور اس کے حقوق کی فکر تو بہت دور کی بات ہے۔ بس یہی لاپرواہی اور دوری معاشرے کی تباہی کا باعث بنی ہوئی ہے۔
منتخب حکومتیں اور پارلیمنٹ آئین سازی کے ذریعے عوامی فلاح کے راستے تلاش کرنے اور سہولیات کے لیے ہر دور میں قانون بناتی ہے پھر وقتاً فوقتاً اس میں ترامیم بھی کی جاتی ہیں تاکہ قانونی سقم دور کئے جا سکیں لیکن ہم تو قانون توڑنا بھی اپنا حق بلکہ فرض سمجھتے ہیں اسی لیے بڑے جوش و خروش سے قانون بنتے ہیں پھر بھی عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے ہاں انسانی جان کا دشمن سب سے بڑا شیطانی چرخہ’’ موٹر سائیکل‘‘ ہے۔ سیکڑوں نوجوان ’’ ون ویلنگ‘‘ کے شوق میں زندگی کی بازی ہار کر اپنے ماں باپ عزیز و اقارب کی زندگیاں برباد کر چکے لیکن اس موت کے کھیل میں کمی نہیں آئی ، پولیس نے بھی نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی ، کوئی مثبت نتیجہ اس لیے نہیں نکلا کہ شیر جوان پولیس ’’ مک مکا‘‘ کی بادشاہ ہے۔ پنجاب میں فیصلہ ہوا کہ بغیر ’’ ہیلمٹ‘‘ پٹرول نہ دیا جائے پھر بھی کچھ حاصل نہیں ہوا تاہم پورا سال تو کوئی مہم نہیں چلائی جا سکتا۔ اب لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شاہد کریم کو’’ انسان بچائو ‘‘ کا جوش آیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہیلمٹ کے استعمال سے ایک رپورٹ کے مطابق 35فیصد قیمتی جانوں کو بچایا گیا ہے لہٰذا اس ہیلمٹ مہم کو مستقل بنیادوں پر چلایا جائے اور ہیلمٹ استعمال نہ کرنے والوں کو نہ صرف پانچ ہزار جرمانہ کیا جائے بلکہ ٹریفک رولز میں بھی ضرورت کے مطابق ترامیم کی جائیں۔ ان کی تجویز ہے کہ موٹرسائیکل سوار ایک ہوں یا کہ دو سب کو ہیلمٹ کا استعمال کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر پولیس سیف سٹی کیمروں کی مدد سے فعال کارروائی کرے تو بہترین نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں یقینا یہ مفاد عاملہ کا فیصلہ ہے انسانی جان بچانے کے لیے سخت فیصلے اور ون ویلنگ سے زیادہ نوجوانوں کی زندگیوں کا دشمن ’’ منشیات مافیا‘‘ ہے۔ بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی کے بعد زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کا بھی منشیات سکینڈل منظر عام پر آ چکا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ تمام نجی اور سرکاری اداروں میں یہ صحت دشمن بیماری پائی جاتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جہاں جہاں کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہو گیا اس کا میڈیا نے سکینڈل بنا دیا باقی محفوظ کوئی ادارہ نہیں۔ قانون موجود ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں، ’’ منشیات مافیا‘‘ کھلے عام اپنی سرگرمیاں کر رہا ہے لیکن کسی میں کارروائی کی جرأت نہیں، یہی نہیں سرعام انہیں منشیات مافیا کے کارندے نشہ آور اشیاء بیچتے بھی نظر آتے ہیں بلکہ منشیات کے عادی افراد اور منشیات فروشی کے اس کالے دھندے میں خواتین کی بڑی تعداد بھی ملوث ہے۔ اب خبر ملی ہے کہ چند دنوں میں نشیوں کی موجیں ختم ہونے لگی ہیں۔ حکومت پنجاب نے پولیس کو ٹاسک دے دیا ہے کہ پولیس نے ان جرائم زدہ اڈوں کو نگران حکومت کی منظوری سے ابتدائی منصوبہ بندی کر رہی ہے جس پر ڈیڑھ کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ اس خصوصی منصوبے کے تحت تمام پلوں کے نیچے ’’ پلے ایریاز‘‘ بنائے جائیں گے۔ پہلا پراجیکٹ شہر لاہور کے میاں میر پل کے نیچے چھوٹے چھوٹے سپورٹس کمپلیکس کی صورت بنایا جائے گا جہاں بیڈمنٹن، والی بال، کرکٹ اور دیگر گیمز کے لیے جدید سہولیات کے ساتھ سات باکس بنائے جائیں گے جس میں خوبصورت پارک اور عوام کے بیٹھنے کی جگہ بھی ہو گی۔ پہلے منصوبے کی کامیابی کے بعد پولیس پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت باقی پلوں کے نیچے بھی ایسے ہی ملٹی گیمز پوائنٹ بنائے جائیں گے۔ یقینا یہ مثبت سرگرمی ہے اور ان پلوں کے نیچے موجود نشیوں سے نجات مل جائے گی لیکن اس مثبت سرگرمی میں منشیات زدہ نوجوانوں اور منشیات مافیا سے متعلق کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی کہ یہ منشیات کے عادی یہاں سے کہاں جائیں گے کیا انہیں اٹھا کر علاج و معالجہ کے لیے کسی جگہ شفٹ کر دیا جائے گا یا انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا تاکہ وہ گلی محلوں میں نئے ٹھکانے بنا کر مزید نوجوانوں کی بربادی کا باعث بنیں۔
نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کے لیے یہ سینکڑوں نوجوان خوبصورت نہر کے کنارے جلو سے چوہنگ تک کسی چیلنج سے کم نہیں۔ وہ لاہور کے لیے شب و روز ترقی و خوشحالی کے کام کر رہے ہیں انہیں اس مسئلہ کو بھی فوقیت دینی چاہیے۔ یہ ایک گھر، ایک محلے اور ایک علاقے کا مسئلہ ہرگز نہیں، پورا شہر لاہور منشیات مافیا کے ہاتھوں پریشان ہے۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں نوجوان اپنے گھروں کو خیر باد کہہ کر نشے کے چکر میں گھن چکر بنے ہیں۔ روزانہ لاکھوں افراد اس اہم شاہراہ پر جھومتے دیکھتے ہیں ۔ ہرروز ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن پولیس ان سے بے خبر صرف اس لیے ہے کہ انہیں ’’ مافیا‘‘ ان کا بھتہ باقاعدہ طور پر پہنچا رہا ہے اس انسانی بے حسی پر نہ کوئی افسر کارروائی کرتا ہے نہ ہی کسی کو ’’ سوموٹو‘‘ یاد آتا ہے۔ قانون بے بس دکھائی دیتا ہے کیونکہ ’’ منشیات مافیا‘‘ بہت زیادہ مضبوط ہے۔ نسل تباہ ہو رہی ہے اور شہر تماشائی ہے اس لیے کہ ذمہ داران خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ہم جیسے قوم پرست ان تباہ حال نشے کے عادی افراد کو چینی فیصلے کا حقدار سمجھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اگر انہیں مستقبل کی بہتری اور ترقی کے لیے اگر گولی کا آرڈر کر دیا جائے تو ’’ انسان بچائو‘‘ کے نعرے میں حقوق انسانی کے دعویدار منظر عام پر آ جائیں گے ان بے چار و لاچار لوگوں کی ظاہری حالت ایسی ہے کہ انہیں علاج کی سہولت مہیا کر کے بھی قومی دھارے میں نہیں لایا جا سکتا۔ یہ تو ہے تصویر کا ایک رخ، دوسرا رخ یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں منشیات فروشوں کی سزائے موت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وطن عزیز کی 75سالہ تاریخ میں آج تک کسی کو’’ سزائے موت‘‘ ہوئی نہیں پھر بھی ’’ مافیا‘‘ کی طاقت دیکھ لیں اس نے اندیشہ ’’ سزائے موت‘‘ کا کھاتہ بھی سیل کرا دیا۔ اب کون پوچھے اور کون بتائے کہ ’’ منشیات مافیا‘‘ سے نجات حاصل کرنے کے لیے نیا فارمولا کیا ہو گا؟ لگتا تو ایسا ہی ہے کہ کوئی اس سے مستقل جان نہیں چھڑانا چاہتا، لیکن اس بات کی بھی گارنٹی نہیں کہ یہ نشہ صرف کسی ایک طبقے تک محدود رہے گا، یہ کسی بھی ذمہ دار کے گھر تک پہنچ سکتا ہے پھر’’ انسان بچائو ‘‘ کی ضمانت کون دے گا؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button