ColumnImtiaz Aasi

پاکستان ناکام ریاست ہے؟

 

امتیاز عاصی
کسی ریاست کی کامیابی کا دارو مدار صرف اس کے دفاعی امور پر محیط نہیں ہوتا بلکہ اس کی کامیابی کے لئے بہت سے مراحل طے کرنا ضروری ہیں۔ الحمدللہ ہمارا ملک دفاعی لحاظ سے مضبوط ہے تاہم اگر مجموعی طورپر دیکھا جائے تو ہم ایک ناکام ریاست کے باسی ہیں۔ قیام پاکستان سے اب تک ہم معاشی ناکامی کا رونا کیوں رو رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے ہمارا شمار بھکاری ملکوں میں ہوتا ہے۔ جس ملک کے وزراء اعظم اور سپہ سالار کو ڈالروں کی خاطر ملکوں ملکوں جانا پڑے ایسے ملک کو ہم کامیاب یا ناکام ریاست کا نام دیں گے۔ دوست ملکوں سے قرض مل جائے تو چند ماہ خوشی کے شادیانے بجانے کے بعد ہم اسی پرانی ڈگر پر چل نکلتے ہیں۔ کسی ملک کی معیشت میں برآمدات اور ترسیلات زر کے ساتھ ملک سے حاصل ہونے والے محاصل کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ تارکین وطن کا بھلا ہو وہ ترسیلات زر بھیج کر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرتے رہتے ہیں وگرنہ جہاں تک محاصل کی وصولی کی با ت ہے اس میں کوئی حکومت ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ ریاست پاکستان میں محاصل کی وصولی کا بڑا ادارہ ایف بی آر ہے۔ عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو پرائیویٹ سیکٹر سے اس امید کے ساتھ معاشی ماہر شبر زیدی کو اس ادارے کی سربراہی سونپی گئی وہ محاصل کی وصولی کا نہ صرف ہدف پورا کریں گے بلکہ ریکارڈ ٹیکس جمع کریں گے ورنہ عام طور پر انکم ٹیکس یا کسٹمز گروپ کے گریڈ بائیس کے اعلیٰ افسر کو ایف بی آر کا چیئرمین لگایا جاتا ہے۔ چند ماہ قبل شبر زیدی کا ایک انٹرویو نظر سے گزرا جس میں موصوف فرماتے ہیں عمران خان کے دور میں معاشی معاملات درست سمت میں چل رہے تھے۔ ایک نجی چینل کو حال ہی میں انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا عمران خان کی حکومت رہتی تو ملک معاشی طور پر تباہ ہو جاتا۔ چند ماہ کے وقفے کے بعد شبر زیدی نے یوٹرن لے لیا حالانکہ اس سلسلے میں سیاست دان شہرت رکھتے ہیں۔ موصوف نے چند چونکا دینے والے حقائق ضرور بیان کئے ہیں جن سے عوام بہت کم واقف ہیں۔ انٹرویو میں کہی گئی تمام باتوں کو کالم میں سمیٹنا بہت مشکل ہے۔ ان کے حوالے سے کہی گئی چند اہم باتوں کو قارئین کی نظر کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں ٹیکس کی وصولی کے لئے بلوچستان کے سمگلروں پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی گئی تو ایک اہم ادارے سے تعلق رکھنے والے افسر نے بتایا ان پر ہاتھ ڈالا گیا تو لااینڈ آرڈر کا مسئلہ ہو سکتا ہے جس کے بعد موصوف نے بغیر چوں چراں کئے نوٹس واپس لے لئے۔ کے پی کے میں تمباکو مافیا پر ہا تھ ڈالنے کی کوشش کی گئی تو اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور بہت سے سینیٹرز نے انہیں گھیر لیا۔ ان کا موقف تھا اگر ان سے ٹیکس وصول کیا گیا تو وہ ٹی ٹی پی والوں کی مالی اعانت کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ تاجر برادری کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا تاجر برادری کا کلک بہت مضبوط ہے ٹیکس مانگا جائے تو شٹر ڈائون کر دیتے ہیں۔ جہاں تک رٹییلر کی بات ہے وہ بھی ایک بڑ ا مافیا ہے جن پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہے۔ کسی ریاست کا تاجر برادری یا چند سینیٹرز کے سامنے سرنڈر کر جانا ناکامی نہیں تو اور کیا ہے۔ کاروباری طبقہ ٹیکس ادا نہیں کرے گا تو ملکی معاملات کیسے چلیں گے۔ نواز شریف دور کی بات کریں تو ان کے دور میں تاجروں کو زیادہ سے زیادہ مراعات سے نوازنے کے باوجود تاجر برادری نے ٹیکس دینے سے انحراف کیا۔ عجیب تماشا ہے فاٹا کو کے پی کے میں شامل کرنے سے کون سے قیامت آگئی ہے جو ٹیکس وصول کرنے سے آجاتی۔ ہمیں اپنی افواج پر فخر ہے فاٹا ہو یا بلوچستان خون کے نذرانے دے کر سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کے ہوتے ہوئے کیا یہ ممکن ہے کوئی حکومت کو ٹیکس ادا نہ کرے۔ حقیقت یہ ہے سیاسی حکومتیں کمزور وکٹ پر کھڑی ہوتی ہیں۔ ہماری مسلح افواج کے لوگ اینٹی نارکوٹکس فورس میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے منشیات کی سمگلنگ روک سکتے ہیں انہیں فاٹا میں سٹیل فیکٹریوں اور تمباکو کا کاروبار کرنے والوں سے ٹیکس وصولی پر مامور کیا جائے تو ہم دعویٰ سے کہتے ہیں جو لوگ ٹیکس دینے سے انکاری ہیں وہ وقت ضائع کئے بغیر ٹیکس ادا کریں گے۔ سیاسی حکومتوں کا یہی تو رونا ہے انہیں ارکان اسمبلی اور سینیٹرز سے بنانی پڑتی ہے جیسے ارکان سے تعلقات میں سرد مہری آئے حکومت کے خلاف محاذ آرائی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ عمران خان اور چیئرمین ایف بی آر کی درمیان بات چیت معمول کا حصہ تھے۔ تعجب ہے شہزاد اکبر کا ٹیکس وصولی سے کیا تعلق تھا۔ بقول شبر زیدی جب کوئی معاملہ زیر بحث آتا تو عمران خان شہزاد اکبر کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہتے شہزاد کیا خیال ہے۔ کوئی مانے نہ مانے عمران خان کمزور ترین وزیراعظم واقع ہوئے ہیں۔ شبر زیدی نے عمران خان کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دیا ہے اس نے کسی کے خلاف کیس کھولنے کو نہیں کہا تھا۔ شبر زیدی نے مارچ 2024 ء کو عوام کے لئے مشکل ترین وقت کا اشارہ دیا ہے جس میں آئی ایف ایم پاکستان سے مزید سختی سے پیش آئے گا۔ حال ہی میں افواج پاکستان کے تعاون سے زرعی اصلاحات کی طرف توجہ دینے کا آغاز کیا گیا ہے جس کے بعد مستقبل قریب میں زرعی شعبے میں مزید ترقی کی امید کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ ہماری تجویز کو سیاسی اور سرکاری حلقوں میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جائے گا ہماری ناقص رائے میں ایف بی آر کی سربراہی بھلے کسی بیوروکریٹ کے پاس ہو ٹیکس وصولی کے لئے افواج پاکستان کی خدمات حاصل کی جائیں تو بڑے بڑے اسمگلر اور مافیاز ٹیکس نیٹ میں لائے جا سکتے ہیں۔ حکومت کسی جماعت کی ہو انکم ٹیکس رولز میں ترامیم وقت کے اہم ضرورت ہے جو کاروباری لوگ پورا ٹیکس ادا نہیں کرتے ان کے خلاف فوجداری مقدمات اور بھاری جرمانے کئے جائیں تو ایک وقت آئے گا جب تمام کاروباری لوگ اور مافیاز ٹیکس ادا کریں گے۔ تاسف ہے سرکاری ملازمین سے ٹیکسوں کی وصولی ان کی ماہانہ آمدن سے کر لی جاتی ہے اس کے برعکس کاروباری طبقہ ٹیکس دینے سے گریزاں کیوں ہے۔؟ جو ریاست سمگلروں اور تاجروں سے ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہے اسے ہم کامیاب یا ناکام ریاست کہیں گے؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button