ColumnImtiaz Ahmad Shad

اتنی بے بسی کیوں؟

امتیاز احمد شاد

سوال یہ نہیں کہ ہم برباد کیسے ہوئے، سوال یہ ہے کہ اسباب کیا ہیں؟ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بربادی کے اسباب، انفرادی ہوں یا اجتماعی ہمیشہ ہر خطے میں ایک جیسے رہے ہیں۔ نوابوں کی سرزمین بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی کے ہوشربا، ہولناک اور دل دہلا دینے والے واقعات، انکشافات سے لیکر لودھراں میں ایک بھیک مانگنے والی خاتون سے دس روز تک ہونے والی اجتماعی زیادتی تک ہر چیز واضح کر رہی ہے کہ دنیا کے چھٹے بڑے ملک کو بھوک اور ننگ کا کیوں سامنا ہے؟ کل تک جو قومی مجرم تھے، وہ آج مسند پر ہیں، ملکی معیشت کی بربادی کا جنہیں ذمہ دار ٹھہرایا گیا انہی کو معاشی معاملات کا ٹھیکے دار بناکر یہ مہر ثبت کر دی گئی کہ دنیا کی بہترین میزائل ٹیکنالوجی اور ایٹمی قوت ہو نے کے باجود ہم اتنے بے بس کیوں ہیں؟ جس ملک میں بہترین تعلیمی درسگاہوں کی طالبات سے لے کر بے بس ، لاچار بھکارن تک ہوس کا نشانہ بن رہی ہوں اس ملک کی بربادی کے اسباب تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ افسوس صد افسوس! جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس کے اصول کی بھرپور عکاسی کرنے والے ہمارے نظام کے تار و پود بری طرح سے بکھر چکے ہیں۔ ریاست کا ہر ادارہ تباہی و بربادی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ سب کچھ اِس بری طرح سے گڈ مڈ ہوچکا کہ شاید اب خود کو عقلِ کل سمجھنے والوں کا علم بھی جواب دے چکا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ملک کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے، اب اُس کے نتائج سے کیسے نبردآزما ہوا جائے۔ دیکھا جائے تو یہ سب کچھ ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا۔ کھوکھلے نعروں اور دلاسوں کا اثر ایک دن ٹوٹنا ہی تھا۔ ہمیشہ ہمارے کانوں میں یہی آوازیں پڑتی رہیں کہ سب مل کر ملک کو لوٹ رہے ہیں لیکن یہ پھر بھی چل رہا ہے، کیونکہ یہ خدا داد مملکت ہے، لیکن اب تو جیسے برتن ہی اوندھے ہوگئے ہیں۔ یقینا اب سینوں میں ٹھنڈ پڑ گئی ہوگی۔ کہا تو یہی جاتا رہا کہ ہمارا ملک رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں وجود میں آیا تھا اِس لیے کوئی اِس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ 1971ء میں یہ نظریہ بھی غلط ثابت ہوچکا۔ جہاں بھی جبر کی حکومت ہو، وہاں حقائق بعد میں ہی منظرِ عام پر آتے ہیں کہ دکھایا کیا جاتا رہا اور پسِ پردہ ہوتا کیا رہا۔ یہی قانونِ قدرت ہے کہ جب تاریخ حقائق کو جانچتی ہے تو پھر سب کچھ سامنے آن موجود ہوتا ہے۔
تاریخ کے طالبعلم اچھی طرح واقف ہیں۔ 1258ء تک اسلامی سلطنت کا پایہ تخت ہونے کی وجہ سے بغداد کو عالمی سطح پر مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ تب یہی گمان کیا جاتا تھا کہ اِس سلطنت پر قدرت کی خاص کرم نواز ی ہے۔ یہ تک مشہور تھا کہ جو بھی مسلمانوں کے خلیفہ کو قتل کرے گا اُسے خدا کے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب ایسے تصورات نے جڑ پکڑی تو سب کچھ پٹڑی سے اُترتا چلا گیا لیکن کسی میں اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ خلیفہ کو یا حکومت کو حقیقت کا آئینہ دکھا سکتا۔ وجہ یہی تھی کہ اپنی جان سب کو پیاری تھی۔ اگرچہ اندر ہی اندر یہ کھسر پھسر بھی چلتی رہتی کہ یہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہورہا لیکن بات کبھی سرگوشیوں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ عمائدینِ سلطنت کو گمان تھا کہ اگر سلطنت پر حملہ ہوا تو قدرت خود اِس کی حفاظت فرمائے گی۔ پھر وہی ہوا جو اِن حالات میں ہوا کرتا ہے۔ 1258ء میں ہلاکو خان نے بغداد کو فتح کرنے کے بعد اِس شہرِ بے مثال کو اس طرح سے برباد کیا کہ آج تک یہ شہر اپنی عظمتِ رفتہ کو کھوجتا پھر رہا ہے۔ پورے شہر کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ لاکھوں افراد کو قتل کردیا گیا۔ قتلِ عام اتنے وسیع پیمانے پر ہوا کہ کئی روز تک دریاوں میں خون بہتا رہا۔ نادر و نایاب کتب خانے جلا دیے گئے اور ہر وہ ظلم روا رکھا گیا، جو کیا جاسکتا تھا۔ سلطنتِ عباسیہ کا آخری خلیفہ مستعصم باللہ منگولوں کا قیدی بن چکا تھا، جس کی حالت یہ تھی کہ اُسے کئی روز تک کچھ بھی کھانے کو نہ دیا گیا۔ چند روز کے بعد جب خلیفہ مستعصم باللہ کو ہلاکو خان کے سامنے پیش کیا گیا تو ہلاکو خان نے ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ایک تھال منگوایا اور حکم دیا کہ یہ ہیرے جواہرات کھائو۔ خلیفہ نے کہا کہ وہ اِنہیں کیسے کھا سکتا ہے؟ ہلاکو خان نے کہا کہ جب تم اِنہیں کھا نہیں سکتے تھے تو پھر اِنہیں سینت سینت کر جمع کیوں کر رکھا تھا۔ ہلاکو خان کو یہ معلوم تھا کہ خلیفہ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ جو بھی زمین پر اس کا خون بہائے گا، اُس پر عذاب نازل ہوگا۔ کہا جاتاہے کہ ہلاکو خان نے اسی خیال کے پیشِ نظر خلیفہ کو ایک قالین میں لپیٹنے کا حکم دیا جس کے بعد اِسے گھوڑوں کے ٹاپو مار
مار کر دردناک طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ تب ہلاکو خان نے بھرے دربار میں کہا کہ میں ہی وہ عذاب ہوں جسے تم پر نازل کیا گیا ہے۔ جب بغداد میں خون کی یہ ہولی کھیلی جارہی تھی تو کسی طرف سے کوئی امداد نہ آئی۔ یہ تو تاریخ کا صرف ایک واقعہ ہے، ورنہ تاریخ ایسے عبرت ناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ دور کیا جانا، برصغیر میں صدیوں تک قائم رہنے والی مغل سلطنت کا کیا حال ہوا تھا؟ قدرت کے اپنے اصول ہیں اور اِن اصولوں پر عمل کرنے والا ہی فتح یاب ہوتا ہے۔ آج سلطنتِ عباسیہ اور سلطنتِ مغلیہ کو تاریخ کا حصہ بنے ہوئے کئی صدیاں بیت چکی ہیں۔ آج جب تاریخ اِن واقعات کے بخیے اُدھیڑتی ہے، ان کا پوسٹ مارٹم کرتی ہے تو وہ کسی کو نہیں بخشتی۔ ہر اُس شخص کے کردار کا باریک بینی سے جائزہ لیتی ہے جو اِس زوال کا باعث بنا۔ تاریخ کوئی تمیز رکھے بغیر بتاتی ہے کہ سلطنتوں کی زوال پذیری میں کس حکمران کا کتنا ہاتھ تھا، کون سے جرنیل، کون سے وزیر، کون سے مشیر اور کون سے مصاحب اِس کے ذمہ دار تھے یا عام شہریوں کا اُس وقت کیا کردار تھا۔ اُس دور کے قاضی و منصفین یا محراب و منبر کا طرزِ عمل کیسا تھا۔ معاشرے میں انصاف کی صورتحال کیا تھی، مارکیٹ کا نظام کیسا تھا۔ تاجر طبقہ اس زوال میں کتنا حصے دار تھا۔ پاکستان کے موجودہ حالات اور ان کے اسباب وہی ہیں جوتباہ شدہ سلطنتوں کے تاریخ میں ملتے ہیں۔ مسئلہ البتہ وہی ہے کہ ہر کسی کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے۔ آج بھی ہمارے اندر حقائق کو قبول کرنے کی رتی برابر بھی جرات نہیں۔ لیکن کیا کیا جائے، آج ہمیں جن حالات میں پہنچا دیا گیا ہے، انہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آج بھی کوئی سمجھنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا۔ آج بھی ہمیں یہی بتایا جا رہا ہے کہ فلاں ملک ہمارے خلاف ہے، فلاں لیڈر ملک دشمن ہے ۔ یقینا یہ باتیں درست ہوں گی مگر سوال یہ ہے کہ ریاست اتنی بے بس کیسے ہو گئی؟ کیوں ہم چند ڈالروں کے لئے بھکاری بن گئے؟، کیوں ایک زرعی ملک کی عوام روٹی جیسی بنیادی ضرورت کو ترس رہے ہیں؟، ہماری درسگاہیں کیوں اور کیسے اس نہج پر پہنچیں؟ اخلاقی پستی کا شاید ہی کسی قوم کو اتنا سامنا کرنا پڑا ہو جتنا ہمیں ہے۔ جس ملک میں گرد سے اٹی زخموں سے چور بھکارن کو دس دن تک ہوس کا نشانہ بنایا گیا ہو اس ملک کے انصاف پر ۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button