Ali HassanColumn

مشکل وقت کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں

علی حسن

آئی ایم ایف نے قرضہ دینے کے لئے جس انداز میں عملا ناک رگڑوائی ہے اور وزیر اعظم نے اس عزم کا بار بار اظہار کیا ہے کہ کشکول توڑنا ہوگا۔ اس کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے شاہانہ اخراجات سے اندازہ تو نہیں ہوتا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورت حال خراب ہے۔ اگر معاشی صورت حال خراب ہے تو اس کی عکاسی حکومتوں اور حکمرانوں کے رویوں سے تو نہیں ہوتی ہے۔ وفاقی حکومت اثاثوں پر ’’ برائے فروخت‘‘ کا بورڈ لگا چکی ہے۔ ہوائی اڈے لیز پر دئے جارہے ہیں۔ بندر گاہ کرایہ پر دی جارہی ہے۔ یہ ایسی چیزوں پر غیر ملکیوں سے سرمایہ کاری کرا رہے ہیں جو انہیں واپس کبھی نہیں کریں گے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت نہایت سنجیدگی سے غور کرے کہ اثاثے فروخت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے اور اسے کس طرح روکا جا سکتا ہے۔ اس پر غور کرنا چاہئے بجائے اس کے کہ ’’ فروخت کر دو‘‘۔ اثاثے فروخت کر کے ملک کیسے چلایا جائے گا۔ اگر ایسا ہی ضروری ہے تو پانچ وزارتوں کے علاوہ ساری کی ساری وزارتوں کو لیز پر دے دیا جائے۔ ویسے کوئی یہ وضاحت کرے گا کہ اس ملک کو کیوں ستر اور اسی وزیروں کی ضرورت ہے۔ کیوں حکومتوں کے اتنے بڑے حجم رکھے ہوئے ہیں۔ قرضے لے کر حکومت چلانے کا وقت نہیں ہے۔ حکومت کیوں نہیں طاقتور سیاست دانوں کے جائیدادوں اور بڑے سرکاری دفتر کو فروخت کر نے کے بارے میں غور کرتی ہے۔ بجلی ہو، پٹرول ہو، گیس ہو، غرض عوام کے استعمال کی ہر چیز کی قیمت میں عام آدمی کے لئے ہوش ربا قیمت ہو گئی ہے۔ جن کے پاس وسائل ہیں وہ تو ہر ہر قیمت پر ہر چیز خریدنے کے طاقت رکھتے ہیں لیکن عام لوگ کیا کریں۔
پنجاب بھر کے اسسٹنٹ کمشنرز سمیت ضلعی افسران کیلئے نئی گاڑیاں خریدنے کے معاملے پر لاہور ہائیکورٹ نے صوبے کے سرکاری محکموں اور افسران کے زیر استعمال گاڑیوں کی تفصیلات کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے حکومت پنجاب سے دس روز میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے کہ بتایا جائے کہ صوبے بھر میں کتنی گاڑیاں محکموں اور افسران کے پاس ہیں۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہی کہ سخت شرائط پر قرض کے بعد غریب عوام پر بھاری ٹیکس عائد کر دئیے گئے ہیں۔ عوام مہنگائی اور بھوک سے خودکشیاں کر رہے ہیں۔ پنجاب حکومت نے غریب عوام کو ریلیف دینے کی بجائے افسران کیلئے نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ پنجاب حکومت نے دو ارب 33کروڑ روپے سے زائد مالیت کی اسسٹنٹ کمشنرز اور افسران کی گاڑیوں کیلئے فنڈز جاری کر دیئے ہیں۔ صوبے بھر کے اسسٹنٹ کمشنرز، افسران اور محکموں کے پاس پہلے ہی بڑی تعداد میں گاڑیاں موجود ہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ نگران حکومت نے اختیارات نہ ہونے کے باوجود اربوں روپے گاڑیوں کی خریداری کیلئے جاری کئے ہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت اسسٹنٹ کمشنرز اور افسران کو گاڑیاں دینے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے۔
سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ گشت کر رہی ہے کہ ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیاں ہیں۔ اگر کم از کم دس لٹر روز بھی لگائیں 15 لاکھ لٹر پٹرول روز کا خرچ، مفت بجلی، ان ڈیڑھ لاکھ کو ہی 10یونٹ روز لگائیں تو 15لاکھ یونٹ بجلی روز، ماہانہ 4کروڑ 50لاکھ لٹر و یونٹ، یعنی 54کروڑ سالانہ پٹرول و بجلی، ایک کھرب 37ارب 70کروڑ کا پٹرول، 19ارب کی بجلی ، اسی طرح مفت گیس، مفت فون، مفت ملازمین، ٹی اے ڈی اے، مختلف ناموں سے الائونسز۔۔۔ آئی ایم ایف کے تین ارب تو ان وزرا، افسران پر ہی خرچ ہوجائیں گے۔
اتحادی حکومت میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل نیئر حسین بخاری نے چیف جسٹس سپریم کورٹ، ہائی کورٹس کے ججز، چیف آف آرمی سٹاف اور دفاعی اداروں کے سربراہان کے پروٹوکول میں کمی کی تجویز دے دی ہے۔ ملک کی بڑی آبادی کو ریلیف دینے کیلئے اشرافیہ اضافی بوجھ برداشت کرکے قربانی کی مثال قائم کرے ۔ سابق چیئرمین سینیٹ نے وزیراعظم پاکستان، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، گورنرز، وفاقی اور صوبائی وزراء کو دی جانے والی بجلی اور پیٹرول کی مقدار میں 50فیصد کٹوتی کی بھی تجویز دی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی عوامی مشکلات کم کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ عوامی ریلیف پر یقین رکھتی ہے۔ بجلی کے 300تک یونٹ استعمال کرنے والے متوسط اور غریب طبقے کے لئے بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری دفاتر میں ایئر کنڈیشن کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔ وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، گورنرز ، وفاقی اور صوبائی وزرا بجلی اور پیٹرول استعمال کرنے میں 50 فیصد کمی کریں۔ کفایت شعاری کی اس قسم کی تجاوی حکمران طبقہ بار بار پیش تو کرتا ہے لیکن عمل سرے سے نہیں کر پاتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ اکثر بڑے افسران کچھ کرنے کا ذہن ہی نہیں رکھتے ہیں۔ پورا نظام اتنا الجھا ہوا پے چیدہ کر دیا گیا ہے کہ کوئی کچھ کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نظام کا تو کچھ تبدیل ہوتا نظر نہیں آتا ہے بلکہ سب کی کوشش یہ ہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح بر سر اقتدار آجائیں۔
آڈیٹر جنرل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ اسمبلی کے افسران و ملازمین کو 9بنیادی تنخواہوں کے مساوی اعزازیہ دینے کا انکشاف ہوا ہے۔ 14کروڑ 70لاکھ روپے بغیر کارکردگی کے بطور اعزازیہ تقسیم کئے گئے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں سرکاری خزانے کو 12کروڑ روپے کا نقصان، خلاف ضابطہ الاونس بانٹا گیا۔ سندھ اسمبلی نے 51ملین روپے کے کمپیوٹر، فرنیچر طریقہ کار کے برخلاف خریدے۔ سندھ اسمبلی کے ارکان کو ایک سال میں 9کروڑ روپے سفری اخراجات کی مد میں ادا کئے گئے۔ ارکان سندھ اسمبلی کو سفری اخراجات کی مد میں ادائیگیوں کا ریکارڈ نہیں ہے۔ سندھ اسمبلی نے بغیر معاہدے کے لیے ایک ہی پٹرول پمپ سے 5کروڑ 19لاکھ روپے کا فیول خریدا۔ سندھ اسمبلی کے لیے 52لاکھ روپے کے تحائف خریدے گئے۔ سندھ اسمبلی کے باغ کے لیے 36لاکھ روپے کے پودے خریدے گئے۔
ایک خبر یہ بھی پڑھ لی جائے تو بہتر ہوگا۔ سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ موجود ہے کہ ’’ نیویارک اور گرد و نواح علاقوں میں جب پچاس ہزار پاکستانی امریکن رہائش پذیر تھے اس وقت پی آئی اے کی سات فلائٹس پاکستان کے لئے اڑا کرتی تھیں۔ جس میں سو فیصد پاکستان امریکن سفر کیا کرتے تھے ۔ آج نیویارک اور سسٹر اسٹیٹس میں پانچ لاکھ سے زیادہ پاکستانی امریکن مستقل آباد ہیں۔ تو فلائٹس بند کر دی گئیں ہیں۔ جبکہ اس وقت پاکستان پائی پائی کی بھیک مانگ رہا ہے ۔ وہ پی آئی اے کے ذریعے نیویارک، شکاگو، ہیوسٹن اور لاس اینجلس کی فلائٹوں سے اربوں ڈالر کمائے جا سکتے ہیں‘‘۔ سوال وہ ہی ہے کہ پاکستان کے مفاد کے بارے میں سوچنے اور فیصلہ کرنے میں حکمران کسی نہ کسی وجہ سے دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button